عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے جو ہدایات و تدابیر جاری کی ہیں ان کے مطابق اس وائرس سے بچاؤ کیلئے بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ اس سلسلے میں ٹشو پیپر کا استعمال کیا جائے اور استعمال کے فوراً بعد اسے پھینک دیا جائے۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ‘ چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیا جائے۔ یہ ساری احتیاطیں عام طور پر بھی کی جاتی ہیں لیکن کرونا وائرس نے جب سے پنجے پھیلائے ہیں تب سے طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی ہیں۔ ہر کوئی اس وائرس سے خوف زدہ ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کا شکار نہ ہو جائے۔ ابھی تک اس کے بارے کوئی مصدقہ معلومات سامنے نہیں آ سکیں صرف اور صرف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کا علاج تو جب دریافت ہو گا تب ہو گا لیکن زیادہ زور احتیاطی تدابیر پر ہی دیا جا رہا ہے۔ ایڈز کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اور ایک بار یہ جس کو ہو جائے اس کا زندہ بچنا محال ہوتا ہے۔ اسی طرح کینسر کی تیسری اور چوتھی سٹیج کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس میں مریض کی بحالی مشکل ہو جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کینسر‘ کرونا وائرس یا ایڈز کا علاج کب دریافت ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ جن بیماریوں کا علاج دریافت ہو چکا ہے ان سے بچنے کے لئے بھی احتیاطی تدابیر پر زور کیوں نہیں دیا جاتا۔ شوگر ایک عام بیماری ہے اس کا بھی علاج دریافت نہیں ہو سکا اور اسے بھی احتیاط کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی آپ احتیاط کا دامن چھوڑیں گے یہ آپ کے دل‘ جگر‘ گردوں اور جسم کے دیگر اعضا پر حملہ آور ہو جائے گی؛ چنانچہ ہر بیماری یا ہر مشکل کا علاج ڈھونڈنے سے زیادہ اس سے بچنے کی کوشش پر دھیان دیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں لوگوں کا رجحان مگر مختلف ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہیپاٹائٹس ایک جان لیوا بیماری ہے۔ اس کا علاج بھی موجود ہے لیکن اس کا شکار مریض مر مر کر جیتا ہے۔ اس کا علاج مہنگا ہے اور طویل بھی؛ تاہم اس کی وجوہ کے بارے میں جاننے اور ان سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی‘ مثلاً ہیپاٹائٹس سی کی بڑی وجہ جراثیم سے آلودہ پانی پینا ہے۔ لوگ ریڑھیوں سے جوس اور شربتوں کے گلاس دھڑادھڑ پی لیتے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ ان گلاسوں کو ٹھیک طرح سے دھویا بھی گیا ہے یا نہیں۔ جو شربت یا جوس انہیں مل رہا ہے اس کا معیار کیسا ہے؟ اس بارے ذرا سا تردد کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہیپاٹائٹس سی مزدور اور غریب طبقے میں زیادہ پھیل رہا ہے۔ ان کو پھیلانے والے بھی ناخواندہ ہیں۔ جنہیں علم ہے وہ بھی ندی نالوں کا پانی ڈالنے سے باز نہیں آتے کیونکہ انہیں بھی منافع کمانا ہے۔ 'احتیاط علاج سے بہتر ہے‘ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس پر سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک نصاب میں ایسے باب شامل کئے جانے چاہئیں‘ جنہیں پڑھ کر نسلیں خود کو اور معاشرے کو ان مسائل سے دور رکھنے کیلئے تیار کر سکیں۔ اگر بیماریوں سے احتیاط کے بارے میں آگاہی نہیں پھیلائی جائے گی تو آپ جتنے مرضی ہسپتال بنا لیں‘ یہ کم پڑتے رہیں گے۔ کرونا وائرس کو دیکھ لیجئے۔ جیسے ہی اس وائرس کا شور مچا ہر طرف ماسک پہننے کی پابندی عائد کر دی گئی‘ لوگوں کو غیر ضروری باہر نکلنے اور میل ملاپ سے روک دیا گیا۔ ایسا نہ کیا جاتا تو چین‘ جو دنیا کا معاشی کنگ بنا ہوا ہے‘ چند ہی ہفتوں میں زمین بوس ہو جاتا؛ تاہم ترقی پذیر ممالک میں لوگ اب بھی عام بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ جس طرح کی ایمرجنسی چین نے کرونا وائرس کے حوالے سے ووہان اور دیگر صوبوں میں لگائی‘ ویسی ہی ایمرجنسی پاکستان میں ذیابیطس‘ ہیپاٹائٹس‘ بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے حوالے سے لگائی جانی چاہیے کیونکہ جب ملک کا ہر دوسرا فرد کسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو گا تو قوم کیسے ایک جدید اور توانا ملک کی تعمیر کیلئے کوشش کر پائے گی۔
بزرگوں اور سینئر افراد کے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں؛ تاہم کسی بھی ملک کے نوجوان اس کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس کی باریکیوں کو سمجھنا کسی نوجوان کیلئے زیادہ آسان ہے بہ نسبت ادھیڑ عمر شخص کے۔ اب تو بیماریوں کی تشخیص اور علاج بھی کمپیوٹر کا مرہون منت ہے۔ حتیٰ کہ فصلوں کی پیداوار کو بھی ٹیکنالوجی سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ وہاڑی میں گزشتہ دنوں کھیتوں میں ایک ایسی مشین نصب ہوئی ہے جو مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کی مدد سے کام کرتی ہے۔ اس قسم کی مشینیں نائجیریا ‘یوکرائن اور ترکی میں لگ چکی ہیں۔ یہ مشین مختلف سنسرز کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ یہ سنسر زمین کی تہہ کے نیچے مختلف قسم کی معلومات مشین کے ڈیش بورڈ تک پہنچاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین جیسے ہی خشک ہوتی ہے اور اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ تمام ڈیٹا ڈیش بورڈ پر آتا ہے اور وہاں سے کسان یا زمیندار کے موبائل فون پر آ جاتا ہے جس کے مطابق وہ فصل کو پانی دے سکتا ہے۔ عام طور پر پانی تب دیا جاتا ہے جب بظاہر زمین خشک نظر آئے۔ اس سے فصل کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور ضرورت سے زائد یا کم پانی دینے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح یہ مشین کھیتوں میں زمین کی نمی اور کھاد کی ضروریات کا بھی تعین کرتی ہے۔ اس ساری ٹیکنالوجی کا مقصد کسانوں کو کم وقت اور لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دینا ہوتا ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے شعبہ ریسرچ کے مطابق‘ اگلی مشین ملتان میں نصب کی جائے گی۔ خوراک اور بیماری کا بہت قریبی تعلق ہے۔ آج کل خالص دودھ کے ساتھ خالص فصلیں بھی ناپید ہو رہی ہیں۔ امید ہے اس طرح کی ٹیکنالوجی غیر معیاری فصلوں کی بھی نشاندہی کر سکے گی اور اگر لوگوں کو صاف ستھری خوراک مل گئی تو طرح طرح کی بیماریاں اور وائرس بھی کم ہو جائیں گے۔ ٹیکنالوجی جس طرح غذائی پیداوار میں پھیلائو اور بیماریوں سے بچائو کیلئے استعمال کی جا رہی ہے اس سے نہ صرف خوراک کی پیداوار میں کمی کے مسائل پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ بیماریوں کی روک تھام میں بھی مدد مل سکے گی۔ کرونا وائرس ہو یا کوئی اور بیماری‘ اب اس حوالے سے احتیاطی تدابیر سے عدم آگاہی کی شکایت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو بالکل ہی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرے شخص کے پاس اینڈرائڈ موبائل ہے جس پر معلومات سیکنڈز میں آ جاتی ہیں۔ کوئی شخص چاہے کسی گائوں میں ہے یا کسی شمالی پہاڑی علاقے میں اس تک معلومات کی رسائی ممکن ہو چکی ہے۔ مسلمان قوم اگر ٹیکنالوجی میں نئی جدتیں نہیں لا سکی یا یہ کہ ساری ٹیکنالوجی پر مبنی ایجادات اگر گورے‘ جاپانی اور چینی بنا رہے ہیں تو مسلمان کم از کم ان چیزوں کا بہتر استعمال تو کر سکتے ہیں‘ ان ایجادات کو مختلف شعبوں میں لاگو تو کر سکتے ہیں‘ ان سے فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں۔ بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب شوگر موبائل فون سے چیک ہو جائے گی۔ بلڈپریشر اور مختلف قسم کے بلڈ ٹیسٹ بھی موبائل فون کے سکینر پر انگلی رکھنے سے کئے جا سکیں گے۔ انسان کا دل کتنا صحت مند ہے‘ جسم کو کیلشیم کی کتنی ضرورت ہے‘ کون سی بیماری اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے یہ سب تعین اگر موبائل فون سے پیشگی ہونے لگا تو انسان کے صحت کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اسی طرح خالص غذا کو چیک کرنے کیلئے بھی موبائل فون کا استعمال ممکن ہو گیا تو پھر تو بہت سے مسائل گھر بیٹھے حل کئے جا سکیں گے؛ تاہم یاد رکھئے یہ سب ایجادات بھی کسی نہ کسی چیز کی نشاندہی ہی کر پائیں گی‘ علاج کیلئے تو پھر بھی روایتی اور تکلیف دہ عمل سے ہی گزرنا پڑے گا۔ اس لئے کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ آج سے ہم تہیہ کر لیں کہ 'احتیاط علاج سے بہتر ہے‘ کے سنہری قول کو اپنے اور بچوں کی زندگی میں اس طرح ڈھال لیں کہ ہم سنگین بیماریوں یا مسائل کا شکار ہونے سے ہی بچ جائیں‘ ہم اگر ہر قدم احتیاط سے اور پھونک کر اٹھائیں گے تو زندگی میں آنے والی بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل خود ہی ختم ہو جائیں گے۔