گزشتہ تین چار ادوارِحکومت میں ایک خبر میڈیا میں بار بار نمودارہو تی رہی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر حکومت مخالف ‘ غیر اخلاقی اور نفرت انگیز مواد پوسٹ اور آگے شیئر کرنے پر متعلقہ صارفین کے خلاف قانونی کارروائی کی جا ئے گی۔ہمارے سوشل میڈیا صارفین اس بات کی حقیقت سمجھے بغیر ہمیشہ اسے مخالفین کو کھینچنے اور خود پر سے تنقید کے وار کم کرنے کے لئے ایک سیاسی پینترا قرار دے دیتے ہیں۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ سوشل میڈیا چونکہ نئی چیز ہے‘ اس کا ظہور گزشتہ دس بارہ برس قبل ہوا ہے اور آہستہ آہستہ یہ دنیا کی آدھی آبادی تک پھیل گیا ہے اور چونکہ اس میں ایک موبائل فون یا کمپیوٹر استعمال ہوتا ہے‘ جس میں زیادہ تر ایپلی کیشنز اور سائٹس مفت ہوتی ہیں‘ اس لئے صارفین ان چیزوں کے قانونی پہلوئوں پر غور کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔چونکہ مفت ملی ہوئی چیز کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کا ماضی میں ایسا کوئی تجربہ رہا ہے ‘اس لئے سوشل میڈیا پر پوسٹس کو دھڑا دھڑ آگے بھی بھیج دیا جاتا ہے‘ یہ سوچ کر کہ یہ نفرت یا الزام پر مبنی پوسٹ کون سا میں نے خود بنائی ہے‘ میں تو صرف آگے ہی بھیج رہا ہوںاور پھنسے گا بھی‘ اگر کوئی ‘تو وہی پھنسے گا جس نے سب سے پہلے اسے بنایا اور اپ لوڈ کیا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی غلط اور غیرمستند پوسٹ کو آگے بھیجنے والا بھی سائبر کرام کی رُو سے اتنا ہی ذمہ دار ٹھہرتا ہے جتنا کہ اسے پہلی مرتبہ بنا کر پھیلانے والا۔ بعض لوگ سوشل میڈیا کو اظہارِ رائے کے لئے آئیڈیل پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں‘ لیکن اظہارِ رائے کی بھی بہر حال ایک حد ہوتی ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر کسی کی عزت کو تار تار کرنے کے لئے کوئی پوسٹ کریں گے یا کسی پوسٹ کو دوبارہ آگے شیئر کردیں گے تو یہ اسی طرح ہے جس طرح کا جرم آپ بغیر موبائل کے کسی کے ساتھ کرتے ہیں۔ آپ کبھی راہ جاتے کس بندے کو گالی دے کے دیکھیں ‘ وہ آپ کو دو تھپڑ اور چار گھونسے پہلے مارے گا اور آپ سے آپ کا نام بعد میں پوچھے گا۔ اسی طرح اگر آپ کسی کو یہ کہیں کہ فلاں یہ کہتا پھرتا ہے کہ تمہارا باپ تو بہت بڑا چور ہے تو وہ بھی آپ کی عزت نہیں کرے گا بلکہ آپ کو زمین پر وہیں لٹا کر چھترول کرے گا‘ کیونکہ اس کے سامنے وہ بندہ تو ہو گا نہیں جس کا وہ حوالہ دے رہا ہے‘ جبکہ آپ اس کے سامنے اس کے باپ کوبرا بھلا کہہ رہے ہوں گے‘ تو وہ کیسے آپ کو معاف کرے گا؟
الیکٹرانک کرائمزسے متعلق آرڈیننس دس برس پہلے سے ہمارے ہاں نافذ ہو چکا ہے‘ جس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا‘ انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا یا سوشل میڈیا پر آگے بھیجنا جسے ناپسندیدہ‘غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے‘ جرم قرار دیا گیا ہے اور ا س کی سزا میں قید اورجرمانہ دونوں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون میں مہلک ہتھیاروں‘ خودکش حملوں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے خفیہ مواد کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات نقل کرنے یا چرانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے اور اسے سائبر ٹیررازم کے زمرے میں رکھا گیا ہے‘ جس کی سزا دس سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوںمقرر کی گئی ہیں۔ اگر اس ایکٹ میں موجود شقوں کو عملی طور پر نافذ کر دیا گیا تو اس ملک میں جس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بغیر سوچے سمجھے چیزیں دھڑا دھڑ شیئر کی جا رہی ہیں تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس قانون کی زد میں آ سکتے ہیں اور اگر کوئی شخص یہ شکایت کر دے کہ فلاں نے سوشل میڈیا پر اس کے خلاف کوئی ناپسندیدہ مواد شیئر کیا ہے تو پھر ایف آئی اے کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ ملزم کو اس کے کمپیوٹراور دیگر سامان سمیت اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس قانون کے تحت ہر ماہ سینکڑوں لوگوں کے خلاف شکایات آنے پر کارروائی بھی ہو رہی ہے اور کئی لوگ حوالات کی سیر بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کو تو انٹرنیٹ اور موبائل فون کو مخالف سیاستدانوں کی کردار کشی کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ زیادہ ہی عام ہو چکا ہے اور سیاسی شخصیات اور ان کی فیملیز کی مبینہ تصاویر فوٹو شاپ کر کے دوسروں کے ساتھ ملا کر سوشل میڈیا پرشیئر کی جا رہی ہیں۔چونکہ ان میں مزاح کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اس لئے یار دوست اپنے گروپ میں شامل دیگر احباب کو ان سے مستفید کرنے کے لئے شیئر کر دیتے ہیں ‘جس کے بعد ایک غیرمستند اور محض الزام پر مبنی پوسٹ چند منٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس ایکٹ کے بعد ان لوگوں کو محتاط ہونا ہو گا جو انٹرنیٹ کومحض کھیل سمجھتے ہیں‘ کیونکہ ایسی تصاویر چاہے اصلی ہوں‘ چاہے انہیں کمپیوٹر میں تیار کیا جائے‘ ان تصاویر کو آگے بھیجنے والے اور تیار کرنے والے نئے قانون کے تحت کئی سالوں کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اب دور کر لیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کی ایک بڑی مثال ڈینئل پرل کیس ہے جس کے مبینہ قاتل تک رسائی ای میل ٹریس کرکے حاصل ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ فحش ویب سائٹس کا ہے جو بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کا اخلاقی جنازہ نکالنے کیلئے ایٹم بم‘ خود کش حملوں اورمہلک کیمیائی ہتھیاروں کے مواد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین جرم کی مرتکب ہو رہی ہیں ۔ صرف امریکہ جنسی مواد پر مبنی ویب سائٹس سے پندرہ بلین ڈالر کما رہا ہے‘ جبکہ دنیا بھر میں اس مد میں کمائی جانے والی رقم ستانوے بلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس پر بھی کام کیا جاتا ہے‘ لیکن کہا جاتا ہے کہ چونکہ زیادہ تر ویڈیو ڈیٹا انہی ویب سائٹس سے ڈائون لوڈ ہوتا ہے اس لئے موبائل اور عام انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کا منافع بھی اسی سے وابستہ ہے ‘اسی لئے کئی معروف فحش سائٹس بھی بغیر کسی پراکسی کے کھل جاتی ہیں جنہیں سب سے پہلے ممنوع کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو اس بارے بھی ایکشن لینا ہو گا اور ہمارے انٹرنیٹ اداروں کو بھی اپنے منافع کی بجائے نئی نسل کی تربیت اور قومی مفادکو مقدم رکھنا ہو گا ۔
الیکٹرانک کرائمز ایکٹ ایسے لوگوںکیلئے ایک اچھی خبر ہے جو موبائل فون پر دھمکیوں ‘انٹرنیٹ پر ہیکنگ ‘دھمکی آمیز اور غیر ضروری ای میلز سے پریشان ہیں۔ اگر آپ کو کوئی دھمکی آمیز کال یا ای میل کرے‘ آپ کا پاس ورڈ چوری کرے‘آپ کے کمپیوٹر کو ہیک کرنے کی کوشش کرے‘آپ کے ڈیٹا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے‘آپ کسی سے بات کر رہے ہوں اور وہ درمیان میں آ کر ڈسٹرب کرنے کی کوشش کرے‘آپ کو بے جا ای میلز بھیجے اورآپ سے فحش انداز میں گفتگو کرنے کی کوشش کرے تو اب آپ بس ایک بار ایف آئی اے کے حضور ایک درخواست بھیج دیں‘اس کے بعد دیکھئے مجرم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔یقین مانئے انٹرنیٹ کوئی بری چیز نہیں ہے‘ لیکن ہم اس کے برے استعمال سے اسے برابنا کر چھوڑیں گے۔ساری دنیا انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر اپنی معیشت کو ایک سو اسی ڈگری پر لے جا کر اٹھا رہی ہے‘ لیکن ہم لوگ ابھی تک اس سے خاص فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ پاکستان میں گوگل کی بھی ویسے کوئی موجودگی نہیں جیسی بھارت اور دیگر ممالک میں ہے۔ ہم سفارتی محاذ پر کمزور ہیں یا پھر ہماری اعلیٰ قیادت اور بیوروکریسی میں جدید اور سائنٹفک خیالات رکھنے والے افسران کی کمی ہے‘ کچھ بھی ہو‘ ہمیں اب بہر حال بیدار ہونا ہو گا۔ سوشل میڈیا کا استعمال اتنا کریں جتنا ضروری ہے یا جیسے آپ اخبار پڑھتے ہیں۔ صبح اور شام کو پانچ دس منٹ ایک نظر مارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ بعض اوقات خوشی غمی کی خبریں بھی وہیں سے ملتی ہیں ۔آئندہ کچھ ہفتوں سے سائبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہونے والا ہے‘ ویسے بھی ہماری قوم کو جب تک ڈنڈے نہ پڑیں یہ قطار بھی نہیں بناتی‘ تاہم خبردار کرنے میں کیا حرج ہے‘ لہٰذا آج سے کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرنے کے معاملے میں بے حد محتاط ہو جائیں‘ صرف اس وجہ سے نہیں کہ حکومت ایسا چاہتی ہے‘ بلکہ اس لئے کہ ایک ذمہ دار شہری کی بھی کچھ ذمہ داریاں ‘کچھ فرائض ہوتے ہیں جو بہر حال انہیں پورے کرنے ہی چاہئیں ۔