کورونا لاک ڈائون کے دوران بہت سی اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ پہلی ماحولیات کے حوالے سے ہے۔ لاک ڈائون کے باعث گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں کمی آئی ہے۔ ٹرانسپورٹ تقریباً بند رہی‘ جس کی وجہ سے فضائی آلودگی ستر سے اسی فیصد کم ہو گئی ہے۔ آئوٹ ڈور سرگرمیاں نہ ہونے سے کچرا بھی کم پیدا ہوا ہے۔ بھٹے‘ کارخانے بند ہونے سے دھوئیں اور ویسٹ سے نجات ملی ہے۔ اب آپ اپنے گھر کی چھت یا کسی اونچی عمارت سے شہر میں دور تک صاف منظر دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے تو سموگ کے باعث چند سو میٹر کے فاصلے پر عمارت دکھائی نہیں دیتی تھی اب تو چاند سے بھی زمین پر زندگی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ سبزے میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور ماحول صاف ہونے سے سانس کے مریضوں کو ایک نئی دنیا یا نئی زندگی ملی ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ لوگوں کو یہ ہوا ہے کہ انہیں سوچنے سمجھنے کا وقت اور تفصیلی موقع ملا ہے کہ وہ کیسی زندگی گزار رہے تھے اور کیسی گزارنی چاہیے۔ اس پر غور کرنے سے اور ماضی سے کچھ سبق سیکھنے سے ہم سب کی آئندہ زندگی بہت بہتر گزر سکتی ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں اور کام جن کے پیچھے ہم یونہی بگٹٹ بھاگے جا رہے تھے اور صبح سے رات تک چکی کی طرح پستے تھے‘ اب پتہ چلا کہ ان کے بغیر نہ صرف گزارہ ہو سکتا ہے بلکہ زندگی کہیں زیادہ بہتر گزر سکتی ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ اگر موبائل فون کے رنگ برنگے کور ہر مہینے دو تین مرتبہ نہ بدلے جائیں تب بھی کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالوں میں اگر ایک مہینہ نہ بھی جائیں تو گزارہ چل جائے گا۔ ہر دوسرے ہفتے نئے کپڑوں اور برانڈز کی تلاش میں نہ نکلا جائے تب بھی زندگی کا پہیہ حرکت کرتا رہے گا۔ یہ باتیں ہمیں کبھی معلوم نہ ہوتیں اگر کورونا نہ آتا۔ شادی کے لئے چار چار سو لوگوں کا بارات میں آنا ضروری نہیں‘ شادی ہال میں لاکھوں روپے صرف روشنیوں‘ فرنیچر اور پھولوں کی سجاوٹ پر خرچ کئے بغیر بھی دو لوگوں کا آپس میں سکون اور اطمینان طریقے سے نکاح ہو سکتا ہے‘ وہ نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں‘ یہ سب ہمیں شاید پتہ تھا لیکن یقین نہ تھا۔ کورونا نے ہمیں خوراک کی اہمیت بھی سمجھا دی۔ آٹا‘ گندم‘ چاول‘ گھی جیسی چیزیں اس دوران ہیرے جواہرات کی طرح دکھائی دیں اور لوگوں کے ذہنوں میں پیٹ کو بھرنے کے سوا کوئی تیسرا خیال ہی نہیں آیا۔
اس لاک ڈائون کے دوران بہت سے نیکی کے منصوبے شروع ہوئے۔ ملک بھر میں لوگ اپنی اپنی استطاعت کے ساتھ معاشرے کے کمزور طبقے کی مدد کے لئے میدان میں آئے۔ روٹی انسان کی بنیادی ترین ضروریات میں سے ایک ہے اور بھوک انسان کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہمارے لئے شاید روٹی کی وہ اہمیت نہ ہو جو ایک دیہاڑی دار مزدور یا غریب طبقے کے لئے ہوتی ہے۔ انہیں پیٹ بھر کر کھانا مل جائے تو ان کی عید ہو جاتی ہے اور ہم لوگوں کو عید کے تین دنوں میں صبح شام پہننے کو چھ چھ برانڈڈ سوٹ مل جائیں تب بھی ہم ناشکرے اور اداس رہتے ہیں۔ روٹی کی اہمیت دیکھنی ہو تو کبھی کچرے کے ڈھیر پر کچھ دیر کھڑے ہو جائیں۔ آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا مفلوک الحال دکھائی دے جائے گا جو کچرے میں ہاتھ مار مار کر بچی کھچی سوکھی روٹی یا گلے سڑے پھل اکٹھے کر رہا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت زیادہ وائرل ہوئی ہے جس میں چیتھڑوں میں ملبوس ایک شخص روٹی کے ٹکڑے کو زمین سے اٹھا کر نلکے پر دھو رہا ہے۔ روٹی کی اہمیت ہمارے لئے کچھ اور ہے اور اس مزدور کے لئے کچھ اور جس کی کل کائنات روٹی کے گرد گھومتی ہے۔ اسے دو روٹیاں مل جائیں تو وہ شدید دھوپ اور گرمی میں بھی تھک ہار کر بجری یا فٹ پاتھ پر سو جائے گا لیکن ہم لوگ دیسی گھی کے پراٹھے کھا کر ٹھنڈے کمروں میں بھی ٹھیک سے سو نہیں سکتے کیونکہ ہماری خواہشیں اس قدر زیادہ ہیں کہ کہیں چین نہیں پاتے جبکہ غریب کی خواہش دو روٹیوں پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ لاہور کے علاقے ساندہ کے نوجوان حافظ ذوہیب طیب نے لاک ڈائون کے دوران غریبوں کی بھوک مٹانے کے لئے نیکی کا ایک ایسا پودا لگایا ہے جسے دنوں میں پذیرائی ملی ہے۔ سستی روٹی کا ہم نے بہت سنا۔ اس پر سکینڈل بھی سامنے آئے۔ یہ منصوبہ اگرچہ ناکام ہوا لیکن اس کا مقصد غریب طبقے تک سستی روٹی پہنچانا تھا۔ اس مقصد کے لئے خاص تندور بنوائے گئے اور ان تندوروں کو آٹا بھی سستے ریٹس پر فراہم کیا گیا لیکن یہ منصوبہ جلد ہی بند ہو گیا لیکن اس کے سکینڈل آج تک چل رہے ہیں۔ نہ جانے اس وقت کے حکمرانوں کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ جو تندور پہلے سے موجود ہیں انہیں ہی اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ لوگوں کو سستی روٹی فراہم کر دیں۔ حافظ ذوہیب طیب کے مطابق انہوں نے اپنے گھر کے قریب تندور سے اس منصوبے کا آغاز کیا اور اپنی جیب سے کچھ رقم ایک ڈبے میں ڈال کر تندور پر رکھوا دی۔ تندور والوں سے کہہ دیا کہ جو بھی بندہ کہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں وہ اسے مفت روٹیاں دے دیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں نے اس ڈبے میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ جو لوگ دس روٹیاں خرید کر جاتے وہ دو روٹیوں کے پیسے اس ڈبے میں ڈال دیتے اور نانبائی کو بتا دیتے۔ یوں نانبائی اسی حساب سے روٹیاں مستحق لوگوں کو مفت دیتا جاتا۔ یہ آئیڈیا کلک کر گیا اور آہستہ آہستہ ایسے تندور دیگر علاقوں میں بھی کھلنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے اپنے قریبی تندوروں پر یہ ڈبے رکھوا دئیے اور بڑا دل رکھنے والے لوگوں نے اس کار خیر میں حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ صدقہ دینے کے لئے انسان کا امیر ہونا ضروری نہیں اور صدقہ صرف مال کا بھی نہیں ہوتا۔ نیکی بھلائی کی بات کسی کو بتانا بھی صدقہ ہے۔ کسی کو اچھا مشورہ دینا یا راستہ بتایا بھی صدقہ ہے۔ تندوروں پر آنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد غریب اور درمیانے طبقے کی ہوتی ہے اور یہی لوگ صدقہ بھی سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ امیر آدمی تو دس مرتبہ سوچتا ہے کہ پیسے دینے سے میرا مال کام ہو جائے گا لیکن غریب اتنے حساب کتاب کے چکروں میں نہیں پڑتا۔ ایک تندور والے نے بتایا کہ بہت سے لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو دو روٹیاں خریدتے ہیں اور دو روٹیوں کے پیسے اس ڈبے میں ڈال جاتے ہیں۔ اس سے تندور مالک پر کوئی اضافی بوجھ بھی نہیں آتا اور روٹی مل جائے تو غریب آدمی اسے اچار یا چٹنی سے کھا کر بھی گزارہ کر لیتا ہے؛ چنانچہ لاک ڈائون کے دوران ہونے والے چند بہترین کاموں میں سے یہ ایک تھا جو پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہم بھی اس ماڈل کو اپنے اپنے علاقے میں شروع کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے کوئی لمبے چوڑے خرچ کی ضرورت نہیں۔ آپ نے صرف دس منٹ نکال کر تندور مالک سے بات کرنی ہے اور آگے کا کام اللہ پر چھوڑ دینا ہے۔ لاک ڈائون اور تباہ حال معیشت میں کسی کا پیٹ بھرنے سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ صدقہ بڑی تیزی سے پھیلتا اور اپنی جگہ بناتا ہے۔ بڑے سے بڑا سرکاری منصوبہ بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے فلاحی منصوبے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نیک نیتی سے شروع کئے گئے فلاحی منصوبے کے لئے آپ کو زیادہ سے زیادہ جو چیز درکار ہوتی ہے وہ نیت ہے۔ اگر آپ کا ارادہ ٹھیک ہے تو آپ کی کاوش بار گاہِ الٰہی میں قبولیت پا لے گی اور آپ کا خدا کی راہ میں دیا گیا ایک روپیہ سات سو گنا تک بڑھ کر آپ کو واپس ملے گا۔ اس کے مقابلے میں آپ حکومتی سطح پر ایسا کوئی منصوبہ شروع کرتے ہیں تو وہ اس لئے پروان نہیں چڑھ پاتا کہ اس میں بہت سے سٹیک ہولڈر مادی منافع کے لئے شامل ہو جاتے ہیں۔ ان منصوبوں کے شروع ہونے سے قبل ہی کروڑوں اربوں کاغذوں اور میٹنگز پر لگ جاتے ہیں لیکن غریب اور مستحق کے لئے مفت روٹی جیسے ان منصوبوں کی کامیابی کے لئے صرف نیت کا خالص ہونا ضروری ہے اور بس!