کیوبا امریکہ کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے۔ یہ رقبے میں پاکستان سے سات گنا چھوٹا ہے اور اس کی آبادی لاہور شہر کے برابر ہے۔ یہ بیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ سے آزاد ہو کر الگ ملک بنا‘ اس کے باوجود امریکہ نے یہاں شورش اور اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ فیڈل کاسترو نے امریکی غلبے کیخلاف بے مثال جدوجہد کی اور کیوبا میں ایک قومی ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ کاسترو نے پانچ دہائیوں تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالے رکھی اور اپنے ملک کو فقروجہالت سے نجات دلائی۔ کاسترو نے ملک میں بے شمار اصلاحات کیں جن میں سے ایک امریکیوں کی تمام زرعی زمینوں اور کارخانوں کو حکومتی تحویل میں لیا جانا تھا۔ ایسی ہی اصلاحات کا نتیجہ ہے کہ آج کیوبا کی تمام آبادی کو صحت، صاف‘ پانی جیسی سہولتیں میسر ہیں۔ یہاں اوسط عمر78 برس ہے جو امریکہ سے زیادہ ہے۔ کیوبا کے30 ہزار ڈاکٹر اس وقت دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کیوبا ملیریا کے خلاف جہاد کر رہا ہے اورمغربی افریقہ کے چودہ ممالک میں اس کا طبی عملہ موجود ہے۔ گزشتہ 18 برس میں کیوبا تیسری دنیا کے بیس ہزار طلبا کو اپنے طبی اداروں میں جدید طریقہ علاج کی تربیت دے چکا ہے۔ کیوبا تیسری دنیا میں سستی اور موثر دوائوں کی تحقیق پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل ڈرگ کمپنیاں یہاں کا رُخ نہیں کر سکیں۔ سوشل سکیورٹی کے نظام کے تحت ہر خاندان کی قومی انشورنس، ہر کارکن کی انفرادی انشورنس اور ہر معذور کیلئے معذوری الائونس میسر ہے۔ تنخواہیں کم ہیں مگر کام سے کوئی محروم نہیں جبکہ بیس فیصد افرادی قوت چھوٹا ذاتی کاروبار کرتی ہے۔
کیوبا کا اصل کارنامہ تعلیم سے شروع ہوتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کیوبا اس وقت تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ملکوں میں صف اول پر ہے۔ یہ قومی بجٹ کا 13 فیصد تعلیم پر لگا دیتا ہے۔ پرائمری تا یونیورسٹی تعلیم مفت اور لازمی ہے‘ لہٰذا شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ یہ کاسترو کا وہ شاندار اقدام تھا جس نے کیوبا جیسے چھوٹے سے جزیرے کو امریکہ‘ چین اور جاپان جیسے ملکوں سے بھی نمایاں مقام دلوا دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھ لیں۔ یہاں دو سال قبل تک تعلیم کا بجٹ تقریباً تین فیصد تھا جو اب دو فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی ایسی ہے جو جنوبی ایشیا کی پانچ سو بڑی یونیورسٹیوں میں آتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک نشست میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے نومنتخب وائس چانسلرنے تعلیم کے حوالے سے دلچسپ حقائق اور ویژن پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے شعبے پر توجہ دئیے بغیر تعلیم کا زوال روکنا ممکن نہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں میں صف اول کا ادارہ بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے اپنے چار سالہ دور کا ایک مربوط پلان بھی بنایا ہے۔ ان کے مطابق تعلیم کا معیار بہتر کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس طرح دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور کوئی بھی ملک الگ سے اپنی دنیا میں گم نہیں رہ سکتا اسی لئے پاکستان کیلئے بھی تعلیم کے میدان میں عالمی سٹینڈرڈز اپنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ایسا طبقہ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا‘ اسے اس دائرے میں لانا بہت ضروری ہے کیونکہ آج تک اس ملک نے جتنے بھی بڑے نام ترقی کی کہکشائوں پر ابھرتے اور جگمگاتے دیکھے ہیں‘ ان میں سے اسی فیصد کا تعلق لوئر یا مڈل کلاس سے تھا۔ یہ طبقہ اپنی پیاس مہنگے مشروبات کے بجائے علم و تحقیق سے بجھانا زیادہ پسند کرتا ہے لیکن آج کے اس دور میں جب مہنگائی اپنے عروج پر ہے‘ ایسے خواب دیکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ وائس چانسلر کہتے ہیں: ہم تحقیق کو لازمی جزو بنائے بغیر تعلیمی اداروں کو اوپر نہیں لا سکتے۔ ان کے خیال میں پروڈکٹ ریسرچ اور کمرشلائزیشن کے ذریعے ہی سماج اور دنیا میں نام بنایا جا سکتا ہے۔ صرف بھاری بھر کم تحقیقی مقالے لکھ لینے سے اب کام نہیں چل سکتا۔ ایسے مقالے کس کام کے‘ جو کسی الماری کا بوجھ تو بن جائیں لیکن کسی معاشرے‘ کسی ادارے اور کسی شخص کی زندگی میں رَتی بھر تبدیلی نہ لا سکیں۔ ان کا تیسرا فوکس انٹرنیشنلائزیشن پر ہے۔ اس پروگرام کے تحت طلبا کا عالمی تعلیمی اداروں اور تحقیقی اداروں کے ساتھ رابطہ اور تبادلہ خیال ہے۔ یہ اہم ترین اقدام اس لئے ہے کہ ہمارے طالب علموں کو جب تک یہ علم نہیں ہو گا کہ دنیا کے عالمی تعلیمی اداروں میں طلبا کیا پڑھ رہے ہیں‘ ان کا پڑھنے کا طریقہ کار کیا ہے اور وہ مستقبل کے لئے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں تب تک ہم یونہی کنوئیں کے مینڈک بن کر ڈگریاں لیتے اور بانٹتے رہیں گے۔ ہم ترقی کو اپنی نظر سے دیکھ کر خوش ہوتے رہیں گے اور دنیا چاند سے بھی آگے پہنچ جائے گی۔ ان کا چوتھا فوکس انفراسٹرکچر کی بحالی اور بہتری ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جب تک طالب علم کے پاس بیٹھنے کے لئے کرسی‘ لکھنے کے لئے قلم اور استاد کے پاس پڑھانے کے لئے بلیک بورڈ نہیں ہو گا تب تک کوئی کیا پڑھے اور کیا پڑھائے گا اورآج کل تو بات قلم اور بلیک بورڈ سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ ڈیجیٹل دور میں پڑھنے اور پڑھانے کے انداز بھی بدل گئے ہیں‘کورونا لاک ڈائون کے دوران جس کی اچھی خاصی جھلک ہم نے دیکھ لی۔ وہ سکول کالجز جن کے پاس ایسے اساتذہ اور آلات تھے جو آن لائن ایجوکیشن سے واقف تھے‘ انہوں نے لاک ڈائون کے دوران بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ دیگر نے سارا زور فیسیں لینے پر رکھا۔ جدید ممالک میں تو اب روایتی بلیک یا وائٹ بورڈز کی جگہ ڈیجیٹل بورڈز نے لے لی ہے اور کلاس روم انٹرنیٹ‘ پروجیکٹر و دیگر آلات سے لیس ہو چکے ہیں۔سب سے اہم چیز جو ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج کیلئے کرنا چاہ رہے ہیں اور جو ہر تعلیمی ادارے بلکہ ہر معاشی ادارے میں لاگو ہونی چاہیے وہ ای گورننس ہے۔ اس کی مثال آپ یوں لے لیں کہ جیسے پہلے ایک بندہ رجسٹر پر حاضری لگاتا تھا‘ اب بائیو میٹرک مشین‘ یا آئرس اور فیس ڈیٹکیشن مشین سے یہی کام لیا جاتاہے۔ اسی طرح طلبا کے داخلوں‘ اخراج‘ ادائیگیوں‘ پرفارمنس‘ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں اور ان کے رویوں تک کو ایک ڈیجیٹل پورٹل میں یکجا کیا جا سکتا ہے اور ایک بٹن دبا کر جب چاہے کسی بھی طالبعلم کی روزانہ‘ ماہانہ یا سالانہ کارکردگی دیکھی جا سکتی ہے۔اسی پورٹل کے تحت اساتذہ کی کارکردگی پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے کیونکہ طلبا اور اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ لئے بغیر کسی بھی تعلیمی ادارے کا معیار بہتر نہیں کیا جا سکتا۔ گورنمنٹ کالج نے علامہ اقبال‘فیض احمد فیض‘راحیل شریف‘ثمر مبارک مند‘کرنل محمدخان اور پطرس بخاری سمیت سینکڑوں ہزاروں نامور ہستیاں پیدا کی ہیں اور آج کے اس ادارے پرجدید تقاضوں کے مطابق توجہ دی جائے تو یہاں دوبارہ سے ایسے نام ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔
پاکستان کیوبا سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ملک ہے لیکن یہاں حکومتوں نے کبھی تعلیم کو اہمیت دینا گوارا نہیں کیا۔ موجودہ دور میں بھی تعلیم کے بجٹ میں بہت زیادہ کٹوتیاں کی گئیں حتیٰ کہ سکالر شپ تک ختم کر دیئے گئے۔ ایسے طالب علم جو دیہات یا پسماندہ طبقے سے آتے ہیں یہ ان پر بجلی گرانے والی بات تھی کیونکہ ان کے لئے شہر میں رہنے اور تعلیم و تحقیق کے اخراجات اٹھانا ممکن نہیں۔بدقسمتی سے ہر نئے آنے والے حکمران نے ملکی ترقی کیلئے باتیں تو بہت کیں لیکن اس جانب عمل کرنے سے احتراز کیا یہی وجہ ہے کہ آج کیوبا جیسا چھوٹا سا جزیرہ تعلیم پر تیرہ فیصد جبکہ پاکستان بمشکل دو فیصد لگا رہا ہے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔