کورونا وبا نے کئی ارب پتیوں کو ککھ پتی اور ارب پتیوں کو کھرب پتی بنا دیا ہے۔ڈوبنے والے افراد اور کمپنیاں وہ ہیں جن کا کاروبار لوگوں کی جسمانی آمدو رفت پر مبنی تھا جبکہ جن کمپنیوں اور لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا وہ ایسا کاروبار کر رہے تھے جس کا تعلق انٹرنیٹ اور آن لائن پلیٹ فارمز سے تھا۔ مارکیٹ واچ کی رپورٹ کے مطابق کورونا کے سبب رواں سال 31 جنوری سے 31 مارچ کے دوران دنیا میں دولت مند ترین افراد کے 400 ارب ڈالر ہوا میں اڑ گئے۔ گویا کہ یہ افراد خسارے میں آخری ڈھائی سال کے عرصے میں کمائی گئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سب سے زیادہ طلب فاصلاتی تعلیم سے متعلق مصنوعات اور وڈیو کانفرنس کی بڑھی۔ یہ وہ مصنوعات ہیں جو چینی کمپنیاں بھی پیش کرتی ہیں۔ اسی سبب مذکورہ عرصے میں ان کمپنیوں نے بھاری منافع یقینی بنایا۔وڈیو کانفرنس کی خدمات پیش کرنے والی کمپنی زوم کے بانی کے مطابق مذکورہ دو ماہ کے عرصے میں ان کی دولت تقریباً 77 فیصد اضافے کے ساتھ 8 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی۔کمپنی کے بانی نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ دسمبر کے اواخر میں دنیا بھر میں زوم کا پلیٹ فارم استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ تھی۔ یہ تعداد مارچ کے اختتام پر 20 کروڑ تک پہنچ گئی۔ دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص جیف بزوز کی دولت میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران 24 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ‘ اور ان کی دولت 114 ارب ڈالر سے بڑھ کر 138 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔جیف بزوز کی دولت میں بڑھوتری ان کی آن لائن کمپنی ایمازون کے کاروبار بڑھنے کی وجہ سے ہوئی، جسے لاک ڈاؤن میں حیران کن طور پر اندازوں سے زیادہ آرڈرز ملے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر سے آن لائن آرڈرز ملنے کے بعد ایمازون کے شیئرز میں 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور اس عمل سے دنیا کے امیر ترین شخص کی دولت مزید بڑھ گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نہ صرف ایمازون کے بانی بلکہ دیگر آن لائن کاروباری اداروں کے مالک ارب پتی افراد کی دولت میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران امریکی ملٹی پل مینوفیکچرنگ کمپنی ٹیسلا کے بانی ایلون مسک کی دولت میں بھی 10 ارب 40 کروڑ ڈالر یعنی پاکستانی 15 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ایلون مسک کی طرح آن لائن سٹور وال مارٹ کے مالکان کی دولت میں بھی 5 فیصد اضافہ ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ آئندہ کیا ہو گا؟ کیا سب لوگ اپنا کاروبار آن لائن شفٹ کر لیں گے۔ کیا ایسا واقعی ممکن ہے کہ ایک مزدور جو دیہاڑی کرتا ہے وہ بھی آن لائن منتقل ہو جائے۔ ایسا ممکن نہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں غربت کے باعث بہت بڑی تعداد مزدوری کر کے ہی اپنا پیٹ پالتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے دنیا کے کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کے پاس موبائل فون نہیں ہیں اور انہوں نے کبھی انٹرنیٹ ہی استعمال نہیں کیا۔یہ وہ لوگ ہیں دو ایک دن کی خوراک بمشکل پوری کرتے ہیں تو اگلے دن کی فکر پڑ جاتی ہے؛ چنانچہ جہاں حکومتیں اپنے اپنے ملک میں آن لائن اور ڈیجیٹل اکانومی پر زور دے رہی ہیں وہاں انہیں اس چیلنج کا بھی سامنا ہے۔پھر آن لائن کام ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ انسان کی اصل ضرورت خوراک‘ صاف پانی ‘ صاف ہوا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہے بلکہ گندم‘چاول‘ دودھ سمیت درجنوں اشیا برآمد بھی کرتا ہے۔ لاک ڈائون کے دوران آن لائن کاروبار کی طرح چند دیگر لوگوں کی اہمیت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ ان میں سب سے اہم ڈاکٹرز ‘ نرسیں اور متعلقہ طبی عملہ تھا۔ رونالڈو ایک میچ کھیلنے کے ڈیڑھ ارب روپے لیتا ہے۔ اس کا کسی اشتہار میں پندرہ سیکنڈ کام کرنے کا معاوضہ ستر کروڑ روپے ہے۔لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اس وقت رونالڈو جیسے ہزاروں سپر سٹار اپنے اپنے محلوں اور بنگلوں میں قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ گھر میں ورزش کی ویڈیو ریلیز کر دیتے ہیں یا اپنے بچوں کے ساتھ گزارے گئے لمحات شیئر کر رہے ہیں‘ اس کے علاوہ تیسرا کام ان کے پاس بھی سوائے سونے اور کھانے کے کوئی نہیں ہے۔ البتہ ڈاکٹرز کی طلب دنیا بھر میں ہے اور بیرون ملک ڈاکٹرز کو منہ مانگا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔کورونا کی وجہ سے ہمارے ہاں ٹی ٹوئنٹی کے آخری چند میچ منسوخ ہوئے لیکن دنیا کا سب سے بڑا سپورٹس میلہ اولمپکس اور گرینڈ پری کار ریس تک کورونا کی نذر ہو چکے ہیں۔ ان سے صرف ہزاروں سٹار کھلاڑی ہی نہیں جڑے ہوئے تھے بلکہ کئی ملکوں کی معیشت صرف ایک سپورٹس میلے کی وجہ سے آسمان پر چلی جاتی تھی۔ سیاحت کو فروغ ملتا تھا‘ نئی نئی کمپنیاں وجود میں آتی تھیں‘ دولت کی ترسیل ہوتی تھی جس سے معیشت کا پہیہ چلتا تھا ۔ یہ پہیہ فی الوقت نہ صرف رکا ہوا ہے بلکہ اسے آہستہ آہستہ زنگ بھی لگ رہا ہے۔لوگوں کے ذہنوں میں اگر یہ بات ہے کہ کورونا چند ماہ یا ایک سال میں ختم ہو جائے گا لیکن کورونا نے جو نقصان دنیا کو پہنچا دیا ہے اس سے باہر نکلنے میں نہ جانے کتنے سال لگ جائیں۔دنیا میں روایتی نوکریاں پہلے ہی ختم ہو رہی تھیں‘ آن لائن کاروبار ان کی جگہ لے رہے تھے‘ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانوں کی ضرورت تک ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کھیتوں میں سپرے سے لے کر سبزیاں اور پھل توڑنے اور پیک کرنے تک روبوٹس سے کام لیا جانے لگا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی گندم کاٹنے کے لئے جدید مشینوں کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ جو کام پچاس مزدور یا کسان سات دن میں کرتے تھے وہ ایک مشین چار گھنٹے میں کر دیتی ہے۔ یہ تو عام مزدوروں کی بات تھی کورونا کے باعث بننے والی نئی ٹیکنالوجی مشینوں نے تو نرسوں کے کردار کو بھی کم کرنا شروع کر دیا ہے اور چین‘ جرمنی اور ہالینڈ کے کئی ہسپتالوں میں تو روبوٹس نرسوں کی جگہ کام کر رہے ہیں۔ مریضوں کو دوائی پہنچانے کے لئے ایک روبوٹ تمام کمروں میں جاتا ہے اور ان کی میز پر دوائی رکھ کر آ جاتا ہے۔ اس کی مرکزی کنٹرول روم میں ایک شخص نگرانی کرتا ہے۔ اس سے ایک طرف نرسوں کو کورونا وائرس لگنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے لیکن دوسری جانب ان کی ضرورت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے؛ چنانچہ اگر کورونا دنیا میں نہ آتا تب بھی آہستہ آہستہ ہم اسی بحران کی طرف جا رہے تھے جس کا سامنا ہمیں آج ہو رہا ہے۔
دنیا میں ٹیکنالوجی کی دوڑ اس کے باوجود ختم نہیں ہو گی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگا ہے۔ کورونا نے مگر یہ احساس دلا دیا ہے کہ ہم بہت سی چیزوں کے معاملے میں غلط تھے۔ہم نے مصروف زندگی کے نام پر اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں تک کو بھلا رکھا تھا۔ حتیٰ کہ ہمارے بچے تک ہماری شکل دیکھنے اور ملنے کو ترس گئے تھے۔اگر ہفتے میں ایک چھٹی ہوتی تو وہ بھی ہم سو کر گزار دیتے تھے۔نہ ہمارے بچوں کو پتہ ہوتا تھا کہ ہم باہر کیا کرتے ہیں اور نہ ہمیں علم تھا بچے سکولوں میں کیا پڑھتے ہیں‘ کیا کرتے ہیں اور کتنے پانی میں ہیں۔ ان میں معاشرے کا سامنا کرنے کی کتنی صلاحیت ہے‘ یہ کتنے پریکٹیکل ہیں یہ کبھی ہمیں معلوم نہ ہوتا اگر ہم یہ دن گھروں میں نہ گزارتے۔ ہم چیزوں سے اپنے گھروں کو بھرتے رہے اور کبھی صفائی پر دھیان دینے کی کوشش نہیں کی‘ کبھی نہیں سوچا کہ ہمیں پیٹ ‘معدے اور جلد کی بیماریاں کیوں ہوتی ہیں۔ آج ہمیں پتہ چلا کہ ہم اور ہمارے بچے بار بار ڈاکٹروں کا رخ کیوں کرتے تھے۔ ہم نے کبھی پرہیز اور اجتناب کے بارے میں نہیں سوچا۔ آج ہم بار بار بیس سیکنڈ صابن سے ہاتھ دھو رہے ہیں‘ سینیٹائزرز اور دستانوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور صاف کپڑے‘ صاف برتن اور صا ف بستر پر سونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ماضی میں ہم نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔ اگر ہم اس وبا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اپنے لائف سٹائل‘ اپنی عادات اور اپنی ترجیحات کو نہ بدلا تو پھر زندگی کے چھوٹے چھوٹے کورونا بحرانوں کا شکار ہو کر ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔