میں نے زندگی میں بہت سے ارب پتیوں کو ناخوش اور بہت سے فٹ پاتھیوں کو قہقہے لگاتے دیکھا ہے۔ میں اکثر سوچتا آیا ہوں‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جس کے پاس درجنوں بنگلے‘ گاڑیاں‘ جہاز‘ بینک بیلنس‘ زمینیں‘ کاروبار‘ ملازم سب کچھ ہو‘ اس کے باوجود وہ رنجیدہ‘ بیزار اور پریشان رہتا ہو حالانکہ یہی تو وہ چیزیں ہیں جن کے لیے انسان جدوجہد کرتا ہے‘ اپنا پسینہ اور دوسروں کا خون بہاتا ہے لیکن ان ساری چیزوں کے بعد بھی ناشکرا اور ناراض ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایسا شخص جس کے پاس رہنے کو چھت نہیں‘ جو سفر کیلئے بس اور رکشہ تک افورڈ نہیں کر سکتا اور جو سر درد کی گولی تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا‘ وہ جب بھی لوگوں سے ملتا ہے‘ مسکرا کر ملتا ہے‘ جب بھی دکھائی دیتا ہے خوش دکھائی دیتا ہے اور جو روکھی سوکھی کھاتا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ میں اس کا راز جاننے کی کوشش میں ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن العریفی تک پہنچ گیا‘ اور اس سوال کا جواب مجھے ان کی کتاب سے مل گیا۔
ڈاکٹر العریفی سعودی عرب کے معروف عالم اور مصنف ہیں۔ ان کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے بنو خالد سے ہے۔ یہ 1970ء میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ سعودی جامعات سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں‘ بہت سی اسلامی اور دعوتی تنظیموں کے تاسیسی و اعزازی ممبر بنے اور کئی عالمی تنظیموں کی مجلس مشاورت اختیار کی۔ ساتھ ہی کئی عالمی یونیورسٹیوں میں اعزازی اور الریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی میں باقاعدہ تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ڈاکٹر العریفی زبردست خطیب ہیں۔ انہوں نے پندرہ سال تک شیخ عبدالعزیز بن باز سے تفسیر اور فقہ کا علم حاصل کیا۔ وہ الریاض کی شاندار مسجد البواردی کے خطیب بھی رہے۔ وہ قرآن کے قاری اور حافظ بھی ہیں۔ عربی زبان میں ان کی بیس سے زائد کتب کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ مختلف عربی اخبارات اور میگزینوں میں کالم اور مضامین لکھتے ہیں اور متعدد عربی سیٹلائٹ چینلز پر ان کی تقاریر نشر ہوتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر العریفی جب عمر کے سولہویں برس میں تھے تو ان کے ہاتھ ڈیل کارنیگی کی کتاب ''لوگوں سے معاملہ کرنے کا فن‘‘ لگی۔ انہیں یہ کتاب نہایت عمدہ لگی۔ ڈاکٹر العریفی نے غور کیا کہ کارنیگی محض دنیاوی خوشی اور سعادت مندی کی خاطر لکھتا اور لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر کارنیگی اسلام کے اخلاق و خصائل سے واقف ہو کر لوگوں کی ایسی رہنمائی کرتا جو صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ دونوں جہانوں میں کام آتی تو کیا بات تھی۔ اور جب ڈاکٹر العریفی کو معلوم ہوا کہ کارنیگی نے خود کشی کی تھی تو بہت حیران ہوئے کہ دنیا کو خوشی اور اُمید کا راستہ دکھانے والا خود مایوسی اور نا امیدی کے گڑھے میں کیونکر اُتر گیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے ڈاکٹر العریفی نے ایک کتاب ''زندگی سے لطف اٹھائیے‘‘ لکھ ڈالی۔ یہ کتاب عربی میں دس لاکھ سے زائد شائع ہو چکی ہے۔
کتاب میں ایک جگہ ڈاکٹر العریفی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لیکچر دینے کسی شہر گئے۔ لیکچرز سے واپسی پر وہ ایک عمارت کے سامنے سے گزرے۔ عمارت کو درختوں نے گھیر رکھا تھا۔ یہ نفسیاتی امراض کا ہسپتال تھا۔ انہوں نے گاڑی رکوائی اور وہاں موجود گائیڈ کے ہمراہ اس کے مختلف حصے دیکھنے نکل پڑے۔ ایک برآمدے میں پہنچے‘ جس کے دونوں اطراف کمرے تھے۔ وہاں انہیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ ایک کمرے میں جھانکا تو ایک آدمی کو اوندھے منہ پڑے ہوئے دیکھا۔ اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ انہوں نے گائیڈ سے پوچھا: یہ شخص کب سے اس حال میں ہے۔ جواب ملا ''دس سال سے‘‘۔ ڈاکٹر العریفی نے اللہ سے عافیت طلب کی اور آگے بڑھ گئے۔ ایک اور کمرے میں جھانکا۔ وہاں انہیں ایک آدمی دیواروں سے سر ٹکراتا ہوا نظر آیا۔ گائیڈ بولا: اس آدمی کو دیوار نظر آتی ہے تو مشتعل ہو جاتا ہے ہاتھوں‘ پائوں اور سر سے دیوار کو ٹکریں مارتا ہے۔ کبھی انگلیاں تڑوا لیتا ہے‘ کبھی ٹانگیں اور کبھی سر زخمی کر لیتا ہے۔ ہم نے اس کمرے میں اب دیواروں اور فرش پر ہر طرف فوم لگا دیا ہے تاکہ وہ زخمی ہوئے بغیر اپنی بھڑاس نکال سکے۔ ڈاکٹر العریفی نے یہاں بھی عافیت کی دُعا پڑھی اور آگے چل دیے۔ انہوں نے کئی کمرے دیکھے۔ کہیں کوئی ناچ رہا تھا‘ کوئی گا رہا تھا‘ کوئی اذان دینے میں مصروف تھا‘ کوئی اپنے بال نوچ رہا تھا اور کوئی رسیوں سے بندھا تھا۔ ان میں سے کوئی تین سال‘ کوئی پانچ اور کوئی دس سال سے اسی حال میں تھا۔ گائیڈ نے بتایا: ان میں ایک بڑا تاجر ہے جو کھربوں کی دولت کا مالک ہے۔ دو سال ہوئے کہ اس کے دماغ میں خلل آ گیا اور اس کے لڑکے اسے یہاں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ یہاں انجینئر‘ بزنس مین بھی ہیں۔ ان میں کئی ایک ایسے تھے جو موجود نعمتوں پر ناشکری کا اظہار کرتے رہتے تھے اور پھر اللہ نے ان سے وہ نعمتیں بھی چھین لیں‘ جو ان کے پاس موجود تھیں اور یہ لوگ خوشحال اور کامیاب زندگی گزارتے گزارتے اس حال کو پہنچ گئے کہ انہیں اپنا پتا ہے نہ دنیا کی کوئی خبر۔ ڈاکٹر العریفی نے ایک مرتبہ پھر خدا سے عافیت طلب کی اور وہاں سے نکل آئے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں‘ یہ کتاب اور یہ دنیا ایسے واقعات اور مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر غور کریں تو ہم سب لوگوں میں ایک بات مشترک ہے۔ ہم دنیا کی ہر نعمت اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں اور اگر ہمیں دس نعمتیں نصیب ہو جائیں اور اگلی نہ ملے تو ہماری زبان شکووں اور گلوں سے بھر جاتی ہے۔ ہم ان دس نعمتوں کا شکر تک ادا نہیں کرتے جو ہمیں نصیب ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہر شخص کو زندگی میں ایک وقت میں ہر کامیابی‘ ہر خوشی اور ہر چیز نہیں مل سکتی۔ قدرت کا اپنا قانون ہے۔ بعض اوقات اللہ ایک شخص کو مال و دولت‘ حسب و نسب اور منصب رفیع سے نوازتا ہے لیکن عقل چھین کر پاگل خانے پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے کو مال و دولت اور حسب و نسب کے ساتھ عقل مندی عطا کر دیتا ہے لیکن صحت سے محروم کر دیتا ہے۔ کسی کو صحت‘ اختیار اور عقل دیتا ہے تو مال سے محروم کر دیتا ہے۔ کسی کو خوبصورتی‘ حسن اور مال دیتا ہے تو اس سے سکون چھین لیتا ہے۔ اور کسی کو اقتدار‘ مال اور صحت عطا کرتا ہے تو اسے عزت سے محروم کر دیتا ہے؛ چنانچہ ہر اُس آدمی کو‘ جسے اللہ نے کسی نہ کسی شے سے محروم کر رکھا ہے‘ اللہ کی ناشکری کرنے کی بجائے موجود نعمتوں پر اس کا شکر بجا لانا چاہیے اور یہ کہ اگر انسان کی زندگی میں کوئی ایک چیز کھو جائے تو اس کی ساری زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انسان بنیادی طور پر ناشکرا ہے۔ عجیب بے چینی اس کی طبیعت کو گمراہ کئے رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ارشاد کے مطابق انسان کو پہاڑ کے برابر سونا بھی دے دیا جائے تو وہ مزید کی تمنا کرے گا‘ اس کا دل اور اس کا لالچ اور زیادہ پھیلتا چلا جائے گا۔ یہ درست ہے کہ بنیادی ضروریات کا حصول ہر انسان کا حق ہے اور آج کے دور میں تو ان ضروریات کو پورا کرنا بھی جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ مشقت اور یہ آزمائشیں نہ ہوں تو پھر زندگی کس چیز کا نام ہے؟ قرآن کریم میں جبھی تو اللہ نے کہہ دیا ہے ''ہم ضرور تمہیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے کے ذریعے آزمائیں گے‘‘۔ تو جو لوگ اس آزمائش پر پورا اتریں گے‘ وہ اگلے جہان میں کامیاب و کامران ٹھہریں گے۔ سب سے اہم یہ کہ اگر غربت اور مشکلات آزمائش ہیں تو مال و دولت اور راحت بھی آزمائش کی ہی ایک صورت ہے۔ اللہ مال و دولت اور راحت دے کر یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بندہ میرا کتنا شکر ادا کرتا ہے اور اس مال اور اس سکون کے ذریعے میری مخلوق کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؛ چنانچہ آزمائش سب کے لیے ہے چاہے امیر ہو یا غریب‘ حکمران ہوں یا عوام۔ رہی بات یہ کہ اصل کامیابی کس کو ملے گی‘ اس کا فیصلہ بہرحال روز قیامت ہی ہو گا جس پر میرا‘ آپ کا‘ سب مسلمانوںکا کامل ایمان ہے۔