جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ کورونا بحران حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اب بھی کورونا کی حقیقت ماننے سے انکاری ہے۔ ان کے خیال میں یہ کوئی عالمی سازش ہے اور اس کا مقصد ملکوں کو اور عوام کو تباہی کے گھاٹ اتارنا ہے۔ گزشتہ روز سینئر صحافی فخرالدین بھی کورونا سے انتقال کر گئے۔ وہ پانچ روز سے ہسپتال میں داخل تھے۔ انہیں کورونا سے صحت یاب مریض کا پلازما بھی لگایا گیا جس سے ان کی حالت کچھ بہتر ہوئی لیکن بدھ کی رات اچانک طبیعت بگڑ گئی جس پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس سے قبل گزشتہ دو تین ہفتوں میں تحریک انصاف کی رہنما سمیت کئی اور معروف شخصیات بھی کورونا کی نذر ہو گئیں‘ لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ عید سے قبل چند دن لوگوں کے ہجوم خریداری کیلئے بازاروں پر ٹوٹ پڑے۔ لاہور نیوز کے ایک پروگرام میں جب اینکر نے شاپنگ کرتی ایک خاتون سے پوچھا کہ وہ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر بازار کیوں آ گئیں‘ تو وہ بھڑک کر بولی‘ یہ کورونا شرونا سب مذاق ہے‘ یہ سچ ہوتا تو کوئی کیس تو سامنے آتا‘ یہ سب لوگوں کو بھوکا مارنے کی سازش ہے۔ کہنے لگی‘ بچے اس لئے لائی ہوں کہ یہ بھی گھر بیٹھے بیٹھے تنگ آ گئے ہیں۔ کب تک کوئی انہیں قید رکھ سکتا ہے۔ خاتون تو جیسے کوئی لاوا دل میں لئے ہوئے تھیں؛ چنانچہ اینکر نے وہاں سے جانے کی ہی ٹھانی۔ ایسے لوگوں کو کوئی بھلا سمجھا بھی کیسے سکتا ہے۔ یہ تو پھر ہماری قوم ہے‘ کورونا کے حوالے سے جو سازشی تھیوریاں چل رہی ہیں انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی بل گیٹس کو اس سازش کا ماسٹر مائنڈ قرار دے رہا ہے تو کوئی چین کے فائیوجی ٹیکنالوجی پر سبقت لے جانے کو سازش کا گڑھ قرار دے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں لندن‘ اٹلی اور نیویارک میں مظاہرے دیکھنے میں آئے جن میں حکومت سے لاک ڈائون ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ امریکہ‘ کینیڈا سمیت چند جدید ممالک میں حکومتوں نے اپنے عوام کو اچھے خاصے ریلیف پیکیج دئیے ہیں۔ ٹیکس پیئرز کو چھ چھ سو ڈالر ہفتہ وار مل رہے ہیں اور بچوں کو چھ سو ڈالر الگ‘ لیکن وہ بھی کب تک یہ سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی لاکھوں خاندانوں کو بارہ ہزار روپے فی کس دئیے گئے لیکن یہ عارضی اقدام ہے۔ دنیا سمارٹ لاک ڈائون کے بعد اب سمارٹ ڈائون کے ساتھ زندگی گزارنے کی طرف جا رہی ہے۔ مغربی ممالک میں جہاں پارک کھلے ہیں وہاں کھلے میدانوں میں گول دائرے لگ چکے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے خاندان کے ساتھ ان دائروں میں بیٹھ کر کھلی فضا میں سانس لینے کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ بازاروں‘ ریسٹورنٹس‘ پبلک مقامات اور دفاتر وغیرہ میں پہلے ہی ایس او پیز کے تحت زندگی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے؛ تاہم پاکستان میں صورتحال ابھی تک قابو میں نہیں ہے۔ رمضان میں جس طرح سے لوگ باہر نکلے بالخصوص عید کی خریداری کے دوران‘ اس کے نتائج اگلے تین سے چار ہفتے میں سامنے آئیں گے۔ لوگوں نے منع کرنے کے باوجود میل ملاپ جاری رکھا۔ سعودی عرب کی طرح یہاں بھی کرفیو لگا دیا جاتا تو سب عید سکون سے گھروں میں گزارتے مگر عوام حکومت کی سنتے ہی کب ہیں؟ پاکستان میں اب تک کورونا کے ساٹھ ہزار سے زیادہ کیس آ چکے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آخری دس ہزار کیس سات دن میں سامنے آئے ہیں۔ بائیس مئی کو پچاس ہزار کیس تھے جو ستائیس مئی کو ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چکے تھے۔ اس سے قبل چالیس سے بڑھ کر پچاس ہزار تک دس ہزار کیس بھی چھ دن میں سامنے آئے تھے جبکہ پہلے دس ہزار کیس چالیس دن میں مکمل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لاک ڈائون میں بھی نرمی آ چکی ہے۔ کچھ دنوں میں ریسٹورنٹس اور دیگر کاروباری سرگرمیاں بھی کھلنے والی ہیں۔ یہ آفت کہاں جا کر رُکے گی کسی کو معلوم نہیں۔ فی الوقت تو مقابلہ بھوک اور بیماری کا ہے۔ لوگ بیماری سے بچنا چاہتے ہیں اور بھوک سے مرنے کو بھی تیار نہیں؛ تاہم شاپنگ کرتی قوم کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا تھا کہ انہیں بھوک کا کوئی خطرہ ہے۔ ایسا لگتا تھا لوگوں نے برے وقت کے بجائے عید کی خریداری کیلئے پیسے بچا کر رکھے تھے۔
کورونا کا عالمی گراف بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل بھارت چالیسویں اور پاکستان تیسویں نمبر پر تھا۔ آج بھارت چھلانگیں لگاتا آٹھویں نمبر پر آ چکا ہے جبکہ پاکستان اٹھارہویں نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھارتی حکومت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں کورونا کو روکنے کیلئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ مودی حکومت اس معاملے میں بھی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ یہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے آئے روز نت نئے محاذ کھڑے کر دیتی ہے۔ کبھی ایل او سی پر فائرنگ تو کبھی مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ اب چین کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے بھارت نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا لی ہے۔ بھارت میں سخت لاک ڈائون کی پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ لوگ کس طرح سے گھروں میں گزارہ کریں گے بھارتی پولیس ہر آنے جانے والی کی بے عزتی کرتی اور انہیں تھانوں میں بند کر دیتی ہے۔ بھارت کا صحت کا انفراسٹرکچر پہلے ہی آبادی کے ہجوم کو سنبھالنے کے قابل نہیں۔ اب کورونا کے بڑھتے کیسز نے اس کے وجود کو بھی خطرات لاحق کر دئیے ہیں۔ آسٹریلیا جیسے چند ملکوں نے کورونا کا بڑی بہادری اور عقلمندی سے مقابلہ کیا ہے۔ آسٹریلیا اس وقت 63ویں نمبر پر ہے اور کل ہلاکتیں بھی ایک سو تک ہی محدود رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہاں ہونے والے ساڑھے تیرہ لاکھ کورونا ٹیسٹ ہیں۔ دبئی میں بھی اب تک اکیس لاکھ لوگوں کے ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں پانچ لاکھ لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں جو آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں۔ امریکہ میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کے ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔ گزشتہ روز جارجیا میں معروف کاروباری شخصیت اور دوست اعجاز بھائی سے بات ہوئی۔ کہنے لگے: اب تو روزانہ ایک ہزار اموات ہو رہی ہیں جو تین چار ہزار روزانہ تک پہنچ گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا: یہاں بالخصوص نیویارک جیسے شہروں میں اپارٹمنٹس بہت زیادہ ہیں جن کی لفٹس استعمال کرنے سے لوگوں کی زیادہ تعداد متاثر ہوئی ہے۔ کینیڈا سے دوست حماد بٹ نے ایک ہفتہ وار میگزین کا سرورق شیئر کیا جس میں لوگ ٹولیوں کی شکل میں پارک میں جمع تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہی کورونا کا کوئی خوف نہیں حالانکہ کینیڈا میں روزانہ اب بھی ایک ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں اور ایک سو لوگ روزانہ کورونا کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ لوگوں کی برداشت پاکستان سے لے کر کینیڈا تک ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کسی کے پاس پیسے ختم ہو رہے ہیں تو کوئی گھر بیٹھے بیٹھے اُکتا چکا ہے۔ جہاں جہاں لاک ڈائون کھلا ہے وہاں بھی زندگی اپنی پرانی آب و تاب سے زندہ ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگوں میں عجیب سا خوف سما چکا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے کترانے لگا ہے۔ ہاتھ ملانا اور گلے ملنا تو درکنار لوگ تو ایک دوسرے کو پہچاننے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ بچے گھروں میں الگ سراپا احتجاج ہیں۔ سکول ٹیچروں کے ذریعے فیسوں کے وائوچر بھیجنے میں لگے ہیں۔ انہیں بچوں کو پڑھانے سے غرض نہیں۔ چند ایک سکولوں کے سوا باقی ہر جگہ خانہ پری ہو رہی ہے۔ نویں اور گیارہویں کے جن بچوں کو امتحان لئے بغیر پروموٹ کر دیا گیا ہے انہیں کچھ علم نہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ آگے میرٹ کیسے بنے گا کسی کو علم نہیں۔ سندھ میں آٹھ سو بچوں کو کورونا ہونے کی خبر الگ سے پریشانیاں بڑھا رہی ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کو تیار نہیں۔ زیادہ تر سکول پہلے ہی تنگ عمارتوں میں بنے ہیں۔ وہاں کیسے ایس او پیز پر عمل ہو گا کیسے بچے روٹین میں واپس آئیں گے کیسے اس نفسیاتی لہر سے باہر نکلیں گے‘ یہ سب آنے والے چند مہینوں میں پتہ چلے گا۔ فی الوقت احتیاط اور صرف احتیاط کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور جس کسی کو یہ لگتا ہے کورونا ایسے ہی کوئی ڈرامہ ہے تو وہ بغیر ماسک کے کسی ہسپتال کے کورونا وارڈ یا آئی سی یو میں کچھ دیر گزار آئے اس پر ''ڈرامے‘‘ کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔