کورونا لاک ڈائون جہاں انسانی زندگی کے لئے کئی خطرات لایا تھا‘ وہیں اس کی وجہ سے ایسے فوائد بھی حاصل ہوئے جو شاید اربوں ڈالر لگا کر بھی حاصل نہ ہوتے۔ ان میں سے ایک فضائی اور زمینی آلودگی میں انتہائی کمی تھی۔ فروری‘ مارچ کے بعد چونکہ پوری دنیا لاک ڈائون میں چل رہا تھا اس لئے ٹرانسپورٹ‘ کارخانے وغیرہ بند ہونے سے آلودگی کا تناسب کم ہو گیا۔ اب پاکستان سمیت کئی ملکوں میں لاک ڈائون ختم ہونے سے انسانی زندگیوں کو کورونا سے تو براہِ راست خطرہ کم ہو گیا ہے لیکن بالواسطہ انداز میں کئی خطرات دوبارہ سر اٹھانے لگے ہیں۔ صرف آلودگی کی ہی بات نہیں‘ ہسپتالوں میں بھی کورونا کے علاوہ دیگر مریضوں کا آنا جانا تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ کل لاہور‘ جیل روڈ پر سے گزر ہوا تو نجی ہسپتالوں کے باہر رش کی صورت حال دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا شہر ہسپتال میں اُمڈ آیا ہو۔ جراثیم لگنے کے ڈر سے جو لوگ معمولی چیک اپ کی وجہ سے ہسپتال جانے سے احتراز برت رہے تھے‘ اب وہ بھی ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے رش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاک ڈائون کے دوران لوگوں نے کھانے پینے اور دیگر معاملات میں خاصی احتیاط برتی۔ ویسے بھی ریسٹورنٹ وغیرہ بند تھے اس لئے رات گئے کھابے بھی معطل ہو گئے جس کا اچھا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے گھروں کا کھانا کھانا شروع کر دیا جس سے نہ صرف ان کی صحت بہتر ہوتی گئی بلکہ انہیں غیر ضروری ادویات اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بھی نجات مل گئی۔ بہت سے شہریوں نے گھروں میں فٹنس مشینیں اور جم وغیرہ کا سامان خرید لیا تاکہ گھروں میں کھا کر پڑے رہنے کے بجائے خود کو فٹ رکھ سکیں۔ اب لاک ڈائون ختم ہوا ہے تو وہی پرانی روٹین بحال ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہی مشینی زندگی کی دوڑ چل پڑی ہے۔ ایک ایسی دوڑ جس میں کھو کر انسان اپنے آپ سے یوں لاپروا ہوتا ہے کہ زندگی کے ماہ و سال یونہی کھیل تماشے میں گزر جاتے ہیں۔
لاک ڈائون کے دوران دنیا بھر کے لوگوں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اپنی زندگی پر ایک نظر دوڑاتے‘ اپنی کمیاں‘ کوہتایاں دیکھتے اور زندگی کو بہتر انداز میں دوبارہ شروع کرنے کی پلاننگ کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کورونا کے دوران ایسے امیر لوگوں نے سادگی سے اپنے بچوں کی شادیاں کی جو عام حالات میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ نہ لمبی چوڑی بارات‘ نہ بینڈ باجے‘ نہ طرح طرح کے کھانوں اور دیگر چیزوں پر پیسوں کا ضیاع ہوا اور کئی گھر خاموشی اور سادگی کے ساتھ آباد ہو گئے۔ لاک ڈائون کے دوران سب سے زیادہ جس چیز کی کسی کو فکر تھی‘ وہ صحت تھی اور لاک ڈائون کے بعد سب سے زیادہ اگرغفلت برتی جا رہی ہے تو وہ صحت اور سکون کے معاملے میں ہی برتی جا رہی ہے۔ جن لوگوں نے آئوٹنگ اور پارٹیوں کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا تھا‘ ان کی حالت اس مچھلی جیسی رہی جو سمندر سے باہر خشکی پر تڑپتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ مگر اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ آپ جتنی مرضی فوڈ اتھارٹیز بنا لیں‘ باہر کے کھانوں کو آپ کبھی بھی مکمل طور پر صحت بخش قرار نہیں دے سکتے۔ جن جگہوں پر یہ کھانے بنتے ہیں‘ وہاں صفائی ستھرائی کی کیا صورت حال ہے‘ جو کُک کھانا بناتے ہیں کیا انہیں صاف ستھرے واش روم بھی میسر ہیں یا نہیں‘ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ بہت سے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں تو عملے کے لئے واش رومز میں صابن بھی میسر نہیں ہوتا جبکہ ہم لوگ ریسٹورنٹ کی چکا چوند اور مینیو کو دیکھ کر ہی ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں روپے کھانے پر لگاتے ہیں اور پھر بھی بے سکون ہی گھر لوٹتے ہیں۔ سکون اگر کھابوں میں رکھا ہوتا تو دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں کے افراد ہمیشہ بیمار رہتے۔ دیہات میں آج بھی خالص سبزی اور دودھ وغیرہ میسر ہے جس کی ہم صرف تمنا کر سکتے ہیں اور پہاڑی علاقوں کے لوگ بہت زیادہ اونچائی یا اترائی کے معمول کی وجہ سے صحتمند رہتے ہیں۔ یہ ہماری خوش فہمیاں ہیں جن پر کورونا لاک ڈائون نے ایک کاری ضرب لگائی اور اس مِتھ کو توڑنے کی کوشش کی جس کے ساتھ ہم جڑے بیٹھے ہیں کہ صرف اندھا دھند دولت کمانا اور دنیا کو دِکھانا ہی اصل زندگی ہے۔
چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی انسان کو خوش رکھنے کے لئے کافی ہوتی ہیں، اس بارے میں سوچنے کی ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ ایسے ہی ایک دولت کے رسیا‘ کاروباری سیاح کو امریکہ کے کسی ساحلی گائوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ دریا کی سیر کیلئے کشتی میں سوار ہوا‘ کشتی گہرے پانی میں پہنچی تو ملاح نے کشتی روک کر ایک چھوٹا سا جال نکالا‘ اسے کھولا اور پانی میں اچھال دیا۔ سیاح بڑے انہماک سے اُسے ایسا کرتے دیکھ رہا تھا‘ بولا ''یہ کام بہت محنت طلب ہے‘ تم اس سے حاصل کیا کرتے ہو؟‘‘ ملاح مسکرایا اور بولا ''بہت کچھ‘ اتنا کچھ کہ تم اندازہ نہیں کر سکتے‘‘۔ سیاح نے ملاح کے میلے کچیلے کپڑوں کی جانب نگاہ ڈالی اور حیرانی سے پوچھا ''مجھے نہیں لگتا کہ تم بہت زیادہ کما لیتے ہو‘‘۔ سیاح بولا ''یہ درست ہے کہ میں بہت زیادہ مچھلیاں ساتھ نہیں لے جا پاتا لیکن میں جتنا بھی کماتا ہوں‘ یہ میری اور فیملی کی ضروریات کے لئے کافی ہے‘ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں، یہ خوشیاں پانے کیلئے میرا اتنا ہی وقت کافی ہے جتنا میں دے رہا ہوں‘‘۔ سیاح کے ماتھے پر حیرانی کی لہریں سر اٹھا رہی تھیں‘ ملاح بولا ''میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہوں‘ جال اٹھاتا ہوں اور پانی میں نکل جاتا ہوں‘ مچھلیاں پکڑتا ہوں اور بازار جا کر فروخت کر دیتا ہوں‘ ہم گھر میں ہر روز لذیذ تازہ مچھلی بھون کر کھاتے ہیں‘ اس کا ذائقہ اور خوشبو للچا دینے والے ہوتے ہیں‘ شام کو ہم گائوں میں نکلتے ہیں‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گٹار بجاتا ہوں‘ ہم ہر مرتبہ نئی دھنیں بجاتے ہیں‘ رات کو ہم پانی کی دلکش لہروں کو دیکھتے ہیں‘ ان کی آوازیں مسحور کر دینے والی ہوتی ہیں‘ ہم دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں‘ کافی کے سِپ لیتے ہیں اور تاش کھیلتے ہیں‘ اتنی دیر میں ہمارے بیوی بچے بھی آ جاتے ہیں‘ ہم سب مل کر خوشی کے گیت گاتے ہیں اور پھر گھر جا کر سو جاتے ہیں‘ ہماری یہی چھوٹی سی زندگی ہمارا سب کچھ ہے‘‘۔ سیاح بولا '' میرا مشورہ مانو تم مچھلیاں پکڑنے کے لئے دوگنا وقت لگائو‘ اپنے ساتھ دیگر لوگوں کو ملا کر کمپنی بنائو اور پھر مچھلیوں کی ایکسپورٹ شروع کر دینا اور کاروبار پوری دنیا میں پھیلا دینا، یوں تم ایک کامیاب بزنس مین بن جائو گے‘‘۔ ملاح سر جھکا کر سنتا رہا‘ کچھ دیر خاموش رہا اور بولا ''لیکن اس میں وقت کتنا درکار ہو گا؟‘‘ سیاح بولا '' کوئی بیس پچیس سال‘‘ ملاح نے پوچھا '' اور اس کے بعد کیا ہو گا‘‘ سیاح ہنستے ہوئے بولا '' تمہاری کمپنی کے شیئرز جاری ہوں گے‘ تم ارب پتی بن جائو گے‘‘ ''ارب پتی؟‘‘ ملاح نے چیخ کر پوچھا۔ سیاح بولا ''ہاں! اس کے بعد تم ریٹائر ہو جانا اور کسی دریا کے پاس کسی چھوٹے سے پُرسکون گائوں یا سمندر کنارے رہائش اختیار کر لینا‘ جب مرضی سونا‘ بچوں کو وقت دینا‘ آئوٹنگ کرنا اور لائف کو بھرپور انجوائے کرنا‘‘ ملاح بولا ''تو تمہارا کیا خیال ہے میں اس وقت کیا کر رہا ہوں؟‘‘ یہ سن کر سیاح کا جوش ماند پڑ گیا‘ ملاح بولا ''جو کچھ مجھے بیس پچیس سال بعد ملے گا‘ وہ آج بھی میرے پاس ہے تو پھر میں پچیس سال کیونکر ضائع کروں؟‘‘۔
لاک ڈائون میں یقینا نوے فیصد لوگوں نے ایسی ہی لائف انجوائے کی ہو گی جیسی یہ ملاح عام دنوں میں گزارتا ہو گا‘ لاک ڈائون میں لوگوں نے اپنے بچوں کو ٹائم دیا ہو گا‘انہیں پڑھایا ہو گا‘ اپنی صحت پر توجہ دی ہو گی‘ وقت پر سوئے اور اٹھے ہوں گے‘ مرضی کی چیزیں کھائی اور پی ہوں گی اور انہیں پرانی یادیں تک تازہ کرنے کا موقع بھی مل گیا ہو گا لیکن اب پھر وہی کھیل تماشا شروع ہے‘ ہم زندگی کے اس جمھیلے میں دوبارہ پھنسنے جا رہے ہیں جس میں نہ تو کسی کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے وقت ہے‘ نہ اپنی صحت اور زندگی کی حقیقی ضرورتوں پر توجہ دینے کی کوئی فکر۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم لاک ڈائون سے کچھ سیکھ لیتے‘ ہم زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیتے!