میرا ایک دوست پہلے ہی صفائی ستھرائی کے معاملے میں غیرضروری حد تک محتاط تھا‘ کورونا وائرس نے اس کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ وہ جب بھی کسی سے ہاتھ ملانے لگتا تو سوچتا‘ پتہ نہیں یہ شخص کھانے پینے‘ رفع حاجت اور دوسرے کاموں کے بعد ہاتھ دھوتا ہو گا یا نہیں اور اگر دھوتا ہو گا تو صرف پانی سے یا صابن بھی استعمال کرتا ہو گا۔ کسی سے ہاتھ ملانے کے بعد وہ فوری باتھ روم جاتا اور اپنے ہاتھ صابن سے دھو کر آتا تاکہ ممکنہ جراثیم سے پاک ہو سکے۔ بعض اوقات تو اسے پانی پر بھی شک ہونے لگتا کہ یہ بھی صاف ہے کہ نہیں۔ ایک دن کہنے لگا: زمین کے نیچے پانی اور سیوریج کی لائنیں بظاہر الگ الگ ہوتی ہیں لیکن ان کی کیا حالت ہے وہ کتنی گل سڑ چکی ہیں اور کہاں کہاں یہ دونوں پانی آپس میں مکس ہو رہے ہیں اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔ اِس پر ہمارے ایک اور دوست نے اسے کہا کہ تم جس پانی سے ہاتھ دھوتے ہو اس پانی کو بھی کسی اچھے صاف پانی سے دھو لیا کرو تاکہ ہر طرح کا شک نکل جائے۔ اس دوست کو ایک مرتبہ خارش کی شکایت ہوئی تو دوسرے دوست نے کہا کہ خارش کی وجہ وہ پانی ہے جس سے تم نہاتے ہو۔ میرا دوست پریشانی میں بولا: تو پھر صاف پانی کہاں سے ملے گا۔ جواب ملا: ایسی نہر سے جس کا پانی بہہ رہا ہو کیونکہ بہتا پانی بہرحال صاف ہوتا ہے۔ یہ سن کر میرا دوست بڑی تلاش کے بعد شہر سے باہر ایک نہر کے پاس پہنچا‘ جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ اس میں بے خوف و خطر نہایا جا سکتا ہے۔ دو ہفتوں سے نہایا نہیں تھا اس لئے فوراً قمیص اتار کر نہر میں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ ابھی اس نے نہر سے پانی کا دوسرا کپ ہی اپنے سر پر ڈالا تھا کہ اسے ایک بھینس دکھائی دی جو تھوڑا دور اسی نہر میں نہا رہی تھی اور اس کا پانی بہہ کر اسی سمت آ رہا تھا جدھر وہ موجود تھا۔ ابھی وہ اس صدمے سے ہی باہر نہیں نکل پایا تھا کہ اسے نہر کنارے ایک کتا کھڑا دکھائی دیا جس کا سایہ نہر کے پانی پر پڑ رہا تھا۔ کتے کا سایہ پانی پہ پڑتا دیکھ کر میرا دوست اُچھل کر باہر نکلا اور کپڑے اٹھا کر شہر کی جانب دوڑ لگا دی۔
وہم کا کوئی علاج نہیں مگر کورونا وائرس کے باعث ایسے حساس لوگوں کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں: جو بہت زیادہ یا غیرضروری احتیاط کرتا ہے وہ اس مسئلے کا جلد شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ سوچنے لگیں کہ یہ بیماری چھونے سے پھیل رہی ہے تو پھر سب سے پہلے کرنسی نوٹ بند کرنے پڑیں گے کیونکہ یہ چوبیس گھنٹے زیرگردش رہتے ہیں۔ ان پر پہلے ہی پان کی پیکیں اور طرح طرح کے جراثیم لگے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ نوٹ گنتے ہوئے زبان سے انگلی گیلی کرکے نوٹوں کو لگاتے ہیں۔ اس سے ٹی بی اور معلوم نہیں کون کون سی بیماریاں نوٹوں کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہوں گے۔ دوسری جانب یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر کورونا وائرس میں اموات کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے تو پھر اس پر اتنا شور اور اُدھم کیوں مچا ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ یہ وائرس چین سے اٹھا ہے‘ وہاں کسی نے چمگادڑوں کا سوپ پیا وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ چینی تو سینکڑوں سالوں سے ایسی چیزیں مزے سے کھاتے آ رہے ہیں۔ کئی ممالک میں کورونا وائرس کے مریض ایسے سامنے آئے ہیں جنہیں یہ وائرس ان کے اپنے ملک سے ہی ملا ہے تو اگر یہ وائرس مقامی سطح پر بھی پیدا ہو رہا ہے تو پھر یہ واقعی بہت بڑا خطرہ ہے۔ پھر تو اس چیز پر غور کرنا ہو گا جو ساری دنیا میں سب سے زیادہ کھائی جا رہی ہے اور وہ ہے برائلر مرغی۔ اب یہ تو تحقیق کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں کہ اس مرغی کا اس میں کیا کردار ہے؛ تاہم یہ حقیقت بھی ہے اور عالمی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعے، سارس وائرس اور عراق جنگ کے بعد کورونا وائرس سب سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سیاحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور سیاحت کو ماہانہ بنیاد پر 47 ارب ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔ سیاحت محض چند افراد کی سیروتفریح کا نام نہیں بلکہ اس سے سینکڑوں دیگر صنعتیں جڑی ہوتی ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں ابھی تین ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن وائرس کے پھیلائوکے باعث دنیا بھر میں سیاحوں نے اپنے سفری منصوبے منسوخ کرنا شروع کر دئیے ہیں اور ٹریول ایجنسیوں، ہوٹلوں اور ائیرلائنز کی آمدنی میں بڑے نقصان کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ عالمی جریدے کے مطابق ائیرلائنز ٹکٹوں کی فروخت ایک ماہ میں 30 ارب ڈالر کم ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت میں کمی سے 14 ممالک کو نقصان ہوگا۔ ان ممالک میں فلپائن، تھائی لینڈ، یونان، پرتگال، نیوزی لینڈ، ترکی، مصر، ہانک کانگ، میکسیکو اور آسٹریا، سپین، اٹلی، ملائیشیا اور چین شامل ہیں۔ کورونا وائرس سے چین میں 85 فیصد ہوٹل خالی پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ میں 74 فیصد، سنگاپور میں 49 فیصد، جنوبی کوریا میں 34 اور تھائی لینڈ میں 31 فیصد ہوٹلز خالی ہیں۔ چینی سیاح نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ سب سے زیادہ خرچ کرنے والے بھی ہیں۔ 2018ء میں چینی سیاحوں نے 277.3 ارب ڈالر خرچ کیے جو پوری دنیا میں سیاحت پر خرچ ہونے والی رقم کا 20فیصد اور امریکی سیاحوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ چین جانے والی اور چین سے آنے والی فلائٹس کے منسوخ ہونے سے یہ رقم خطرے میں ہے۔ جاپان میں کورونا وائرس کی وجہ ایک ہوٹل دیوالیہ بھی ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں خوف پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر کرنے اور چھٹیوں پر جانے سے بھی گریز کریں گے۔ سیاحت کا موسم آنے سے پہلے پہلے اگر حکام وبا پر قابو پانے میں ناکام رہے تو اس کے عالمی سیاحت کی صنعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایئرلائن انڈسٹری کو بھی کافی نقصان پہنچے گا، کیونکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ تجارتی سفر بھی متاثر ہو رہا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں اب غیر ضروری سفر کرنے سے منع کر رہی ہیں۔ بہت سارے ملک اب اس لسٹ پر موجود ہیں جہاں غیر ضروری سفر سے گریز کا کہا جا رہا ہے۔ جرمن ہوائی کمپنی نے اپنی لاگت کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ہانگ کانگ کی کیتھے پیسیفک نے اپنے سٹاف کو تین ہفتے کی چھٹیوں پر جانے کا کہا ہے، وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔
پاکستان میں اس وائرس کی موجودگی کی کچھ خبریں آنے کے بعد یہاں بھی بہت سی تبدیلیاں نظر آنے لگی ہیں‘ مثلاًیہ کہ حکومت سندھ نے پہلے تعلیمی ادارے بند کئے اور اب پبلک لائبریریز بھی بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اسلام آباد کے ایک سرکاری ادارے نے سٹاف کے بائیومیٹرک حاضری لگانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ آگے پتہ نہیں کیا کیا بند ہونے والا ہے۔ بچے تو پہلے ہی چھٹیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ابتدا میں کہا گیا کہ امریکہ نے اپنے حریف چین کو تباہ کرنے کیلئے یہ وائرس تخلیق کرکے چین میں پھیلایا۔ اب امریکہ میں بھی ایک سو پچیس کیس سامنے آ گئے ہیں تو کیا اسے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں‘ یا کھیل کچھ اور ہے۔ جرمنی کے صحت کے ادارے کے مطابق اس وائرس کی ویکسینیشن کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ یہ خبر اپنے تئیں حوصلہ افزا بھی ہے اور خوفناک بھی۔ حوصلہ افزا اس لئے کہ چلیں کامیابی کبھی تو ہو گی۔ خوفناک اس لئے کہ اگر دو ہفتوں کے اندر اندر پوری دنیا کی سیاحت ستر فیصد تک گر گئی ہے‘ درجنوں ملکوں نے ایک دوسرے کی فلائٹس بند کر دی ہیں‘ ہوٹل تعلیمی ادارے لائبریریاں ویران ہو رہے ہیں‘ تیل کی طلب صرف ایک ماہ میں چوبیس فیصد تک کم ہو گئی ہے تو ایک سال میں صورتحال کیا ہو گی‘ اس پر میں کوئی تبصرہ اس لئے نہیں کرنا چاہتا کہ اور کوئی نہیں تو میرا وہ دوست مزید پریشان ہو جائے گا‘ جو پانی سے ہاتھ دھونے سے پہلے پانی کو بھی کسی صاف پانی سے دھونے کا سوچتا ہے۔