گزشتہ روز سعودی عرب کے قومی دن کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہا تھا کہ موٹروے پر دوران سفر کراچی سے ایک دوست نے کال کرکے پوچھا: ملک میں جو زلزلہ آیا ہے تو کیا آپ خیریت سے ہیں۔ مجھے اس بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ شام کے سوا پانچ بج رہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا: میں تو گاڑی چلا رہا ہوں‘ نہ تو مجھے زلزلہ محسوس ہوا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کچھ علم ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ زلزلہ انتہائی شدید تھا۔ کئی سڑکیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں اور گاڑیاں تک دھنس گئیں‘ اس کے علاوہ بھی بہت نقصان ہوا ہے تومیں نے گھر اور دوست احباب کو خیریت کے فون کرنے شروع کر دئیے۔ ذہن میں ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ جس طرح چودہ برس قبل کے زلزلے میں شروع میں کئی گھنٹے صرف اسلام آباد کے ایک دو پلازے گرنے کی ہی خبریں آئیں لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹنے کی خبریں بھی سامنے آ گئیں۔ ہزاروں لوگ جاں بحق‘ لاکھوں زخمی ہو گئے تھے اور ان میں سے کئی ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔ بچے والدین اور والدین بچوں سے محروم ہو گئے تھے۔ آٹھ اکتوبر کا زلزلہ رمضان کے پہلے عشرے میں آیا تھا۔ پورے ملک سے لوگوں نے امداد کے ڈھیر لگا دئیے تھے۔ زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے ایرا اور سیرا کے نام سے دو ادارے بھی قائم ہوئے تھے۔ دیگر ممالک نے بھی پاکستان کی مدد کی۔ ان میں سعودی عرب پیش پیش تھا۔ سعودی عرب نے پاکستان میں زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے ریلیف پیکیج کے تحت 1900 مکانات، 33 سکول اور صحت کے 23 مراکز تعمیر کیے۔ یہ مکانات صوبہ بلوچستان اور گلگت بلتستان، سکول اور مراکز صحت سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں تعمیر کیے گئے تھے۔ زلزلے سے متاثرہ بیسیوں مساجد کی تعمیرنو کی گئی۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے بھی مختلف منصوبوں پر کام کیا گیا۔ آج ایک مرتبہ پھر ملک بڑی مشکل میں ہے۔ اگر ملکی وسائل کم پڑ گئے تو یقینا سعودی عرب اور دیگر ممالک اس انسانی المیے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
سعودی نیشنل ڈے کی تقریب میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی اہم شخصیت ذوق و شوق سے شریک ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سعودی حکومت کی مہمان نوازی اور انسان دوستی ہے۔ تقریب میں سعودی سفیر نواف سعیدالمالکی نے تمام مہمانوں کا خود استقبال کیا۔ ہر ایک سے مصافحہ کیا اور خوش آمدید کہا۔ تقریب میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور‘ چیئرمین سینیٹ‘ وزرا‘ مسلح افواج کے آفیسرز‘ مختلف ممالک کے سفرا‘ بیوروکریٹس‘ مذہبی قائدین‘ صحافی اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ دو گھنٹے کی اس تقریب میں سعودی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ تقریب میں چند سعودی نوجوانوں نے تلواریں تھام کر روایتی سعودی رقص پیش کیا۔ اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے کے میڈیا چیف علی خالد ایک متحرک نوجوان ہیں‘ عربی کے ساتھ دیگر زبانیں بھی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ مہمانوں سے اہم سعودی شخصیات کا تعارف کرواتے رہے۔ تقریب میں پروجیکٹر کی مدد سے پاکستان اور سعودیہ کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی اور وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودیہ کی کچھ ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔ مسلمانوں کے لیے سعودی عرب مقدس ترین مقام کی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر سال بیس سے پچیس لاکھ لوگ حج کی ادائیگی کے لیے سعودیہ جاتے ہیں۔ پاکستان سے بھی بڑی تعداد حج اور عمرے کی ادائیگی کرتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حجاج اور زائرین کو کچھ مشکلات درپیش تھیں۔ تقریب میں دکھایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کچھ عرصے قبل سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے سعودی عرب میں کام کرنے والے محنت کشوں اور پاکستانی حجاج کے لیے روڈ ٹو مکہ اور پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے جن خواہشات کا اظہار کیا اس پر سعودی ولی عہد نے مثبت ردعمل دیا‘ حتیٰ کہ عمرہ پر ایک سال میں دو مرتبہ پر دو ہزار ریال فیس جو عائد تھی اس کو بھی ختم کیا گیا۔ روڈ ٹو مکہ انتہائی اہم اور دلچسپ منصوبہ ہے جس کے تحت حاجیوں کو زبردست ریلیف ملا ہے۔ عام طور پر حاجیوں کی امیگریشن سعودیہ اترنے کے بعد ہوتی ہے جس میں طویل انتظار کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ روڈ ٹو مکہ کے تحت یہ مشکل بھی حل ہو گئی ہے۔ اب یہ امیگریشن پاکستان میں ہی مکمل ہو جایا کرے گی۔ حج پر جانے والوں کو سعودیہ جا کر امیگریشن کے طویل عمل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ وہ اپنے ایئرپورٹ سے ہی امیگریشن کا تمام عمل مکمل کروا لیں گے۔ اس سے حاجیوں کو ریلیف ملے گا اور وہ فرض کی ادائیگی پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکیں گے۔ غالباً اس سلسلے کا آغاز اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہو چکا ہے جسے دیگر شہروں تک پھیلایا جا رہا ہے۔
پاکستان ایک عرصے سے معاشی بھنور میں گھرا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کم ہی سرمایہ کار ملک میں آنے کو تیار تھے‘ سعودی ولی عہد کے دورہ کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 20 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے 7 معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے جن سے معیشت کو قدرے سہارا ملا۔ سعودی عرب سے نے کبھی کسی حکمران یا خاص سیاسی جماعت کی طرفداری نہیں کی بلکہ پاکستان کو مقدم رکھا اور ہر حکومت اور حکمران کے ساتھ بہترین تعلقات نبھائے۔ امریکہ جانے سے قبل وزیراعظم عمران خان دو روزہ دورے پر سعودی عرب گئے۔ وہاں سے انہوں نے کمرشل فلائٹ سے آگے امریکہ روانہ ہونا تھا لیکن مہمان نوازی کوئی سعودی عرب سے سیکھے کہ سعودی ولی عہد نے انہیں اپنا ذاتی طیارہ سفر کے لیے فراہم کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں‘ ہم آپ کو کسی اور فلائٹ پر کیسے جانے دے سکتے ہیں۔ ہم اس طرح کا رویہ اپنے بعض ایسے رشتہ داروں اور دوستوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ آپ ٹیکسی پر کسی کے گھر جاتے ہیں تو اگر وہ آپ سے بہت محبت کرنے والا رشتہ دار‘ دوست یا عزیز ہے تو آپ کو ٹیکسی پر نہیں جانے دے گا بلکہ اپنی گاڑی پر چھوڑ کر آئے گا اور جو زیادہ لگائو نہیں رکھتا ہو گا وہ آپ کو خداحافظ کہہ کر دروازہ بند کر لے گا۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ کسی بھی انسان یا ملک کے آپ سے اُنس اور قربت کی علامت ہیں۔ پاکستان بھی سعودی عرب کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑا رہا ہے۔ سعودی عرب پر حملے کی کوششیں جہاں سے بھی کی جاتی رہیں پاکستان نے ان کی نہ صرف زبانی مذمت کی بلکہ عملی طور پر بھی سرزمین حجاز کا دفاع کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ رشتہ آگے چل کر مزید مضبوط ہو گاکیونکہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے کئی معاہدے کر چکا ہے اور ان پر کام شروع ہو چکا ہے۔
موت کا ایک دن تو مقرر ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن زلزلے‘ آگ اور دیگر آفات سے ہونے والی اموات سے ہمارے دین میں بھی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ یہ بہرحال بہت زیادہ دردناک ثابت ہوتی ہیں۔ ویسے تو ہر قسم کی اچانک موت سے پناہ مانگنی چاہیے لیکن اصل میں مرنے سے ڈرنے کی بجائے تیاری کے بغیر مرنے سے ڈرنا چاہیے۔ آج نہیں تو کل سبھی نے مرنا ہے۔ ستر‘ اسی‘ نوے برس جی لیں گے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اگلے جہاں جانے کی تیاری کر لی ہے۔ موت سے تو سبھی کو ڈر لگتا ہے یہ فطری بات ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جنہیں اس بات کا ڈر ہے کہ وہ بغیر آخرت کی تیاری کے ہی نہ مر جائیں۔ اس تیاری میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی۔ زلزلے‘ طوفان تو ایک وارننگ ہوتے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ موت بھی کوئی چیز ہے وگرنہ خدا کی قسم ‘ہم تو زندگی کی گہماگہمی میں موت کو بھی بھول جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی زلزلہ وغیرہ آ جائے تو وہ بھی چند دن بعد کسی کو یاد نہیں رہتا سوائے ان کے جنہیں اللہ کا ڈر اور آخرت میں جواب دہی کا خوف ہو؛ چنانچہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زیادہ فکر زلزلے یا عام موت سے ڈرنے کی نہیں بلکہ بغیر تیاری کے مرنے سے ڈرنے کی ہونی چاہیے۔