سروسز ہسپتال لاہور کے سامنے درجنوں میڈیکل سٹورز ہیں۔ ان میں ایک ایسا ہے جس پر بہت زیادہ رش رہتا ہے۔ جب کورونا وبا کا آغاز ہوا تو دیگر کی طرح میں بھی این نائنٹی فائیو ماسک کی تلاش میں نکلا۔ مختلف فرنچائزڈ میڈیکل سٹورز پر بھی گیا لیکن کہیں بھی یہ ماسک نہ ملا‘ حتیٰ کہ عام پانچ روپے والا ماسک بھی کہیں کہیں دستیاب تھا اور وہ بھی بیس سے تیس روپے میں بیچا جا رہا تھا۔ میں نے ایک دکان سے پوچھا: آخر این نائنٹی فائیو ماسک کہاں سے ملے گا؟ تو اس نے بتایا کہ ایک ہی میڈیکل سٹور ہے وہاں سے مل جائے گا‘ لیکن بہت مہنگا بیچ رہا ہے۔ میں اس میڈیکل سٹور پر گیا تو وہاں درجنوں افراد خریداری کیلئے موجود تھے۔ رش کم ہونے پر میں نے ماسک کا پوچھا تو اس نے کہا: مل جائے گا‘ پندرہ سو روپے کا ہے۔ میں نے کہا: دو لینے ہیں کوئی رعایت ہو گی؟ بولا: ابھی کل یہ آٹھ سو روپے کا بیچا‘ اب قیمت بڑھ رہی ہے۔ آج نہیں لیں گے تو کل یہ دو ہزار کا بھی نہیں ملے گا۔ پتہ نہیں کیوں میں نے سوچا‘ شاید یہ مذاق کر رہا ہے۔ میں ماسک لئے بغیر آ گیا۔ دو روز بعد دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو سوچا پتہ کر لوں۔ اسی دکان پر گیا تو اس نے کہا: ماسک ہیں لیکن قیمت پچیس سو روپے فی ماسک ہے۔ میں نے کہا: ابھی دو دن پہلے تو آپ پندرہ سو روپے بتا رہے تھے۔ وہ ہنس کر بولا: یہ مارکیٹ میں کہیں سے نہیں ملیں گے‘ یہ بھی آج کی قیمت ہے ہو سکتا ہے کل تین ہزار میں ملے۔ مجھے غصہ آ گیا۔ کہا: تم بلیک مارکیٹنگ کر رہے ہو‘ صبح شام قیمت بڑھا رہے ہو‘ تو وہ بولا: ہمیں بھی آگے سے مہنگا مل رہا ہے‘ ہم کیا کریں۔ خیر میں وہاں سے آ گیا اور اپنے ایک میڈیکل ریپ دوست کے سامنے یہ کہانی رکھی۔ اس نے مجھے دو ماسک ارینج کر دئیے جو اس کے بقول ایک ڈاکٹر کے بھائی کے پاس تھے۔ اس نے یہ بھی یقین دلایا کہ یہ جینوئن ہیں۔ مجھے وہ ماسک اٹھارہ سو روپے کا ایک ملا۔ یہ اپریل کے شروع کی بات ہے۔ نہ جانے یہ ماسک بھی اصل ہیں یا نہیں لیکن مجھے کسی پر تو اعتبار کرنا تھا۔ یہ میرا پرانا اور مخلص دوست تھا اس لئے بلاجھجک اس کے کہنے پر خرید لئے۔ بعد میں یہ خیال بھی آیا کہ پتہ نہیں اس ماسک کا فائدہ ہو گا یا نہیں‘ چاہیے تھا کہ عام کپڑے والے ماسک ہی لے لیتا‘ ایسے ہی اتنے پیسے خرچ کر کے بیوقوفی کی۔
اب کچھ دنوں سے ایکٹمرا انجکشن کا شور مچا ہوا ہے۔ کہیں کوئی خبر آتی ہے کہ فلاں چیز کرونا وبا کے خلاف اچھے رزلٹ دے رہی ہے تو لوگ دھڑا دھڑ وہ چیز خریدنے لگ جاتے ہیں اور ساتھ ہی وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے اور جن لوگوں کے پاس ہوتی ہے وہ منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔ ایکٹمرا انجکشن کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ غالباً آٹھ نو ہزار روپے میں مل جاتا تھا لیکن جیسے ہی اسے کورونا سے جوڑا گیا‘ اس کی قیمت ایک لاکھ سے چھ لاکھ فی کس تک وصول کی جا رہی ہے۔ کورونا کے مریض کو دوسری جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ آکسیجن سلنڈر ہے۔ پہلے یہ چالیس سے پچاس ہزار میں دستیاب ہوتا تھا اب یا تو ملتا نہیں اگر ملتا ہے تو دو تین لاکھ روپے میں۔ یہ تو مہنگی آئٹمز کی بات تھی‘ ایسی ایسی چیزیں سونے کے بھائو بکنے لگی ہیں جنہیں کل تک کوئی سڑک کنارے اُگی گھاس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اسی فہرست میں سنا مکی اول نمبر پر ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی نیم حکیم بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی نئی نئی جڑی بوٹیاں ٹرائی کر رہا ہے۔ ہوا یہ ہو گا کہ کورونا کے کسی مریض نے سنا مکی استعمال کر لی ہو گی اور وہ صحت مند بھی ہو گیا ہو گا تو اس نے اس کا سہرا سنا مکی کے سر جوڑ دیا جس کے بعد ہر کوئی سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس کو شیئر کرنے لگا۔ آج حال یہ ہے کہ دو سو روپے فی کلو والی سنا مکی دو ہزار روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ ہماری قوم کو تو بس کوئی بہانہ چاہیے کوئی سا بھی بحران ہو یہ اس میں سے اپنے لئے فائدہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ مختلف چیزوں کو جان بوجھ کر کورونا سے جوڑا جاتا ہے تاکہ اس کی طلب بڑھے اور پھر منہ مانگے دام سمیٹے جا سکیں۔ پہلے اس طرح کے کام سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک کے دنوں میں ہوتے تھے لیکن اب تو ظالم کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ اب مارکیٹ میں کے این نائنٹی فائیو ماسک بھی دستیاب ہیں جو ساڑھے تین سو سے پانچ سو روپے میں بیچے جا رہے ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ ماسک کہاں بن رہے ہیں کیونکہ ان کی کوالٹی کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں۔ اگر ان ماسکس پر ایک سو روپے بھی لاگت آ رہی ہے تب بھی یہ پانچ گنا قیمت پر دستیاب ہیں۔ اصل این نائنٹی فائیو بھی کورونا وبا سے قبل سو ڈیڑھ سو روپے میں بآسانی مل جاتا تھا جو آج تین ہزار کا بھی نہیں ملتا۔ جہاں تک سنا مکی کی بات ہے تو ماہرین کے مطابق یہ قبض دور کرنے کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کوئی خاص فائدے نہیں۔ بہت سے لوگ جنہیں کورونا نہیں ہے وہ بھی دیکھا دیکھی اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں جس سے ان کا پیٹ خراب ہو جاتا ہے اور وہ ہسپتال جا کر کورونا لگوا رہے ہیں۔
ذخیرہ اندوزوں کیلئے یہ کمائی کے دن ہیں۔ دیسی مرغی جو کورونا سے قبل پانچ چھ سو روپے فی کلو مل جاتی تھی اب دو ہزار فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ ایمیون سسٹم کو طاقتور بنانے کا وہ رجحان ہے جس کی کوشش میں ہر کوئی لگا ہے۔ لوگ بھی بغیر تصدیق کئے معلومات اور پوسٹس آگے فارورڈ کر دیتے ہیں جس سے بہت سے لوگوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسی نے کسی دن یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ صاف گھاس کو پانی میں ڈال کر پینے کورونا مر جاتا ہے تو گھروں میں اور باہر لگی گھاس بھی نایاب ہو جائے گی اور ہزاروں روپے کی ایک گٹھی ملا کرے گی۔ یہ تو ہمارا حال ہے! کورونا کے نام پر مارکیٹ میں ماسکس سے لے کر سینیٹائزرز تک دو نمبر اشیا کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ ابھی کل ہی میڈیکل سٹور میں ایک شخص ہانپتا کانپتا آیا اور کہنے لگا: اسے پلس میٹر چاہیے۔ دکاندار نے اسے پلس میٹر دکھایا تو وہ بولا نہیں یہ تو کچھ اور ہے‘ میں نے اپنے رشتہ دار کے پاس جو دیکھا ہے اس کی شکل مختلف ہے۔ دکاندار نے پوچھا: اسے کس مقصد کیلئے چاہیے تو وہ بولا: جس سے خون میں آکسیجن کی مقدار کا پتہ چلایا جا سکے۔ دکاندار نے پھر پوچھا کیا آپ کا مریض گھر میں ہے تو وہ بولا: نہیں مریض تو کوئی نہیں ہے بس احتیاطاً خریدنا چاہتے ہیں۔ اس پر دکاندار نے کہا کہ آکسی میٹر دستیاب نہیں لیکن آپ کو بلاوجہ ایسی چیزیں خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تب لیجئے گا۔ مجھے یقین ہے وہ شخص باہر نکل کر پوچھتا پچھاتا اسی میڈیکل سٹور پر پہنچ جائے گا جو یہ چیزیں بلیک میں فروخت کر رہا ہے۔ ایسے گاہک ہی بلیک مارکیٹ کو فروغ دیتے ہیں جو بغیر کسی ضرورت کے ایسی ایسی چیزیں خریدتے ہیں جن کی ابتدا میں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ان کی اسی ڈیمانڈ کی وجہ سے مارکیٹ میں پہلے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور پھر دو چار دنوں بعد چیز سامنے لا کر مہنگی بیچی جاتی ہے۔ چونکہ کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دستیاب نہیں ہوا اس لئے یہی لگتا ہے کہ ہر نئے دن کوئی شخص نیا شوشہ چھوڑے گا اور لوگ دھڑا دھڑ ایسی چیزوں کے پیچھے لگ جائیں گے جن کی انہیں قطعاً ضرورت نہیں۔ ویسے قصور لوگوں کا بھی اتنا نہیں کہ ٹی وی پر بیٹھے چند چھاتہ بردار صحافی نما اینکر جب یہ کہہ کر لوگوں کو ڈرانے میں لگے ہوں گے کہ جتنی مرضی احتیاط کر لیں‘ پاکستان میں ہر شخص کو کورونا ہو کر رہے گا تو پھر ہم لوگوں نے بیوقوفیاں ہی کرنی ہیں!