چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک نوجوان نے سفید رنگ کی ایک ہزار سی سی نئی گاڑی کی تصویر شیئر کی ہوئی تھی۔ نیچے لکھا تھا: الحمدللہ‘ آن لائن فری لانسنگ کام کے ذریعے حاصل ہونے والے آمدنی کے ذریعے میری پہلی نئی گاڑی۔ بہت سے دوست جو آن لائن کام پر ابھی تک یقین ہی نہیں کر پائے ان کے لئے یہ نا صرف ایک نا قابل یقین خبر تھی بلکہ وہ اس بات پر بھی حیران تھے کہ اس دور میں جب سب رو رہے ہیں‘ کسی کو کام نہیں مل پا رہا تو اس نوجوان کو کہاں سے کام مل رہا ہے۔
میں گزشتہ دو برس سے فری لانسنگ کی اہمیت اور اس کے مستقبل کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ آپ اسے میری پیش گوئی کہہ لیں یا کچھ اور تاہم یہ حقیقت ہے کہ فری لانسنگ کی صورت میں ہر نوجوان‘ خاتون حتیٰ کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے بھی با عزت اور وسیع روزگار موجود ہے اور فری لانسنگ کا دائرہ اگلے پانچ سے دس برس میں اتنا پھیلنے والا ہے کہ آپ کو ہر گھر میں کم از کم ایک شخص فری لانسنگ کرتا ضرور ملے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص اس میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ اس کا گُر کسی دوسرے سے شیئر نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے شاید اس کی اپنی آمدنی خطرے میں پڑ جائے گی یا کم ہو جائے گی۔ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ فری لانسنگ میں کام آپ کو آپ کے شہر‘ صوبے یا ملک سے نہیں ملتا بلکہ پوری دنیا سے میسر ہوتا ہے۔ دنیا میں اس وقت لاکھوں کروڑوں کمپنیاں کام کر رہی ہیں‘ جنہیں افرادی قوت‘ ہنر اور دیگر مہارتیں درکار ہوتی ہیں۔ یہ کمپنیاں بھی اب معمول کی ملازمتیں دینے کی بجائے فری لانسرز کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ فری لانسر کو آپ جتنا کام دیتے ہیں وہ آپ کو بروقت کر کے دے دیتا ہے اور آپ اسے اتنا ہی معاوضہ دے دیتے ہیں۔ دیگر ملازمین کی نسبت آپ کو اسے اپنے دفتر میں جگہ نہیں دینا پڑتی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وہ اپنا استعمال کرتا ہے۔ حتیٰ کہ کمپیوٹر ٹیبل‘ بجلی اور دیگر اخراجات بھی کمپنی کو ادا نہیں کرنے پڑے۔ وہ شخص بیمار ہو جائے تو کمپنی اسے میڈیکل ادا نہیں کرتی جبکہ دوسری صورت میں اگر وہ ایک شخص کو ملازمت پر رکھتی ہے تو کمپنی کو اسے یہ ساری سہولیات دینا پڑتی ہیں۔ اس طرح کمپنی کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہوتی ہے اور اس کے لئے کام کرنے والے بھی بڑی تعداد میں میسر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ کر معیار دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں فری لانسر اور کمپنی دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ جن صاحب کا میں نے شروع میں ذکر کیا وہ سافٹ ویئر بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے موبائل فون کے لئے اینڈرائڈ پروگرامنگ سیکھ لی۔ چونکہ آج کل موبائل ایپلی کیشنز کی بہت زیادہ طلب ہے اس لئے انہیں اس حوالے سے بہت زیادہ کام اپ ورک ویب سائٹ سے ملا جو غالباً فری لانسنگ کی سب سے معروف اور بڑی ویب سائٹ ہے۔ اس کے علاوہ فائیور بھی ہے لیکن اپ ورک پر بڑے آرڈر ملتے ہیں۔ آپ کو ایک پراجیکٹ ایک ہزار ڈالر یا بیس ہزار ڈالر کا بھی مل سکتا ہے۔ بہت سے پروگرامرز آگے مزید نوجوانوں کو ساتھ ملا لیتے ہیں کیونکہ اتنا بڑا کام وہ اکیلے نہیں مکمل کر سکتے۔ ویسے بھی آپ کی ورک فورس جتنی زیادہ ہو گی آپ کی آمدن اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اگر آپ یہ سوچیں گے کہ میں اکیلے ہی کام کر لوں گا تو پھر آپ بہت زیادہ نہیں کما سکیں گے۔ ایک دن میں آپ چودہ سولہ گھنٹے کام کر لیں گے اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر آپ پانچ اپنے جیسے لوگ ساتھ ملا لیں تو اسی ایک دن میں آپ کو ملا کر آپ کے پاس چھیانوے گھنٹے میسر ہوں گے۔ آپ ان چھیانوے گھنٹوں میں دس ہزار ڈالر کا منصوبہ بھی مکمل کر لیں گے لیکن یہی کام اگر آپ اکیلے کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو دس بیس دن لگ جائیں گے‘ اور ممکن ہے وہ کمپنی آپ کو اتنا وقت دینے کو تیار نہ ہو۔ ایک سٹڈی کے مطابق آئندہ دس برس میں بہت سے نئے شعبوں کی طلب بڑھنے والی ہے اور ان میں زیادہ کا تعلق غیر سائنسی شعبوں سے ہے۔ میوزک‘ ڈرامہ‘ آرٹ اور مزاح سے متعلق جن لوگوں کے پاس مہارتیں ہیں وہ لوگ بہت زیادہ آمدن کما سکیں گے بشرطیکہ وہ اس فیلڈ کو مستقل اپنا لیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک شخص بندر یا ریچھ کا تماشا لگا کر کسی چوک میں بیس تیس لوگوں کو ہی دکھا سکتا ہے‘ بدلے میں اسے کتنے پیسے مل جائیں گے؟ سو دو سو۔ لیکن یہی شخص اگر یہ تماشا ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر دکھانا شروع کر دے تو وہ اس سے ہزاروں لاکھوں کما سکتا ہے کیونکہ اسے دیکھنے والے صرف بیس تیس لوگ نہیں ہوں گے بلکہ دنیا بھر تک اسے رسائی مل جائے گی اور لاکھوں لوگ اسے دیکھ سکیں گے۔
نئی نسل کے مستقبل کے حوالے سے آج کے والدین بہت زیادہ متفکر دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح سے آئے روز ڈاکٹر اور انجینئر سڑکوں پر ہڑتالیں کرتے اور ماریں کھاتے دکھائی دیتے ہیں‘ اب ان دونوں پیشوں کی طلب بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ جو ڈاکٹر یا انجینئر بن چکے ہیں وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ بیرون ملک انہیں پُر کشش معاوضہ بھی ملتا ہے اور آسائشیں بھی۔ جہاں تک معمول کے کاروبار کی بات ہے تو کھانے پینے کے سوا دیگر کاروبار اب منافع بخش نہیں رہے۔ لوگ اپنے بچوں کے معاشی مستقبل کو لے کر پریشان ہیں کیونکہ آئے روز ادارے بند ہونے اور نوکریوں کے خاتمے کے خبریں آتی رہتی ہیں۔ بیرون ملک بچوں کو بھیجنا بھی آسان نہیں۔ وہاں وہ معاشی طور پر تو کسی طور مستحکم ہو جائیں گے لیکن اپنے وطن کی بات اور ہے۔ اپنوں سے دوری اور سیکنڈ کلاس سٹیزن بن کر رہنے کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ماضی میں بھی لوگ بیرون ملک جایا کرتے تھے اور زیادہ تر وہاں ٹیکسی چلاتے تھے۔ بالخصوص نیو یارک تو ٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے مشہور ہے؛ تاہم جب سے آن لائن کمائی کے مواقع سامنے آئے ہیں ہزاروں لوگ اپنے ملک میں ہی ڈالر کمانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ انہیں بڑھتی مہنگائی کا بھی فکر نہیں کیونکہ ان کی آمدن ڈالرز میں ہوتی ہے اور یہ اگر بڑھتا ہے تو ان کی آمدن مقامی کرنسی میں بھی بڑھ جاتی ہے‘ جس سے انہیں فائدہ ہی ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ اپنے ملک میں کوئی بہترین نوکری ہی کیوں نہ کر رہے ہوں‘ پٹرول‘ بجلی اور ڈالر کے جھٹکوں سے آپ کی کمائی آدھی رہ جاتی ہے جبکہ اخراجات اسی طرح موجود ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ آن لائن فری لانسنگ یو ٹیوب وغیرہ سے سیکھ کر‘ کر لیتے ہیں لیکن پنجاب حکومت کا ای روزگار پروگرام بھی ان کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں صوبے کے درجنوں شہروں کے تیس مراکز میں تین ماہ کی فری لانسنگ کی مفت تربیت دی جاتی ہے۔ میں نے جس نوجوان کا شروع میں ذکر کیا اس نے بھی ای روزگار سے ہی فری لانسنگ کا آغاز کیا تھا اور آج دو برس کے مختصر عرصے میں اس نے اپنی ایک ہزار سی سی نئی گاڑی بھی اسی کمائی سے خرید لی ہے۔ خبر یہ ہے کہ یہ پروگرام پورے ملک میں پھیلنے جا رہا ہے اور تمام صوبوں میں اس کے مراکز قائم ہوں گے جس سے نوجوانوں کی تعداد اور ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ صرف ای روزگار سے اب تک تیرہ ہزار نوجوان اٹھارہ کروڑ روپے کما چکے ہیں۔ وفاق میں بھی ڈیجی سکلز کے نام سے ایسا ہی پروگرام چل رہا ہے۔ اب یہ تو ہمارے نوجوانوں پر ہے کہ وہ ان پروگراموں سے کس قدر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو فری لانسنگ کی اہمیت سے آگاہی حاصل ہو چکی ہے‘ بالخصوص خواتین‘ وہ اس سے نہ صرف اپنی بلکہ گھر بیٹھے اپنے خاندان کی بھی اچھی خاصی کفالت کر سکتی ہیں اور اس میں نوکری کی طرح محدود آمدن نہیں بلکہ آپ کی محنت کے مطابق لامحدود آمدن کے مواقع موجود ہیں۔ ہم لوگ چونکہ نوکریوں کے عادی ہو چکے ہیں اس لئے ہمیں یہ سب سراب اور طلسماتی کہانی لگتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب نہ صرف نوجوان بلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے ٹی وی اینکرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور وکیل بھی فری لانسنگ کو مستقل پیشے کے طور پر اپنانے کا آغاز کر چکے ہیں۔