تین روز قبل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کو ایک سو دن مکمل ہو گئے۔ ان سو دنوں میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج نے کشمیر میں ہر طرح کا جبر اور ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا۔ اس سے قبل بھی کرفیو کی شکل میں کشمیریوں کی آزمائش کی جاتی رہی ہے‘ لیکن یہ تاریخ کا طویل ترین کرفیو ہے‘ جس میں پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔ ان سو دنوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند رہے جس کے باعث بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہو گئیں اور دفاتر اور نجی ادارے بند ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں ہی محصور ہو کر رہ گئے۔ جس کے پاس جو راشن پانی تھا وہ اسی میں گزارہ کرتا رہا۔ جو جہاں تھا وہیں قید ہو گیا۔ کچھ لوگ جو اپنے رشتے داروں سے ملنے ان کے گھر گئے ہوئے تھے‘ وہ ان سو دنوں کے دوران وہیں محدود ہو کر رہ گئے۔ کمیونیکیشن کے ذرائع بھی کاٹ دئیے گئے ہیں حتیٰ کہ وادی میں انٹرنیٹ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بھارت کو یہ خوف لاحق ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کہیں مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال سے دنیا آگاہ نہ ہو جائے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ چل جائے تو ماضی کی طرح ایسی ایسی المناک کہانیاں سامنے آ جائیں‘ جن کو سن کر دل دہل جائے اور کلیجہ منہ کو آنے لگے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ ایک سو چار روز سے بھوکے پیاسے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے نہتے کشمیریوں کے عزم و ہمت کی مثال بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انہیں حق خودارادیت حاصل نہیں ہوجاتا، پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی معاونت جاری رکھے گا؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ چونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اس لئے اس انسانی بے بسی اور حقوق کی پامالی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ روز بھی قابض بھارتی فوج کی فائرنگ سے دو کشمیری شہید ہو گئے اور اڑتالیس گھنٹے میں شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد چار ہو گئی۔ اس سے قبل بانڈی پورہ میں غاصب فوجیوں کے ہاتھوں دو کشمیری شہید ہوئے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو ہٹلر مودی کے درندہ صفت فوجیوں نے مقبوضہ وادی میں دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جنت نظیر وادی میں نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔ مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث کشمیریوں کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ اشیائے خورونوش اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مساجد اور امام بارگاہوں پر بھی تالے پڑے ہیں؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سخت ترین مظالم کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد آزادی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جتنا ظلم بڑھ رہا ہے اتنا ہی جذبہ حریت پروان چڑھ رہا ہے۔
بھارت اگر جارحیت کرے تو پاکستان کے پاس اس کا بھرپور جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کرے گا‘ لیکن اپنے عوام اور فوجی جوانوں کی جانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرتا آیا ہے؛ تاہم جب جواب دینے کی ضرورت پڑی تو پاکستان کی جانب سے بھرپور کارروائی کی گئی۔ بھارت میں مٹھی بھر اقلیت جنگی جنون کو بھڑکا رہی ہے‘ حالانکہ کسی ملک کی معیشت بھی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی وطن کے لئے مرنے اور کٹنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ بھارتی وزیر اعظم نے الیکشن جنگی جنون کے بل پر جیتا تھا اور اب خطے کا امن بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ انہیں کب علم ہو گا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو جتنا دبائیں گے وہ اتنی ہی قوت سے ردعمل دیں گے۔ کوئی بھی انسان اپنے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتے برداشت نہیں کر سکتا۔ کشمیری بھی نہیں کریں گے۔
اس وقت فلسطین کی طرح کشمیر بھی بیرونی جارحیت کے نرغے میں ہے۔ دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے بڑا فوجی علاقہ بن چکا ہے؛ تاہم بھارت اپنی ظالمانہ حرکات سے کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز کو ہمیشہ دبا نہیں سکتا۔ آر ایس ایس کے پیروکار اور بھارتی حکومت‘ دونوں کشمیریوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کر رہے ہیں۔ ایک لاکھ 80 ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی خدشات کا باعث ہے۔ غیرقانونی حراست، خواتین سے زیادتی اور پیلٹ گنز کے بے گناہ لوگوں کیخلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کو روندا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام اور پوری دنیا کے حقوق کے علمبردار ممالک کشمیریوں کی نسل کشی کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ بھارت کی ایسی مذموم کارروائیاں علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہوںگی۔
مودی کے آنے کے بعد کشمیر کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوا ہے۔ بھارت کو اپنی عددی حیثیت پر ناز ہے۔ وہ سمجھتا ہے‘ وہ پاکستان سے دو تین گنا زیادہ فوج رکھتا ہے؛ چنانچہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسے پاک فوج کا اندازہ ہی نہیں۔ اس سال فروری میں اس کے دو طیارے گرا کر پاکستانی فوج نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ جذبوں سے لڑی جاتی ہیں‘ وگرنہ امریکہ اور روس کبھی افغانستان میں شکست نہ کھاتے۔ کون سا ایسا بم‘ ہتھیار اور جنگی طیارہ تھا جسے امریکہ نے افغانستان میں آزما نہیں لیا۔ ایک عشرے تک بے گناہ عوام کو ہلاک کرنے کے بعد آج امریکہ مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ اگلے دس برس بھی یہ جنگ مکمل طور پر نہیں جیت سکتا۔ جنگیں مسئلوں کا آخری حل ہوتی ہیں‘ اس کے بعد بھی اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو کبھی نہ کبھی دبا لے گا۔ ان کے حقوق معطل کرکے انہیں اپنی شرائط پر جھکانے پر مجبور کر دے گا؛ تاہم یہ بھارت کی بھول ہے۔ وہ مسلمان کے جذبہ حریت کی روح کو نہیں سمجھتا۔ بھارتی فوج کی اپنی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارتی فوجی کشمیر میں ڈیوٹی کرنے کے دوران نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ کئی فوجی خودکشی بھی کر چکے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی اپنی حالت انتہائی پتلی ہے۔ نہ انہیں اچھی خوراک میسر ہے نہ ہی ان کا اسلحہ کسی قابل ہے۔ زنگ لگی بندوقوں کے ساتھ فوجیوں کو سخت ترین ڈیوٹی کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ ان دگرگوں حالات کے ساتھ بھارت نہ ہی کشمیریوں کو دبا سکتا ہے اور نہ ہی پوری دنیا کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دھول جھونک سکتا ہے۔ بھارت نے نہ صرف عالمی قوانین بلکہ شملہ معاہدے کی روح کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ اس مسئلے پر بھارت کی جانب سے روکنے کی کوشش کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غور کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اگر کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ علاقائی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم سمیت تمام بین الاقوامی فورمز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیرقانونی اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اتفاق رائے سے ایک بیان میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے کہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے کامیاب دورہ امریکہ کی وجہ سے پوری دنیا میں کشمیر کا ایشو پہلی مرتبہ کھل کر اجاگر ہوا‘ جس کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔ کشمیر کا مسئلہ صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ لاکھوں انسانی جانیں دائو پر لگی ہیں۔ پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کو بھی اس مسئلے کے حل کے لئے آگے آنا ہو گا۔ ورنہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخی بڑھے گی اور اگر ان دو ممالک کے درمیان جنگ چھڑی تو پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔