"ACH" (space) message & send to 7575

کورونا کے نفسیاتی اور سماجی اثرات

گھروں میں رہنا چاہیے‘ لیکن گھروں میں کیا کرنا چاہیے؟ یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ گھروں میں رہ کر ہر وقت کورونا کی خبریں ٹی وی‘ اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھنے سے دماغوں پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی شخص کیلئے گھر میں زیادہ دیر گزارنا آسان نہیں ہوتا‘ اور وہ بھی اس وقت جب بچوں کو چھٹیاں ہوں۔ بچوں کو اس بیماری کی شدت کا اندازہ نہیں لیکن انہیں بہت زیادہ ڈرانا بھی نہیں چاہیے وگرنہ وہ خوف زدہ ہو جائیں گے اور یہ خوف باقی عمر انہیں ڈراتا رہے گا۔ اس بیماری کے نفسیاتی اثرات سے بچنے کی تدابیر بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی جسمانی طور پر بچنے کی۔ بچوں کے ذہن میں جو باتیں بچپن میں بیٹھ جاتی ہیں وہ انہیں عمر بھر یاد رہتی ہیں اور ان کی عملی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ انہیں اس مسئلے کے بارے میں اس طرح بتائیں‘ جس سے ان میں اس سے خوف کی بجائے لڑنے کا جذبہ پیدا ہو۔ بہتر ہے انہیں صرف اتنا بتائیں کہ یہ بیماری چھونے سے پھیلتی ہے وگرنہ اس بیماری کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ مریض تو دل‘ ہیپاٹائٹس‘ دمے‘ گردوں اور دیگر بیماریوں سے روزانہ مر رہے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ دل کا مریض کسی دوسرے مریض کو چھو لے تو اسے دل کا عارضہ نہیں ہوتا لیکن کورونا کا مریض کسی کے قریب آ کر چھینک مار دے یا مصافحہ بھی کر لے تو اسے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ اس بیماری میں احتیاط پر زور دیا جا رہا ہے بلکہ اس بیماری کا اصل علاج ہی احتیاط ہے۔
آپ چین کو دیکھ لیں‘ جہاں ایک ارب سے زائد آبادی ہے لیکن اس میں سے اسی ہزار اس بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں سے ستر ہزار ٹھیک ہو گئے‘ تین ہزار ہلاک ہوئے جبکہ سات ہزار زیر علاج ہیں اور ان میں سے صرف چار سو کی حالت تشویشناک ہے۔ چین میں اس بیماری کا آغاز اکیس جنوری کو ہوا تھا اور روزانہ سینکڑوں کیس رپورٹ ہو رہے تھے لیکن گزشتہ چند دنوں میں یہ تعداد کم ہو کر بیس رہ گئی ہے۔ اب چین میں روزانہ ایک آدھ درجن مریض رپورٹ ہو رہے ہیں اور وہ اسے بھی کنٹرول کر لیں گے۔ ہر ملک کی اپنی علاقائی‘ مذہبی اور لسانی شناخت ہے۔ ہر ملک کو بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کی جانب سے خطرہ ہے کیونکہ وہ یہ بیماری درآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی جو کیس آئے ہیں وہ برطانیہ اور ایران کی جانب سے ہی آئے ہیں۔ چین میں جو پاکستانی طلبا متاثر ہوئے تھے انہیں اگر یہاں آنے دیا جاتا تو یہاں ایک مہینہ قبل ہی بیماری پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فی الوقت پاکستان کو ان زائرین کی جانب سے زیادہ خطرہ ہے جو ایران گئے کیونکہ ان دنوں ایران چین کے بعد سب سے زیادہ اس وائرس سے متاثر تھا۔ یہ زائرین بلوچستان پہنچے تو کوئٹہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اب یہ اپنے اپنے صوبوں اور شہروں کو جائیں گے تو وہاں بھی خطرہ بڑھ جائے گا۔ گزشتہ روز آٹھ سو کے قریب زائرین ڈی جی خان پہنچے تو انہیں ایک الگ ہسپتال میں زیرنگرانی رکھا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مزید زائرین بہاولپور‘ کالا شاہ کاکو اور دیگر علاقوں میں اگلے چند دنوں میں پہنچ جائیں گے جن کا بہتر انداز میں علاج نہ کیا گیا تو صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے۔
گزشتہ کالم کے بعد ایک قاری نے بتایا کہ اسلام آباد میں اس کے بچوں کے سکول نے آن لائن کلاسز شروع کر دی ہیں۔ وہ سکائپ پر بچوں کو کیمروں کے سامنے بٹھا کر پڑھاتے ہیں۔ اس سے بچوں کی صبح بروقت اٹھنے کی عادت برقرار رہ رہی ہے وگرنہ بچے رات کو ایک ایک بجے تک جاگ رہے ہیں اور صبح بارہ بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتے؛ چنانچہ کورونا وائرس جہاں معاشی اور جسمانی لحاظ سے نقصان پہنچا رہا ہے وہاں معمولات زندگی بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ گوگل نے بچوں اور بڑوں کے اسی مسئلے کے پیش نظر اپنے سافٹ ویئر گوگل ہینگ آئوٹ کے پریمیم ایڈیشن کو یکم جولائی تک مفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گوگل والوں کا کہنا ہے کہ وہ دنیا بھر کے عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کیلئے یہ سروس اگلے تین ماہ مفت مہیا کریں گے تاکہ جو لوگ اور بچے گھروں میں ہیں وہ بیکار بیٹھنے کی بجائے اپنے وقت کا بہترین استعمال کر سکیں۔ گوگل کو دیکھتے ہوئے کئی اور ویڈیو کالنگ کمپنیوں نے بھی اس بحران کے دوران اپنی خدمات مفت مہیا کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ گوگل نے اپنے آن لائن پلیٹ فارم گوگل کلاس روم کو بھی وسیع کر دیا ہے۔ اب کوئی بھی سکول‘ اکیڈمی یا بچوں اور اساتذہ کا گروپ گوگل کلاس روم کا اکائونٹ بنا کر اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اس پر کلاس روم بنائے جاتے ہیں جنہیں سیکشن اور مضامین کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ آپریٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایک کلاس روم میں ایک سے زیادہ ٹیچرز بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کلاس میں بچوں کو شامل کرکے ان کی حاضری سے لے کر انہیں اسائنمنٹ دینے اور امتحان لینے تک تمام امور مفت اور بآسانی سرانجام دئیے جا سکتے ہیں۔ ہر بحران سے ہر شعبے کو نقصان نہیں پہنچتا۔ کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جن کے بحرانوں میں بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت تین شعبے ایسے ہیں جن کی بہت مانگ ہے۔ پہلا میڈیکل کا شعبہ۔ ماسک ہوں یا ادویات ڈاکٹر ہوں یا ہسپتال ان کی اہمیت اس بحران میں بڑھ چکی ہے اور یہی وجہ ہے ماسک کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ جو موجود ہیں وہ اپنی شرائط پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر گروسری کا سامان اور جنرل سٹورز ہیں۔ کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں‘ یہ بحران کئی ماہ یا سال تک چلا تو غذائی قلت پیدا ہو جائے گی۔ سرحدیں بند ہونے سے تجارت بھی بند ہو جائے گی اور ہر ملک اپنے لئے گندم و دیگر اجناس سٹور کر لے گا۔ اس لئے امریکہ سے لے کر برطانیہ تک بڑے بڑے سٹورز کے باہر قطاریں لگی دکھائی دیتی ہیں اور لوگ ضرورت سے کہیں زیادہ خریداری کر رہے ہیں۔ تیسرا سب سے زیادہ فائدہ انٹرنیٹ کمپنیوں کو ہوا ہے۔ ہر کوئی گھر میں بیٹھ گیا ہے اور گھر میں کرنے کو کوئی کام نہیں۔ گھر سے باہر سرگرمیاں بالکل بند ہو گئی ہیں۔ سندھ میں تو ریسٹورنٹس بھی بند کر دئیے گئے ہیں۔ ورزش کے جم‘ سوئمنگ پول‘ تفریحی مقامات پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے‘ اس لئے ہر کوئی موبائل اور سمارٹ ٹی وی کے آگے بیٹھ گیا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنا وقت پاس کرنے اور دل بہلانے میں لگا ہے۔ اس سے انٹرنیٹ کے استعمال میں تین سو فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ لوگ کتابیں پڑھنے کی بجائے زیادہ تر الیکٹرانک گیجٹس کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ بہتر ہے‘ یہ لوگ اپنا وقت تقسیم کر لیں اور ایک حصہ تعلیم کیلئے رکھ لیں۔ اس وقت ایک عالمی پلیٹ فارم انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس پر دنیا کے تقریباً تمام نصابی مضامین سے متعلق مواد موجود ہے اور یہ مواد مکمل طور پر مفت دستیاب ہے۔ ای لرن کی طرح اس پلیٹ فارم سے بھی طلبا استفادہ کر سکتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو بہتر انداز میں کھپا سکتے ہیں۔ صرف ٹی وی لگا کر یا انٹرنیٹ پر کورونا سے متعلق اپ ڈیٹس ڈھونڈنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔ بہت زیادہ سر پر سوار کرنے سے وہ بیماری تو ختم ہوتی ہے یا نہیں کئی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہو جاتے ہیں۔ ان چھٹیوں میں خود بھی ایسے کام کریں جو آپ سارا سال نہیں کر سکے۔ گھر سے فالتو سامان نکالئے۔ گھر کی ترتیب بدلئے۔ صحت مند زندگی کے اصول اپنانے کیلئے لٹریچر کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن کو ترجمے اور تفسیر سے پڑھئے۔ شفا اور صحت سے متعلق احادیث تلاش کیجئے اور انہیں اپنے دوستوں عزیزوں میں شیئر کیجئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صفائی کی خود کو عادت ڈالئے اور بچوں کو بھی اس کا عادی بنائیے کیونکہ گندگی اور بے احتیاطی اس کورونا وائرس جیسی موذی بیماریوں کی جڑ ہے۔ خدا کرے کہ یہ آزمائش جلد ختم ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے جاتے ہی ہم ماضی کے روایتی معمولاتِ زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ کورونا کا ایک سبق اور خلاصہ یہ ہے کہ صفائی واقعتاً نصف ایمان ہے اور جو شخص اپنے ایمان کی دل و جان حفاظت کرتا ہے‘ اللہ اسے کبھی آزمائش میں نہیں ڈالتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں