خدا پر یقین اور ایمان انسان کے لیے کتنا اہم ہے‘ ڈان ہیڈنگ اس کی زندہ مثال ہے:
امریکی باشندے ڈان ہیڈنگ کو ایک روز خوراک نگلنے اور ہاضمے میں شدید تنگی محسوس ہوئی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ دوائی لی مگر افاقہ نہ ہوا۔ اس کی بھوک ختم اور اس کا وزن کم ہونے لگا تھا۔ وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ اس کے کئی ٹیسٹ ہوئے۔ پتا چلا اس کی خوراک کی نالی اور معدے کے درمیان کینسر کے سیلز موجود ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ ڈاکٹروں نے بتایا اس کے پاس صرف دو راستے ہیں: اول‘ وہ کچھ نہ کرے بس اپنی موت کا انتظار کرے کیونکہ وہ صرف چار سے چھ ماہ ہی زندہ رہ سکتا ہے، دوم‘ وہ انتہائی تکلیف دہ علاج کرائے لیکن اس سے بھی اس کے بچنے کا زیادہ امکان نہیں۔ ہیڈنگ کو زندگی سے پیار تھا؛ چنانچہ اس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ اس نے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا آپریشن ہوا۔ اسے شعائیں لگیں‘ اس کی کیموتھراپی بھی ہوئی مگر وہ صحت مند ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ بیمار پڑ گیا اور اسے خوراک منہ کے بجائے نالی کے ذریعے دی جانے لگی۔ ہیڈنگ ایک زندہ لاش بن چکا تھا مگرپھر ایک کرشمہ ہوا۔
ہیڈنگ کے ایک پرانے دوست نے اس کی خیریت دریافت کی۔ ہیڈنگ نے اسے بتایا کہ وہ موت کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ اس شخص نے ہیڈنگ کو کہا کہ وہ گھبرائے نہیں، وہ اسے تیرہ صفحات پڑھنے کے لئے بھیجے گا‘ وہ انہیں پڑھے اور خدا سے دُعا کرے۔ اس نے ہیڈنگ کو کہا کہ وہ خدا پر یقین کرے‘ اپنا معاملہ خدا کے سامنے رکھے اور پھر دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔ لٹریچر میں لکھا تھا کہ انسان کو کبھی بھی خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، دنیا میں اگر انسان بے بس اور ناکام ہو تا ہے تو اسے اپنا کیس خدا کے سامنے رکھ دینا چاہیے‘ اسے شاملِ حال کرلینے سے اس کا مشکل ترین مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ہیڈنگ کا مذہبی رجحان نہ ہونے کے برابر تھا لیکن بیماری کے بعد وہ بدل چکا تھا۔ اسے موت کی ڈیڈ لائن مل چکی تھی؛ تاہم وہ موت کو ویلکم کہنے کو تیار نہ تھا۔ اس نے لٹریچر پڑھا تو اس کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ اس نے سوچا جب وہ تندرست تھا‘ ہٹا کٹا تھا‘ تب وہ اپنے خدا‘ اپنے مذہب سے کوسوں دور تھا‘ تندرستی اور صحت کیا ہوتی ہے‘ وہ کون سی طاقت ہے جو انسان کو یہ نعمتیں اور صحت دیتی ہے‘ اسے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ ہیڈنگ کو یقین ہو چلا تھا کہ خدا کے آگے کچھ بھی ناممکن نہیں‘ کچھ بھی مشکل نہیں۔ اس نے رو رو کر خدا سے صحت یابی کی دعائیں کیں‘ خدا کی طاقت کو تسلیم کیااور اپنا معاملہ خدا کے آگے رکھ دیا اور پھر وہ ہوا جو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔
اگلی صبح جب ہیڈنگ بیدار ہوا تو اسے اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس ہوئی۔ ہیڈنگ کو شدید بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ وہ گوشت کھانا چاہتا تھا۔ اس نے یہ خواہش اپنی بیوی کے سامنے رکھی۔ اس کی بیوی نے بھنا ہوا گوشت اس کے سامنے رکھ دیا۔ ہیڈنگ کو گوشت کھائے ایک سال ہو چلا تھا۔ اس نے پہلا لقمہ لیا، اسے اتنا لطف آیا کہ وہ بغیر رکے کھاتا چلا گیا۔ اس کا پیٹ بھر گیا اور اسے قے بھی نہ آئی۔ وہ بڑا حیران ہوا کیونکہ اس سے قبل اگر وہ گوشت چکھ بھی لیتا تھا تو اسے متلی ہونے لگتی تھی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ ڈاکٹر نے اسے چند ٹیسٹ لکھ دیے۔ اس کی رپورٹ حیرت انگیز تھی۔ ہیڈنگ کی خوراک کی نالی اور معدے سے کینسر کے تمام سیلز غائب ہو چکے تھے یوں لگتا تھا جیسے اسے کبھی یہ مرض لاحق ہی نہ تھا۔اگلے چھ ماہ میں اس کا وزن بھی بڑھ گیا اور وہ خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔
خدا پر یقین اور ایمان انسان کیلئے کتنا اہم ہے‘ اس واقعے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے لمحات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں جب ہر راستہ بند گلی میں جا نکلتا ہے‘ جب مادی وسائل جواب دے جاتے ہیں او رجب عقل کے سمندر کی حد تمام ہو جاتی ہے اور ایسا وقت ہم سب کی زندگی میں آتا ہے‘ ہم رزق کی تنگی کا شکار ہوجاتے ہیں‘ ہم مقروض ہو جاتے ہیں‘ ہم ناجائز مقدمات میں پھنس جاتے ہیں‘ ہمیں اولاد کیلئے مناسب رشتے نہیں ملتے‘ ہماری زمین‘ ہمارے مکان اور ہماری دکان پر ناجائز قبضہ ہو جاتا ہے‘ ہماری قیمتی چیز گم جاتی ہے‘ ہم کسی خوفناک بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہمیں کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے‘ ہم اچھا روزگار حاصل نہیں کر پاتے‘ ہم اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں‘ ہم بیٹے کو ترس جاتے ہیں‘ ہمارا کوئی کام ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے اور ہم بیک وقت کئی مشکلات میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے انسان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے اور اس امتحان میں‘ جس نے بھی اپنے رب کو پکارا‘ جس نے خدا پر یقین کیا اور اپنا کیس اس کے سامنے رکھا‘ وہ ضرور کامیاب ہوا اور دُعا کی قبولیت کا بہترین وقت رات کا آخری پہر ہوتا ہے۔ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ عرش پر انتظار کرتا ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں آئیں‘ اس سے اپنی حاجات طلب کریں اور اپنا دُکھ اس کے سامنے رکھیں اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور اس وقت کی گئی دُعا‘ اس وقت کی گئی عبادات اور اس وقت کی گئی توبہ اللہ کے ہاں زبردست قبولیت پاتی ہے۔ جس وقت ہم گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوتے ہیں یہ انسان کی مرادیں پوری ہونے کا وقت ہوتا ہے اور ہم یہ موقع ضائع کر دیتے ہیں اورگلہ یہ کرتے ہیں اللہ ہماری سنتا نہیں ہے ‘ہماری مشکل‘ ہماری مصیبت دور نہیں ہوتی یا ہم مسلسل مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ دنیا میں لامحدود وقت کے لئے آیا ہے حالانکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیز و اقربا کی میتوں کو قبروں میں اتارتا ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے بھی کبھی جان دینی ہے۔ انسان کی یہی بھول اسے خدا سے دور کر دیتی ہے اور خدا سے دوری انسان کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔ اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن انسان اللہ کو چھوڑ کو زمینی خدائوں کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اسے یہ تک سمجھ نہیں آتی کہ جو انسان اپنی مشکل دور کرنے پر قادر نہیں‘ وہ کسی اور کی پریشانیوں کو کیسے دور کر سکتا ہے۔ پھر خدا کے نزدیک جو سب سے بڑا گناہ ہے‘ وہ شرک ہے اور یہ اللہ کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم ہے؛ تاہم اگر کوئی انسان اس پر معافی مانگ لے تو رب اسے معاف کر سکتا ہے۔
ہماری دعائیں آج بے اثر اس لئے ہو چکی ہیں کہ ہم دعا بھی دل سے نہیں مانگتے۔ دعا مانگنے کے بھی کئی لوازمات ہیں جو پورے نہ ہوں تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا کی سب سے بڑی شرط یہی ہے کہ یہ خدا سے کی جائے نہ کہ اس کے کسی بندے کو اس قابل سمجھا جائے کہ وہ اس کی حاجت پوری کر سکتا ہے۔ دوسری شرط یقین ہے۔ انسان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے ‘ وہ ہر کسی کی سنتا ہے اور دعا کو قبول کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔تیسری چیز اخلاص ہے۔ دل سے نکلی ہوئی دُعا کی قبولیت کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ دعا کے الفاظ کو رسمی طور ہر دہرانا کافی نہیں۔ یہاں انسان دوسرے انسان سے مانگتے ہیں تو طرح طرح کے بہانے اور چہرے پر آنسو لے آتے ہیں تو جب رب سے مانگنا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ روایتی طور پر جلدی جلدی دُعا کر کے چلتے بنیں اور پھر یہ امید بھی رکھیں کہ وہ آپ کی مشکل ٹل جائے گی‘ آپ کی بیماری دورہو جائے گی یا خدا آپ کے مسائل حل کر دے گا۔ اللہ رب العالمین ہے۔ وہ تمام نسلوں اور تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کی دعا میں بھی تڑپ اور درد شامل ہو گا‘ وہ اس کے دربار سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے گا۔