جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ کورونا وائرس کی شدت اور سنگینی سمجھ آ رہی ہے۔ اب بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اس بیماری کو ایک افواہ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اتنی تفصیل سے ہر کسی کو اس بیماری سے متعلق خبریں اور بچنے کی معلومات نہ پہنچتیں۔ چین‘ اٹلی‘ ایران اور پھر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں اس کی تباہ کاریاں بھی بہت سے لوگوں کو تبدیل نہیں کر سکیں۔ عوام اور معاشرے کو سب سے زیادہ خطرہ بھی انہی لوگوں سے ہے کیونکہ ایسے لوگ گھروں سے باہر آزادانہ پھر رہے ہیں‘ ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال نہیں کر رہے اور یہی لوگ اس وائرس کے کیریئر بن کر یہ وائرس دن میں درجنوں لوگوں کو آگے منتقل بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو خبر آ رہی ہے کہ اٹلی میں لاک ڈائون کی وجہ سے کورونا کیسز میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں روزانہ چھ سات سو اس بیماری سے ہلاک ہو رہے تھے۔ اٹلی کے عوام نے بھی اپنے حکمرانوں کی ہدایت پر کان نہیں دھرا تھا‘ اس لئے انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ دبئی نے تو کورونا وائرس سے متعلق قانون سازی بھی کر دی ہے جس کے تحت کورونا پازیٹو مریض کے بارے میں اطلاع نہ دینے والے قریبی لوگوں کو پانچ سال جیل اور بھاری جرمانہ دینا پڑے گا۔ اسی طرح کورونا کا مریض اگر خود کو الگ تھلگ نہیں کرتا اور گھر یا قرنطینہ سے باہر جان بوجھ کر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی قید اور جرمانہ ہو گا۔ سمجھ نہیں آتی لوگوں کو گھر کاٹنے کو کیوں دوڑتا ہے۔ مزدور طبقہ‘ جس کے پاس گھر میں بیٹھ کر پندرہ بیس دن کھانے پینے کے پیسے نہیں‘ کی الجھن تو سمجھ آتی ہے لیکن وہ لوگ جنہیں گھر بیٹھنے کی مفت تنخواہ ملے گی‘ جو گھر سے کام کر سکتے ہیں یا جو کاروباری اور خوش حال افراد ہیں وہ کیوں دو ہفتے گھروں میں ٹک کر بیٹھنے سے انکاری ہیں؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ایسے لوگوں کو تو گھروں میں ہر وقت سجدے میں گرے رہنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں مال‘ صحت اور گھر والوں کی قربت عطا کی ہے اور وہ چند دن کی قربانی دے کر سوسائٹی کو بھی بچا سکتے ہیں۔
اس بحران میں سب سے زیادہ شکریے اور انعام کے مستحق صحت و سکیورٹی سے متعلق عملہ اور وہ ڈاکٹرز ہیں جنہیں ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینی ہے‘ جن کا کورونا کے مریضوں سے براہ راست واسطہ پڑنا ہے۔ ایسے لوگ اس وقت جنگی محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ اسی محاذ پر لڑتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت بلتستان میں اپنی جان دے چکے ہیں۔ حکومت کو انہیں سول اعزاز دینا چاہیے۔ اسی طرح تمام ڈاکٹرز کو ویسی ہی حفاظتی کٹس فراہم کرنی چاہئیں جیسی چین میں استعمال ہوئیں۔ طبی عملے اور اس طبقے کی تنخواہیں فوری طور پر اس بحران کے دوران دوگنا کر دینی چاہئیں جو اپنی جان پر کھیل کر ہماری جان بچا رہے ہیں۔ ذرا سوچیں ہم سے گھر میں چند دن گزارنے مشکل ہو رہے ہیں اور یہ لوگ کئی کئی راتیں ہسپتالوں میں گزار رہے ہیں‘ جہاں سے وائرس چمٹنے کا خطرہ موجود ہے۔ اس طبی عملے کے بھی بیوی بچے ہیں‘ گھر ہے چاہنے والے ہیں۔ ان کا خیال دل میں لائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کتنی آسانی میں ہیں۔ ہمیں بات بات پر ہسپتال جانا ختم کرنا ہو گا۔ کوشش کرنا ہو گی کہ ابتدائی علاج گھر میں ہی کر لیا جائے۔ گھروں میں رہ کر ہر وقت کھا کر سونے کی بجائے کم کھانا ہو گا تاکہ معدے اور پیٹ کی بیماریاں نہ پیدا ہوں۔ گھر کی دہلیز سے لے کر باتھ روم تک صفائی کا اہتمام کرنا ہو گا۔ اس کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ باہر کے جوتے اور گھر کے اندر کے جوتے الگ کریں۔ رشتہ داروں کا گھر میں داخلہ بند کریں۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی کو پندرہ دن کے پیسے دیں اور گھر کی صفائی خود کریں۔ بستر کی چادر سے لے کر پہننے کے کپڑوں تک سب روزانہ بدلیں۔ باہر سے سودا لائیں تو شاپر فوری طور پر کچرے میں پھینک دیں۔ باہر سے آ کر فوری کپڑے بدلیں اور نہائیں۔ غیر ضروری باہر نہ نکلیں بلکہ ایک ہی مرتبہ لسٹ بنا لیں اور اس میں آٹا تھوڑا سا زیادہ خریدیں تاکہ کسی کو ضرورت ہو تو شیئر کر سکیں۔ موبائل کی سکرین کو گیلے ٹشو سے صاف کرتے رہیں کیونکہ یہ اب سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ گھر سے کام کرنے والے افراد ویڈیو کانفرنسنگ کا سہارا لیں۔ یہ مفت ذریعہ ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے تو تمام سرکاری محکموں کے لئے ویڈیو کانفرنس کی سہولت کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون تک وسیع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری پنجاب کی مختلف صوبائی اداروں کے ساتھ میٹنگ بھی اسی سسٹم پر ہوئی۔ نجی ادارے واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنے ملازمین کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں تو چوبیس فیصد آبادی پہلے ہی گھر سے کام کر رہی تھی۔ اب یہ تعداد بڑھ چکی ہو گی۔
ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر کسی شخص کو یہ لگے کہ اس میں کورونا وائرس کی علامات پیدا ہو رہی ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ گھر میں ہی فوری طور پر علیحدہ ہو جائے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو اعتکاف کی شکل میں چاروں طرف سے پردے لٹکا دئیے جائیں۔ کورونا کی سب سے بنیادی علامت سانس لینے میں دشواری ہے۔ کورونا کے مریض کیلئے تین سیکنڈ سانس روکنا بھی مشکل ہوتا ہے جبکہ عام آدمی تیس سیکنڈ سے ایک منٹ تک بآسانی سانس روک لیتا ہے۔ دیگر علامات میں زکام‘ بخار اور قے آنا ہے؛ تاہم بہت سے کورونا کے مریض ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن میں چودہ دن تک کوئی علامت سامنے اس لئے نہیں آتی کہ ان کا امیون سسٹم بہت طاقتور ہوتا ہے۔ اسی لئے تو ہر شخص کے گھر میں رہنے پر زور دیا جا رہا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں‘ ہم میں تو کوئی علامت سامنے نہیں آئی تو ہم کیوں خود کو گھروں میں بند کریں۔ یہی بیوقوفی دنیا کو لے ڈوبی ہے اور ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ پچاس برس سے اوپر کے لوگوں کو اپنا بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں پورے دن میں کم از کم تین مرتبہ بھاپ لینی چاہیے۔ تین مرتبہ غرارے کرنے چاہئیں اور نیم گرم پانی پیتے رہنا چاہیے۔ اگر شوگر نہ ہو تو اس میں شہد ملا لیں۔ سب سے زیادہ کوشش یہی کریں کہ ہسپتال نہ جانا پڑے۔ اس کے لئے ان چودہ دنوں کو بہترین انداز میں گزاریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس غریب طبقے کے لئے راشن کا انتظام کرے جس کے پاس گھر بیٹھ کر یہ چودہ دن گزارنے کے بھی وسائل نہیں۔ اگر وسائل میں کمی آڑے آتی ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں جو فرق آیا ہے وہ اربوں روپے اس مد میں کورونا فنڈ کیلئے وقف کئے جا سکتے ہیں۔ اس ماہ حکومت نے تیس ڈالر فی بیرل سے بھی کم میں تیل خریدا ہے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اگر تیس روپے فی لیٹر کمی کر سکتی ہے تو دس روپے کم کر دے اور بیس روپے فی لٹر کورونا وائرس کے حوالے سے درکار رقم اور غریب طبقے کی بہبود کیلئے کورونا فنڈ علیحدہ کر لے۔ اسی طرح ڈیم فنڈ کے اربوں روپے بھی فوری طور پر کورونا فنڈ میں منتقل کر دئیے جانے چاہئیں۔ اس فنڈ میں لوگ اور ادارے گھر بیٹھے بھی رقم منتقل کر سکتے ہیں اور اربوں روپے کی یہ رقم طبی و سرکاری عملے کیلئے فوری استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے کام ہیں جن کے لئے آئی ایم ایف سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں سود کو صفر کیا جا رہا ہے۔ یہاں بھی سود کو ختم کرنا چاہیے۔ یہ ویسے بھی ناجائز ہے۔ اس موقع پر اللہ کی خوشنودی اور عوام کی فلاح کیلئے یہ دونوں اقدام ناگزیر ہیں۔ اللہ راضی ہو گا تو سب بلائیں دور ہو جائیں گی۔ گھروں میں روزانہ کثرت سے استغفار بھی ضروری ہے۔ تہجد کا وقت قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ان چودہ دنوں میں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کی آج کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہے۔ وہاں تو بھارتی فوج کی بربریت ہے۔ خدا کا شکر کریں یہاں آپ لاک ڈائون کے باوجود آزاد ہیں۔ لیکن اس آزادی کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔ گھروں میں رہیں اور جس شخص کو کورونا وائرس لاحق ہو جائے وہ فوری طور پر قرنطینہ میں چلا جائے‘ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔ کورونا سے مذاق مت کریں‘ یہ مذاق بہت مہنگا پڑ سکتا ہے!