موجودہ حالات کسی جنگ کا منظرپیش کر رہے ہیں۔ یہ روایتی جنگوں سے بڑی جنگ ہے۔ یہ اپنی اپنی سروائیول کی جنگ ہے۔جنگوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ معیشت ٹھپ اور کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں۔ نوکریاں ختم اور فاقوں کا دور دورہ ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے بند اور فیکٹریوں کو تالے لگ جاتے ہیں ۔ فضائی اور زمینی سفر پر پابندی لگ جاتی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔کورونا میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ معمول کی جنگوں میں دشمن آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر کورونا وائرس صرف خوردبین سے ہی دکھائی دیتا ہے لیکن جب تک یہ نظر آتا ہے یہ انسان کی سانسیں کھینچ چکا ہوتا ہے۔ چین میں یہ وائرس دسمبر کے اواخر میں آیا۔ اس کے بعد یہ فروری میں ایران اور بعد ازاں دیگر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا پوری دنیا پر راج کر رہا ہے لیکن ابھی تک کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس وائرس کی حقیقت اصل میں ہے کیا۔ سب کے سب ہوائی فائر کرنے میں لگے ہیں۔ شروع میں کہا گیا ہر کسی کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں۔ پھر سب پر ماسک پہننا لازم ہو گیا۔ کہا گیا کہ کھانسی‘ بخار اور فلو وغیرہ اس کی چند علامتیں ہیں لیکن یہ نعرہ بھی قصۂ پارینہ ہوا جب ایسے ہزاروں مریض سامنے آئے جن کا کورونا ٹیسٹ تو پازیٹو آیا لیکن ان میں کورونا چھوڑ کر عا م سر درد جیسی بھی کوئی بیماری ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ یہ اپنے اپنے کاموں پر بھی جاتے تھے اور ہشاش بشاش زندگی بھی گزار رہے تھے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ ایسے لوگ دوسروں اور معاشرے کے لئے زیادہ خطرہ ہیں جو کورونا پازیٹو ہیں لیکن ان میں علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ وائرس کیرئیر بن کر دوسروں تک وائرس پھیلانے کا موجب بنتے ہیں اس لئے تمام لوگوں کو زیرزمین یا تنہائی میں چلے جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے لاک ڈائون بھی کیا گیا لیکن کیسز کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ پھر عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ اس وبا سے نمٹنے کا ایک حل زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ ہے۔ اب پاکستان جیسے ممالک کے لئے زیادہ ٹیسٹ کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس لئے یہاں صورت حال مجموعی طور پر گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت نے معیشت بھی چلانی ہے اور عوام کا خیال بھی رکھنا ہے۔ احساس پروگرام اور انصاف امداد کے ذریعے لوگوں کو بارہ ہزار روپے فی خاندان بھی بھجوائے جا رہے ہیں لیکن ان سے کسی خاندان کا کب تک اور کتنا گزارہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت بھی کتنی دیر اربوں روپے کی مالی امداد دے سکتی ہے۔ پہلے کسی ملک میں کوئی بحران پیدا ہوتا تو دنیا کے دس بیس ممالک سے امداد آ جاتی تھی۔ آج ہر ملک خود ہی اس وبا کا شکار ہے؛ چنانچہ بہت زیادہ اور بہت دیر امداد کی توقع رکھنا بھی درست نہیں۔ ایک طرح سے قیامت یا نفسا نفسی کا دور آ چکا ہے جس میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ رشتہ دار رشتہ دار سے دور بھاگ رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے ویسے بھی کسی سے ملنا ممکن نہیں رہا۔ کوئی ملنا بھی چاہے تو دوسرا ڈر کردروازہ نہیں کھولتا کہ کہیں اسے وائرس ہی نہ چمٹ جائے۔ زلزلہ آیا‘ سیلاب آیا لوگوں نے ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ پورے ملک بلکہ پوری دنیا سے امداد کا رُخ ایبٹ آباد اور دیگر علاقوں کی طرف ہو گیا لیکن اس وبا نے سب کو اپنے اپنے دائرے میں محصور کر دیا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں یہ وبا کب تک چلے گی‘ کب اس کی دوا ایجاد ہو گی‘ کب عام لوگوں کے لئے دستیاب ہو گی اور کیا معلوم اس وقت تک دنیا کے حالات کیا ہو چکے ہوں۔ پھر اس وبا کے نت نئے رنگ بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ہر ملک میں یہ الگ تاثر دکھا رہی ہے۔ کینیڈا سے ایک دوست نے بتایا کہ وہاں کم عمر لوگوں میں یہ بیماری جسم پر سرخ دانوں کی شکل میں بھی پھیل رہی ہے جو اس سے قبل نہ تھی۔ خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ پاکستان‘ بھارت اور چند دیگر ممالک میں حالات اب بھی بہت بہتر ہیں۔ ان ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت ہے۔ یہ دو دھاری تلوار کے نیچے آ چکے ہیں۔ لاک ڈائون کرتے ہیں تو لوگ بھوک سے مرتے ہیں۔ کھولتے ہیں تو وائرس پھیلتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک نئی ٹرم سمارٹ لاک ڈائون متعارف ہو چکی ہے۔ پہلے سمارٹ ٹی وی آیا پھر سمارٹ فون اور اب سمارٹ لاک ڈائون۔ آگے چل کر پتا نہیں کیا کچھ سمارٹ ہونے والا ہے۔ کورونا کے بعد اب کسی سمارٹ وائرس کی کسر ہی باقی رہ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ وائرس بھی دنیا کو سمارٹ بنانے آیا ہے۔ انٹرنیٹ پر کئی طرح کی تھیوریاں چل رہی ہیں جن میں سے ایک کے مطابق یہ وائرس یہودیوں نے بنایا ہے جس کا مقصد دنیا کی آبادی کو ایک چوتھائی تک محدود کرنا ہے۔ یعنی چار سے پانچ ارب انسانوں کی موت۔ شاید دنیا کو سمارٹ بنانے کے لئے یہ وائرس تخلیق کیا گیا۔ کبھی اس کا ملبہ چین پر گرایا جاتا ہے جس کی لیبارٹری سے یہ وائرس پھیلا‘ کبھی چمگادڑوں اور کبھی امریکی نیوی سیلز پر۔ ابھی تک تو یہ معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ہے۔ امیروں کے لئے یہ لاک ڈائون اور وائرس آرام کے دن لے کر آیا ہے جبکہ غریب کیلئے لاک ڈائون کسی قبر کے عذاب سے کم نہیں۔ وہ بیماری سے اتنا نہیں ڈررہا جتنا بچوں کی بھوک سے۔
نوے برس قبل پرانے گریٹ ڈپریشن کے بعد اب پہلی مرتبہ پوری دنیا میں لوگوں کی نوکریاں اور کاروبار تیزی سے تباہ ہوئے ہیں۔ بھارت کی آبادی ایک ارب سینتیس کروڑ پر مشتمل ہے۔ بھارت میں اس حوالے سے جو رپورٹس سامنے آئی ہیں‘ ان میں سے ایک کے مطابق اب تک سولہ کروڑ بھارتیوں کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں‘ جبکہ دوسری کے مطابق پچیس مئی تک تیس کروڑ بھارتی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو چکے ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار بہت خوفناک ہیں۔ ایسی ہی صورتحال دیگر ممالک کی بھی ہے۔ سیاحت اور فضائی سروس معطل ہونے کی وجہ سے سینکڑوں قسم کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ ایسے میں جن افراد کی نوکریاں بچی ہوئی ہیں وہ بہت خوش نصیب ہیں۔ انہیں اس پر اِترانے یا صرف خوش ہونے کی بجائے اپنا کام مزید ذمہ داری سے کرنا چاہیے۔ جو ملازمین اپنے اداروں اور اپنے باسز کے ساتھ کنیکٹ نہیں ہیں وہ اپنے لئے خطرے کا سامان خود پیدا کر رہے ہیں۔ اگر وہ گھر سے بھی کام کر رہے ہیں تو انہیں آگے بڑھ کرزیادہ سے زیادہ کام کرنے اور نت نئے آئیڈیا پر فوکس کرنا چاہیے تاکہ ان کی ضرورت برقرار رہے۔ جن لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں انہیں اپنی بچت وغیرہ کا حساب لگا کر یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ ان کے پاس گھر بیٹھ کر گزارہ کرنے کے کتنے ماہ ہیں۔ اگر ان کے پاس تین چار ماہ کا خرچ موجود ہے تو اس دوران وہ خود کو دوبارہ سے معاشی طور پر مستحکم بنانے کی پلاننگ کر سکتے ہیں۔سب سے زیادہ انہیں اپنے اعصاب کو کنٹرول اور جسمانی طور پر فٹ رکھنا ہے۔ذہنی دبائو لینے اور پریشان ہونے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ انہیں ایسے پیشوں پر غور کرنا ہو گا جو ان حالات میں بھی اچھے خاصے چل رہے ہیں۔ انہیں مستقبل میں ان پیشوں اور سکلز میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے۔یہ دو تین ماہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ آن لائن ٹیچنگ‘ آن لائن مارکیٹنگ‘ آن لائن سیلز وغیرہ۔یہ سب ان کے بہت کام آئے گا کیونکہ کورونا کے بعد کی زندگی میں کچھ چیزیں لازمی ہو جائیں گی۔ ہر ٹیچر کو نوکری پر رکھتے وقت یہ پوچھا جائے گا اسے آن لائن ٹیچنگ آتی ہے یا نہیں۔ اسی طرح دیگر اداروں کے سٹاف کو بھی آن لائن ویڈیو کانفرنس‘ کمپیوٹر سکرین شیئرنگ‘فائل ٹرانسفر اور وٹس ایپ زوم جیسی درجنوں ایپس کے استعمال پر عبور حاصل کرنا ہو گا اور اپنے سی وی کا مستقل حصہ بنانا ہو گا کیونکہ اب یہ سب سیکھے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا‘ مستقبل میں سروائیو کرنا ہے تو یہ سب سیکھنا ہی پڑے گا۔