جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں پاکستان میں کورونا سے لڑنے کے لئے جذبہ بھی توانا ہو رہا ہے۔ سرکاری اور نجی سطح پر خدمت خلق کی شاندار مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت پنجاب کا انصاف امداد پروگرام اور وفاقی حکومت کا احساس پروگرام اکٹھے ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے امدادی رقم چار ہزار سے بڑھ کر بارہ ہزار ہو گئی ہے۔ جو لوگ پہلے آن لائن درخواست دے چکے ہیں انہیں یہ رقم بڑھ کر ملے گی۔ اس مرتبہ درخواست دینے کا عمل نہ تو پیچیدہ تھا اور نہ ہی طویل۔ یہ درخواست گھر بیٹھے موبائل فون پر ایپ یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ کی وضع کردہ اس موبائل ایپ کو اب تک دس لاکھ سے زائد افراد ڈائون لوڈ کر چکے ہیں جبکہ ایک کروڑ سے زائد آن لائن درخواستیں دی جا چکی ہیں۔ نادرا سے مستحق افراد کی ویری فکیشن کے بعد یہ لوگ قریبی موبائل شاپ سے امدادی رقم حاصل کر سکیں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بروقت استعمال کی وجہ سے کئی مہینوں کا کام چند دنوں میں مکمل ہو گیا۔ حکومت کے مطابق ایسے لوگوں کو امداد نہیں ملے گی جن کے پاس گاڑیاں‘ بڑے گھر ہوں گے یا وہ بیرون ملک سیر و تفریح کیلئے سفر کرتے رہے ہوں گے۔ معاشی طور پر کمزور افراد ہی یہ رقم حاصل کر سکیں گے۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ فی الوقت لوگوں کو راشن دینے کے لئے بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ بعض پیشہ ور افراد‘ جو پہلے بھی صرف پینٹ برش پکڑ کر چوکوں پر بیٹھ جاتے تھے اور کام کی بجائے مانگ تانگ کر کھاتے تھے‘ پھر سرگرم ہیں۔ یہ لوگ مستحق افراد کا راشن بھی کھا جاتے ہیں۔ کراچی میں تو بعض لوگ یہ راشن واپس دکانوں پر بیچتے بھی پائے گئے۔ اس لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اپنے رشتہ داروں‘ قرابت داروں‘ ہمسایوں اور جاننے والوں کی مدد کریں۔ ہر شخص اس اصول پر چلے گا تو کہیں بھی کوئی بھوکا نہیں رہے گا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہو گی۔ جماعت اسلامی‘ دعوت اسلامی‘ اخوت سمیت درجنوں تنظیمیں اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کو راشن پہنچا رہی ہیں جسے دیکھ کر دو ہزار پانچ کے زلزلے کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ یہ لوگ مستحقین کو ان کی دہلیز پر ضروری خوراک کے تھیلے دیتے ہیں جس سے ضرورت مند خاندان کا ایک ماہ آرام سے گزر سکتا ہے۔
اپنے گزشتہ چند خطابات میں وزیر اعظم عمران خان غریب طبقے کے لئے کافی متفکر دکھائی دئیے۔ یہ قدرتی امر تھا کیونکہ اس وقت ملک کو کورونا کے ساتھ ساتھ معاشی وائرس کا بھی سامنا ہے۔ متمول افراد کو چھوڑ کر دیہاڑی دار اور نوکری پیشہ طبقے کے پاس اتنی جمع پونجی نہیں ہوتی کہ وہ آرام سے گھر بیٹھ کر گزارہ کر سکے۔ درمیانے طبقے کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ یہ سفید پوش طبقہ مانگ نہیں سکتا۔ یہ طبقہ اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں ہے۔ حکومت کے اپنے مسائل ہیں۔ سب اس سے ریلیف مانگ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے تو تین ماہ کے لئے ٹیکسوں کی وصولی موخر کر دی ہے۔ دیگر صوبے بھی اپنے طور پر ریلیف دے رہے ہیں۔ مسئلہ پھر وہی ہے کہ حکومت بھی کب تک اور کس قدر ریلیف دے سکتی ہے۔ خدمت خلق میں ابھی ایک خلا نظر آ رہا ہے اور وہ ان متمول افراد اور اداروں کی عدم شرکت ہے جو اس ملک کی اسی فیصد دولت کے مالک ہیں۔ ان میں رئیل سٹیٹ مالکان بھی ہیں‘ شوگر ملوں اور دیگر کارخانوں کے مالک بھی‘ جن کی دولت اتنی زیادہ ہے کہ انہیں بیرون ملک اکائونٹ کھولنے پڑتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک اس طرح سامنے نہیں آئے جس طرح امید تھی۔ ممکن ہے وہ ارادہ کر رہے ہوں لیکن اس نیک کام میں تاخیر نہیں کی جا سکتی اس لئے کہ پچاس فیصد غریب طبقے نے اگر دو تین ہفتے کا بھی راشن سٹور کیا ہوا ہے تو وہ بالآخر ختم ہونے والا ہے کیونکہ لاک ڈائون میں دس دن کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ چودہ تاریخ کو حالات نارمل ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ دن بدن صورتحال بدل رہی ہے۔ پاکستان میں دس مارچ کو کورونا کے پندرہ کیس تھے جو پچیس مارچ کو بڑھ کر ایک ہزار ہو چکے تھے جبکہ اگلے ایک ہفتے میں تین اپریل تک یہ کیس دو ہزار سے تجاوز کر گئے۔ یعنی پہلے ایک ہزار کیس دو ہفتوں میں اور اگلے ایک ہزار صرف سات دن میں۔ دو سے تین سو کیس روزانہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں حکومت نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس کے مطابق پچیس اپریل تک ملک میں کورونا کیسز کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے جن میں سات ہزار کی حالت تشویشناک ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں حالات تو دیگر ملکوں کی نسبت بہت بہتر لگ رہے ہیں کہ برطانیہ نے بیس ہزار اور امریکہ نے ایک سے دو لاکھ ہلاکتوں کیلئے اپنے لوگوں کو تیار رہنے کا کہا ہے؛ تاہم ہمارے ہاں چونکہ کورونا کے ٹیسٹ بڑی تعداد میں نہیں ہو رہے اس لئے ابھی یہ بھی پتہ نہیں کہ کورونا کے اصل مریض کتنے ہیں۔ جو رپورٹ ہو رہے ہیں اگر صورتحال یہی رہی تو پھر بھی پاکستان کی بچت ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے عوام کا ساتھ بہت ضروری ہے۔ بڑی شاہراہوں پر تو ناکوں کی وجہ سے ٹریفک کم ہے لیکن اصل مسئلہ اندرون شہروں‘ کالونیوں اور محلوں کا ہے جہاں اب بھی اس وبا کو سیریس نہیں لیا جا رہا۔ لڑکے بالے بند دکانوں کے باہر ٹولیوں کی شکل میں بیٹھتے ہیں اور آمدورفت ختم ہونے کو نہیں آتی۔ ایسے علاقوں میں متعلقہ ایس ایچ اوز گشت کرتے ہیں لیکن ایکشن نہیں لے رہے۔ جن علاقوں میں لوگ اس مسئلے کو مذاق سمجھ رہے ہیں ان علاقوں کو کوئی کورونا کیس آئے بغیر تین دن کیلئے فوری قرنطینہ میں تبدیل کر دیا جانا چاہیے۔ اس مسئلے کا یہی حل ہے۔ جو ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں انہیں اسی زبان میں سمجھانا چاہیے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ حکومت‘ ڈاکٹرز‘ انتظامیہ اور دیگر شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عبدالباسط نے درست کہا ہے کہ ڈاکٹرز اور حکومت نے عوام سے قربانی صرف گھر بیٹھ کر آرام کرنے کی مانگی ہے اور لوگ اس کا بھی مذاق بنا رہے ہیں۔
جہاں تک کورونا کے حل کی بات ہے تو یہ سائنسدانوں کا کام ہے‘ جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں اس کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم جو کام کر سکتے ہیں ہمیں اس پر فوکس کرنا ہے اور اگر سائنس بھی اس کا حل تلاش نہیں کر پا رہی تو سمجھ لیں جہاں سائنس ختم ہوتی ہے وہاں سے خدا کی قدرت شروع ہوتی ہے۔ خدا سے رجوع‘ استغفار اور اس کا ذکر کئے بغیر اس مشکل سے نکلنا ممکن نہیں۔ جو خدا حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال سکتا ہے وہ ہماری بھی اس مشکل کو دور کر سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو رسول اللہﷺ کی بیان کردہ اس حدیث پر غور کر لیں تو اس عذاب سے جان چھٹ سکتی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے تین آدمی بارش کی وجہ سے کسی غار میں چلے گئے تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے تو صرف سچائی ہی نکالے گی۔ بہتر یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کرکے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ کی رضا کیلئے کیا تھا۔ تینوں نے اللہ سے دعا کی۔ اپنی اپنی نیکی بیان کی اور ہر ایک نے اپنی دعا کے آخر میں یہ کہا کہ یا اللہ اگر میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ نے ان کی مشکل دور کر دی‘ غار کے سامنے سے پتھر اللہ کے امر سے ہٹتا چلا گیا اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ آئیے اپنے رب سے معافی مانگیں‘ ان گناہوں کی جو ہم نے کئے اور وہ نیک عمل یاد کریں جو ہم نے خالص خدا کی رضا کے لئے کئے۔ ان سب کو لے کر دُعا کریں کہ ایک خدا ہی دعائیں سننے اور قبول کرنے والا ہے۔