پنجاب میں خاندانی مقدمات کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہر سال فیملی کیسز کی شرح میں دس فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ خاندانی تعلق برقرار نہ رہے تو خواتین بالخصوص بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ کسی کو شوہر سے علیحدگی چاہیے‘ کسی کو بیوی پسند نہیں تو کسی نے بچوں کی حوالگی کا کیس دائر کیا ہوا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑے بسا اوقات انتہائی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور بات طلاق یا خلع تک جا پہنچتی ہے۔ اس حوالے سے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس انوارالحق نے ایک ملاقات میں بتایا کہ 'آئو صلح کریں‘ کے نام سے انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد فی سبیل اللہ مصالحت کاری کا ایک چشمہ جاری کیا ہے‘ جس سے اب تک بائیس جوڑے صلح کرکے سیراب ہو چکے ہیں۔ یہ میرے لئے حیران کن تھا کہ ایک شخص بیالیس سال عدلیہ میں اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کرے‘ بطور چیف جسٹس ریٹائر ہو‘ اس کے بعد اپنا وکالت کا لائسنس بھی منسوخ کروا لے اور اپنی باقی زندگی بغیر کسی مالی لالچ کے خاندانوں میں صلح کروانے کے لئے وقف کر دے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر جسٹس صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے کہ جیسے تنخواہ حلال کرنا ضروری ہے‘ پنشن حلال کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ مجھے عدلیہ نے بہت احترام دیا‘ شناخت دی؛ چنانچہ آج میں بھی اپنے معاشرے کو کچھ نہ کچھ لوٹانا چاہتا ہوں۔ جسٹس صاحب کہنے لگے: فیملی کورٹس تو ساٹھ کی دہائی سے بنی ہوئی ہیں لیکن آج تک ہم نے کوئی فیملی جج مقرر نہیں کیا۔ اس سلسلے میں چھوٹا سا قانون پاس ہو چکا ہے کہ جب تک اس میں نئے قوانین نہیں بنیں گے‘ یہ کام سرِ دست سول جج کرے گا اور تب سے آج تک وہی کر رہا ہے۔ وہی سول جج چوری‘ ڈکیتی کے اور دیگر مقدمے سنتا ہے اور وہی عائلی مقدمات بھی نمٹاتا ہے۔ یہ ٹریجڈی ہے۔ ہمارے ہاں کرایہ داری کا قانون بنا لیکن ہم نے رینٹ کنٹرولر مقرر نہ کیا۔ یہ بوجھ بھی سول جج پر ڈال دیا گیا۔ ہم سپیشل قوانین بناتے ہیں لیکن ان کے لئے سپیشل کورٹس نہیں بناتے۔ ایک فیملی جج صرف فیملی‘ نکاح اور متعلقہ تنازعات سنے ایسا بھی نہیں کیا جا سکا۔ جسٹس صاحب نے حیران کن بات بتائی کہ ہمارے نوے فیصد جج عمر میں ان لوگوں سے چھوٹے ہوتے ہیں جن کے وہ کیس عدالت میں سن رہے ہوتے ہیں۔ اب اتنی کم عمر کے جج کی بات کو چالیس‘ پچاس‘ ساٹھ سال کی عمر کے لوگ کیسے مانیں گے؟ ان میں سے بہت کم شادی شدہ ہوتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کے لئے تو شادی کے مسائل پر مبنی مقدمات کا فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اب یہ نظام کب بدلتا ہے‘ کب باقاعدہ فیملی جج تعینات ہوتے ہیں‘ یہ تو خدا جانتا ہے‘ لیکن میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اپنے بیالیس سالہ تجربے کی بنیاد پر دو لوگوں یا دو خاندانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کروں گا۔ کہنے لگے: نیکی کے اس کام میں قاسم علی شاہ میرے دست و بازو بنے۔ ہم نے ویب سائٹ پر ایک لنک لگا دیا تاکہ جو کوئی بھی آپس میں صلح کرنا چاہتا ہے‘ وہ ہم سے رابطہ کرے۔ اس طرح اگر ایک فریق ہم سے رابطہ کرکے یہ کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی سے یا کوئی بیوی اپنے شوہر سے صلح کرنا چاہتی ہے تو پچاس فیصد کامیابی وہیں ہو گئی۔ اب باقی کام دوسرے فریق کو منانا ہوتا ہے۔ ہم دونوں کو یہاں دفتر بلاتے ہیں۔ اسی کمرے پر میز پر بٹھاتے ہیں اور ان کے مسائل سن کر درمیانی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان سے تیس پینتیس سوال کرتے ہیں تاکہ جھگڑے کی جڑ تک پہنچ سکیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو بندہ صلح کرنا چاہ رہا ہے یہ سنجیدہ کتنا ہے اور اس کی اپنی کیا غلطیاں ہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے بارے میں پوچھتے ہیں جو ہمارے علاوہ ان کی صلح کروا سکتے ہیں کیونکہ ہر خاندان میں ہر شخص کی کسی نہ کسی رشتہ دار سے ایسی قربت ہوتی ہے کہ جسے وہ دل کی ہر بات بتا دیتا ہے۔ یہ شخص ماموں‘ چچا تایا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ان کو بھی بلا لیتے ہیں اس طرح معاملہ حل ہونے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ہم دونوں فریقوں کے ساتھ الگ الگ میٹنگ کرتے ہیں‘ ان کا موقف جانتے ہیں اور پھر انہیں آمنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ شروع میں ہم نے سمجھا کہ اگر ہم مہینے میں ایک صلح کرا دیں تو ہماری بڑی کامیابی ہو گی لیکن تین ماہ میں ہم دو سو میں سے بائیس کیس نمٹا چکے ہیں اور یہ سب آپس میں ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ اب تو بیرون ملک سے بھی لوگ رابطہ کر رہے ہیں جن کی ہم آن لائن بٹھا کر صلح کرواتے ہیں۔ میں نے جسٹس صاحب سے پوچھا: وہ کون سی مشترک وجوہ ہیں جن کی بنا پر زیادہ تنازعات ہو رہے ہیں۔ جسٹس انوارالحق بولے: سب سے بڑا مسئلہ انا کا ہے۔ میاں یا بیوی میں سے کسی نے اگر دوسرے کو کوئی بات کہہ دی تو دوسرے نے اسے انا اور عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا لیا۔ بات چھوٹی سی ہوتی ہے اور بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر معاشی مسائل ہیں۔ لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے چڑچڑا پن حاوی ہو رہا ہے۔ کہنے لگے: میرے پاس اٹھارہ گریڈ کا ایک افسر آ کر کہنے لگا کہ ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں لیکن میری بیوی کہتی ہے مجھے الگ گھر چاہیے جبکہ میری تنخواہ اتنی نہیں کہ میں گزارہ کر سکوں اور بیوی کو بھی یہ معلوم ہے لیکن وہ بضد ہے؛ چنانچہ اس ضد نے ہمارا سکون‘ ہماری راتوں کی نیند تک چھین لی ہے۔ میں اپنے والدین کو ساتھ رکھنا چاہتا ہوں‘ میں کیسے اس تنخواہ میں انہیں الگ گھر میں رکھوں اور بیوی کو الگ میں۔ پھر بہت سے سگے بہن بھائی قریبی رشتہ دار بعض اوقات ان تنازعات کی وجہ بنتے ہیں۔ میاں بیوی دونوں اچھے بھلے خوش رہ رہے ہوتے ہیں لیکن تیسرا شخص ان کے درمیان اتنی مداخلت کرتا ہے کہ دونوں کے درمیان دوری شروع ہو جاتی ہے۔ اگر بیوی ناراض ہو کر میکے چلی جاتی ہے تو خاوند کے بہن بھائی یا والدہ بجائے صلح کرانے کے جلتی پر تیل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو تمہیں وہ چھوڑ کر چلی گئی ہم نہیں کہتے تھے وہ ہے ہی ایسی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب گھر والے صلح کے لئے راضی ہوتے ہیں لیکن کوئی تایا یا چاچا درمیان میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور صلح میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہاں جسٹس (ر) انوارالحق نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے بیالیس سالہ عدالتی تجربے میں جتنے مجرم دیکھے ہیں‘ ان میں کثیر تعداد ایسی ہوتی ہے جن کے والدین کی علیحدگی ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے بچے اس معاشرے کو اپنے ساتھ کئے گئے ظلم کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ اس لئے معاشرے سے بدلہ لینے کی آگ ان کے دل میں ایسی جل اٹھتی ہے کہ وہ جرائم کی دنیا سے کبھی واپس نہیں آ پاتے۔
ایک گھر کسی عمارت کا نام نہیں بلکہ گھر کے اصل معنی سکون اور راحت کے ہیں۔ ہم گھر کو جاتے ہیں تو ذہن میں یہی خیال ہوتا ہے کہ گھر جا کر سکون ملے گا۔ گھر کسی عمارت یا اس میں موجود قیمتی فرنیچر سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ یہ میاں بیوی‘ بچے اور ان کے درمیان پیار اور اُنس کا تعلق ہوتا ہے‘ جو ایک گھر کی اصل بنیاد بناتا ہے۔ یہ بنیاد اگر ہل جائے تو المیے جنم لیتے ہیں۔ یہ صرف جسٹس صاحب کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے علاقے میں خاندانوں میں صلح کرانے کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ جو ریٹائرڈ افراد ہیں‘ جو بوڑھے اور زندگی کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ وقت اِدھر اُدھر ضائع کرنے کی بجائے اپنے اپنے علاقے میں ایسی تحریک شروع کریں تاکہ ایسے معاملات کو عدالت میں لے جانے کی حوصلہ شکنی ہو سکے کیونکہ عدالتوں میں ایسے مقدمات کا فیصلہ آٹھ آٹھ سال بھی نہیں ہوتا‘ لاکھوں روپے‘ وقت اور وسائل الگ ضائع ہوتے ہیں‘ تھانے کچہریوں کی ذلت سمیت بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے‘ کیا یہ سب خواری جھیلنے سے بہتر نہیں کہ ایسے لوگوں کی صلح کرا دی جائے اور تھانے کچہری میں رُلنے کی بجائے معاملات گھر کی دہلیز پر ہی حل کر لئے جائیں تاکہ میاں‘ بیوی اور ان کے بچے در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں!