جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام آخری وقت تک یہی کہتے اور سمجھتے تھے کہ یہ ہماری جنگ نہیں بلکہ پرائی جنگ ہے‘ اُسی طرح آج آدھی سے زیادہ قوم کورونا کو مذاق یا عالمی سازش سمجھتی ہے۔ آج سے دس بارہ روز قبل تک قریباً ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی کہتا تھا: بتائو بھلا تمہارے کسی دوست عزیز کو کورونا ہوا ہے؟ تو جواب دینے والا بھی یہی کہتا‘ ہاں یار میں نے بھی کورونا کا کوئی مریض نہیں دیکھا اور نہ ہی ہماری فیملی میں کسی کو کورونا ہوا ہے۔ اس پر دونوں کا اس بات پر یقین مزید بڑھ جاتا کہ کورونا کا ڈرامہ یونہی رچایا گیا ہے‘ اگر یہ سچ ہوتا تو کوئی تو بتاتا کہ اس کے کسی قریبی عزیز کو یہ بیماری ہوئی ہے۔ آج مگر حالات پلٹ چکے ہیں۔ تقریباً ہر خاندان میں ایک سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں‘ لوگوں کی اموات بھی ہو رہی ہیں اور وہی لوگ جو دس روز قبل تک اسے ڈرامہ اور یہودوہنود کی سازش قرار دے رہے تھے‘ وہ توبہ توبہ کرتے پھر رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ اس بحران کا نشانہ بھی ڈاکٹر ہی بن رہے ہیں جو اپنی جان پر کھیل کر ہسپتالوں میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں‘ اوپر سے مریضوں سے بددعائیں بھی پا رہے ہیں۔ ہم لوگ سرکاری یا نجی ہسپتالوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن ڈاکٹر‘ نرسیں اور دیگر عملہ تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے ہسپتال میں ڈیوٹی دیتا ہے۔ اس کا معاوضہ انہیں کیا ملتا ہے؟ مریضوں کے لواحقین کی بددعائیں‘ گالیاں اور جھگڑے؟
کورونا کے بارے میں اب تک کی گئی تقریباً تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں‘ اس لئے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون اس سے زندہ بچ پائے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر قدرت نے ہمیں اس سے بچنے کا ایک موقع بھی دے دیا تو ہمیں خدا کے حضور سجدے میں گر جانا چاہیے اور اس وقت تک گرے رہنا چاہیے جب تک خدا ہم سے راضی نہیں ہو جاتا اور سجدے میں گرنے سے مراد محض دکھاوے کی چند نمازیں اور خیرات نہیں بلکہ اپنی زندگی کو اس راستے پر ڈالنا ہے جسے صراط مستقیم کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سب سے بڑی دعا ہے۔ جو شخص سیدھے راستے پر چل نکلا اور جسے ہدایت مل گئی وہی دنیا کا کامیاب ترین شخص ہے اور اس کامیابی کیلئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ توبہ ہے۔ یہی وہ توبہ ہے جو آج ہم لوگوں میں نظر نہیں آ رہی‘ ہم مسلمان ہیں‘ ایک خدا‘ ایک رسولﷺ اور ایک کتاب کو مانتے ہیں اور مرنے کے بعد جی اٹھنے اور خدا کے حضور پیش ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن سچ سچ بتلائیے کبھی ہم نے سوچا ہم جو کرتے آ رہے ہیں‘ جس طرح روزی کما رہے ہیں‘ جس طرح دھوکہ‘ فریب اور لوٹ مار کرتے ہیں‘ جھوٹ‘ غیبت اور چغلیاں کھاتے ہیں‘ کل جب ہم مر جائیں گے تو دنیا ہمیں کس نام سے یاد کرے گی؟ آج ہم زندہ ہیں کوئی ہمارے سامنے کھڑا نہیں ہوتا‘ لیکن کل جب ہم چھ ضرب چار فٹ کے گڑھے میں اتر جائیں گے‘ تو کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے‘ بڑا راشی تھا‘ بڑا مکار تھا‘ بڑا کرپٹ تھا‘ ٹیکس چور تھا‘ لوٹا تھا‘ پیسوں کیلئے ضمیر بیچتا تھا‘ ظالم تھا‘ زناکار تھا‘ شرابی تھا‘ زمینوں پر قبضے کرتا تھا‘ غریبوں سے چھت چھینتا تھا اور کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ معمولی کلرک تھا چار چار بنگلے بنا گیا‘ معمولی پٹواری تھا سو سو ایکڑ ہڑپ کر گیا‘ معمولی دکاندار تھا ہیراپھیری کرکے تاجر بن گیا‘ معمولی سرکاری ملازم تھا فارم ہائوسز کا مالک بن گیا‘ معمولی ڈاکٹر تھا غریبوں کو لوٹ کر ایمپائر کھڑی کر گیا‘ معمولی منصف تھا انصاف بیچ کر دولت کے انبار لگا گیا‘ معمولی سیاستدان تھا ایک ایک نوکری کی پانچ پانچ لاکھ رشوت وصول کرتا رہا اور شریف آدمی کا بیٹا تھا لیکن بُرا ترین انسان بن گیا۔ لوگ ہمیں وہی کہیں گے جو ہم آخری وقت‘ آخری پل تک تھے اور جب حشر کا میدان لگا ہو گا‘ اعمال نامہ آئے گا تو وہ جو ساری زندگی گناہ کرتے رہے اور جو توبہ کئے بغیر مر گئے ان کیلئے اللہ نے دردناک عذاب تیار کررکھے ہوں گے اور وہ جو گناہگار بھی تھے‘ قاتل بھی تھے‘ زناکار اور خطاکار بھی‘ لیکن جب انہوں نے آخری وقت میں بھی سچی توبہ کر لی تو اللہ ناصرف انہیں بخش دے گا بلکہ ان کے گناہوں کو ان کی نیکیوں میں بدل دے گا‘ تو اس روز بہت لوگ پچھتائیں گے‘ کہیں گے کاش ہم بھی احساس کر لیتے‘ ہم بھی خود کو بدل لیتے اور ہم بھی راہ راست پر آ جاتے لیکن اس دن صرف پچھتاوا ہو سکے گا اور جو ہوگا وہ دنیا میں ہی ہوگا۔
آج جب ہم زندہ ہیں‘ کورونا سے لڑ رہے ہیں‘ اس کے باوجود سانس بھی لے رہے ہیں اور اپنے والدین‘ بہن بھائیوں‘ اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے ساتھ وقت بھی بِتا رہے ہیں لیکن ہم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اگلا سانس آتا ہے یا نہیں‘ ہم کل کا دن دیکھ پاتے ہیں یا نہیں‘ کورونا کی وجہ سے ہم میں سے کوئی زندہ بچتا بھی ہے یا نہیں اور ہمیں توبہ کا موقع ملتا ہے یا نہیں کیونکہ پہلے کورونا کا مریض ایک دو ہفتے ہسپتال میں رہتا اور پھر مرتا تھا‘ اب تو جوان لڑکے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر مر رہے ہیں؛ چنانچہ آج ہم صرف ایک منٹ کیلئے سوچ لیں کہ جس طرح ہمارے جاننے والے دوست یار روزانہ کوئی نہ کوئی کورونا کے ہاتھوں رخصت ہو رہا اور اگر کل کوانتہائی احتیاط کے باوجودہمیں بھی کورونا ہوگیا اور ہمارا بلاوا آگیا تو ہم روز محشر خدا اور نبی کریمؐ کے سامنے کس منہ اور اعمال نامے کے ساتھ جائیں گے۔ اگر آج ہم موت کے بعد کی زندگی پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال لیں‘ صرف پانچ منٹ کیلئے کمرے کی لائٹ بند کرکے لیٹ جائیں‘ گھپ اندھیرا کر لیں‘ ہم فرض کر لیں ہم قبر میں لیٹے ہیں اور ہمارے عزیز رشتہ دار سب ہمارے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں‘ یہ آپس میں کیا سرگوشیاں کر رہے ہیں‘ جی ہاں! اگر ہم ظالم تھے تو یہ ہمیں ظالم کہیں گے‘ اگر ہم رحم کرتے تھے تو یہ ہمیں رحمدل کہیں گے‘ ہم زناکار تھے تو ہمیں زانی کہیں گے‘ ہم دھوکے باز تھے تو ہمیں فراڈیا کہیں گے‘ ہم رشوت کھاتے تھے تو ہمیں رشوت خور کہیں گے‘ ہم والدین کو جھڑکتے تھے تو ہمیں نافرمان کہیں گے اور ہم دنیا میں جو جو کچھ کرتے رہے‘ یہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہیں گے اور اگر ہم یہی سوچ لیں کہ ہمارے بعد دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے گی تو ہمیں توبہ کا وہ دروازہ سامنے نظر آ جائے گا جو سیدھا جنت میں لیکر جاتا ہے اور اگر ہم اپنے گناہوں‘ اپنی خطائوں اور اپنی بداعمالیوں کو یہیں روک دیں‘ ہم توبہ کے راستے پر چل پڑیں‘ ہم حرم کے سامنے جھک جائیں‘ ہم نبیﷺ سے ناتہ جوڑ لیں اور اپنی انا‘ اپنے غرور اور اپنی اکڑ کو سرنڈر کر دیں تو ممکن ہے ہم کورونا کے ہاتھوں مرنے کے باوجود کامیاب ہو جائیں‘ لیکن اگر ہم نے اب بھی توبہ نہ کی تو ہم کورونا کے ہاتھوں بچنے کے باوجود خدا کے غضب سے نہیں بچ پائیں گے اور یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آ رہا۔ ہم سمجھ رہے ہیں ہم نے کورونا کو شکست دے دی تو اس کے بعد کوئی عذاب‘ کوئی بیماری نہیں آئے گی اور ہم دوبارہ رشوت‘ سفارش‘ دھوکہ دہی اور بداعمالیوں پر اتر آئیں گے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے کیونکہ نہ یہ کسی کو معلوم ہے کہ یہ آخری عذاب ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اس سے اکثریت بچ جائے گی کیونکہ ابھی تک اس بارے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں اور آگے موسم سرما آ رہا ہے جو ویسے ہی فلو اور بخار کا موسم کہلاتا ہے اس لئے ابھی سے رب کے سامنے جھک جائیں کہ مہلت کے بس چند روز‘ چند گھڑیاں ہی باقی ہیں!