پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر آ ئے گی یا نہیں‘ فی الحال پیش گوئیاں جاری ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے البتہ خبردار کر دیا ہے کہ عوام احتیاط کریں‘ ماسک پہنیں کیونکہ سردیوں میں کورونا کی دوسری لہر آ سکتی ہے ۔کورونا کی پہلی لہر فروری‘ مارچ سے شروع ہو کر جولائی اگست تک گئی جس کے بعد کیس کم ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن اب چونکہ سردیوں کا موسم قریب ہے اس لئے عوام کی جانب سے اس معاملے میں اگر احتیاط نہ برتی گئی تو زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ سردیوں میں یہ وائرس زیادہ تیزی سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرما میں فلو‘ نزلہ‘ زکام اور بخار کے کیسز میں اضافہ ہو جاتا ہے اور چونکہ کورونا اور فلو وغیرہ میں کئی طرح کی مماثلتیں پائی جاتی ہیں اس لئے یہ تعین کرنا مشکل ہو جائے گا کہ کس کو کورونا ہے اور کس کو نہیں۔ ہر بخار کا مریض ابتدا میں اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ اسے شاید کورونا ہو گیا ہے‘ جب تک ٹیسٹ نہ ہو جائے کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیسٹ ویسے بھی ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں موسم بھی تبدیل ہوا ہے، ہوا میں خنکی بڑھ گئی ہے اور سردی سی محسوس ہونے لگی ہے۔ اسی کے ساتھ بخار اور فلو کے کیس بھی بڑھنے لگے ہیں۔ شہریوں کو جتنی احتیاط کی ضرورت اس مرتبہ ہے‘ شاید پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ بہت سے ممالک میں پاکستان کی طرح کورونا کم ہو گیا تھا لیکن وہ اب اس کی دوسری لہر کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس میں یورپ سرفہرست ہے۔ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ جرمنی اور سپین میں کورونا دوبارہ سے ابھر رہا ہے اور کئی جگہوں پر دوبارہ سے لاک ڈائون کی تیاریاں بھی شرو ع کر دی گئی ہیں۔ اُدھر امریکہ میں کورونا بے قابو ہوتے ہوئے بالآخر صدارتی محل تک جا پہنچا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ قرنطینہ میں ہیں‘ یوں کورونا نے ثابت کیا کہ اس سے دنیا کا طاقتور ترین شخص بھی محفوظ نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے وہاں اب بھی بہت سے لوگ اسے وہم و گمان خیال کرتے ہیں اور اب جبکہ کورونا پاکستان سے تقریباً ختم ہو چکا ہے تو وہ لوگ جو پہلے بھی نیم دلی سے احتیاط کر رہے تھے‘ مزید بے دھڑک ہو کر باہر نکل آئے ہیں۔
کچھ دن قبل ہمارے ایک عزیز صحافی دوست کو بھی کورونا ہوا‘ جس کے بعد سے یہ خدشہ مزید تقویت اختیار کر گیا کہ کورونا ختم نہیں ہوا بلکہ کہیں نہ کہیں گھوم رہا ہے اور جس کا دروازہ کھلا ملتا ہے‘ وہ بے دھڑک اس گھر میں داخل ہو جاتا ہے؛ چنانچہ کورونا کے حوالے سے پہلی اور آخری چیز احتیاط ہی ہے جو اب بھی جاری رکھے بغیر چارہ نہیں۔ مکمل لاک ڈائون نہ پہلے کیا گیا اور نہ ہی اب کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں نے اپنے شہریوں کو اربوں ڈالر کے پیکیج دیے جن کی وجہ سے کروڑوں لوگ بھوک اور معاشی تنگ دستیوں سے بچ گئے۔ اس کے باوجود کئی ملکوں کی بڑی عالمی کمپنیوں کو اپنے ملازمین فارغ کرنا پڑے‘ جن میں ٹورازم اور ایئر لائن انڈسٹری صف اول پر ہیں۔ امریکہ نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج دیا جو دو ہزار ارب ڈالر یا دو کھرب ڈالر پر مشتمل تھا۔ پاکستان جیسے ملکوں کی اس پیکیج کے سامنے کیا حیثیت ہے کہ جہاں کے زرمبادلہ کے کل ذخائر ہی بیس پچیس ارب تک ہیں۔ دنیا میں کروڑوں لوگوں اور ہزاروں کمپنیوں کے لئے معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے سیاحت پر انحصار کیا جاتا تھا لیکن اب سینکڑوں کمپنیاں کورونا کے بھنور میں ڈوب چکی ہیں۔ دبئی جیسے ملکوں کی معیشت کا تو دار و مدار ہی لوگوں کی چلت پھرت اور سیر و تفریح پر ہے۔ کچھ جگہوں پر جزوی طور پر سیاحتی مقامات کو بحال کیا جا رہا ہے، سیاحوں کی تعداد اور ٹائمنگ بھی محدود کر دی گئی ہے؛ تاہم ان اقدامات سے عوام کو حوصلہ تو مل سکتا ہے لیکن معیشت کا سانس بحال کرنے کے لئے ویسی ہی آمد و رفت کی ضرورت ہے‘ جیسے کورونا سے پہلے تھی۔
دنیا کو چاہیے کہ وہ کورونا پر ایک ایسا عالمی کمیشن یا گروپ بنائے جو اس کے ارتقا‘ پھیلائو‘ اثرات‘ بچائو اور ویکسین کے حوالے سے مشترکہ تحقیقات کرے۔ ابھی تو ہر ملک اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے بیٹھا ہے۔ روس نے ویکسین بنانے کا اعلان ایک ماہ قبل ہی کر دیا تھا ۔ کئی اطلاعات کے مطابق چند اور ملک روس سے بھی پہلے کورونا کی ویکسین بنا چکے تھے لیکن یہ چونکہ ٹرائل فیز میں تھی اس لئے ان کی جانب سے اعلان نہیں کیا گیا۔ روس نے ایسا کیوں کیا‘ کیا وہ محض پہلے نمبر پر آ کر اپنا آپ منوانا چاہتا تھا اور اس کی ویکسین واقعی پُراثر ہے بھی یا نہیں‘ اس بارے میں ابھی تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ تمام ممالک کے سربراہان بیٹھتے اور اس مسئلے کے حل کے لئے ایک ایسا ایجنڈا بناتے جو تمام ممالک کے لئے قابل قبول ہوتا۔ اس سے کورونا سے بچائو کی کوشش اور کامیابی میں تیزی آتی‘ ترقی پذیر ممالک کے اخراجات اور نقصان میں کمی ہوتی اور دنیا اس بیماری کو ختم کرنے اور اس کی دوا ایجاد کرنے میں جلد کامیاب ہو جاتی۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ بیماری صرف ایک ملک یا خاص طبقے یا شہریوں کو متاثر نہیں کر رہی بلکہ پوری دنیا اس کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ تمام ممالک اپنے طور پر جو کوششیں کر رہے ہیں وہ ساری کسی ایک پلیٹ فارم پر شیئر کی جانی چاہئیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی ممالک‘ جیسا کہ پاکستان جیسا ملک‘ جس کا طبی نظام اور انفراسٹرکچر اتنا کمزور ہوتے ہوئے بھی کورونا کو چکما دے گیا۔ یہ اب دنیا مان چکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے سمارٹ لاک ڈائون کے فیصلے کی وجہ سے یہاں جانی اور معاشی نقصان کم سے کم ہوا؛ تاہم یہ بھی کھوج لگانا ضروری ہے کہ کیا پاکستانیوں کے جینز کورونا کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھے؟ اور تھے تو کس بنیاد پر۔ اگر ایسا تھا تو پھر بھارت جیسا ملک جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے‘ جس کی معیشت‘ خوراک‘ صحت‘ سہولتیں‘ رہن سہن سبھی کچھ ہم سے مماثلت رکھتا ہے‘ وہاں کیوں کورونا کی یلغار روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کورونا کے عالمی تحقیقاتی مشن کو تمام ممالک میں جا کر سٹڈیز اور تحقیقات کرنا چاہئیں‘ بشمول چین کے کیونکہ چین پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ کورونا وہاں سے جان بوجھ کر دنیا میں پھیلایا گیا۔ اگرچہ یہ بات غلط ہے؛ تاہم چین کی حکمت عملی کو بھی سامنے لایا جانا چاہیے۔ ابھی تک جو کچھ سامنے آیا ہے وہ بکھری ہوئی ادھوری اور مفروضوں پر مبنی معلومات ہیں۔ پاکستان تو دور کی بات‘ امریکہ جیسا ملک بھی دوبارہ کورونا کے حملے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اب کوئی ملک تنہا حیثیت میں قائم نہیں رہ سکتا، تمام ملکوں کی معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ماضی میں تو جنگیں ہوتی تھیں اور ایک دو ملکوں کی وجہ سے ہی دیگر ممالک کی معیشت پر کافی اثر پڑتا تھا‘ اب تو پوری دنیا اس کا شکار ہے تو پھر اس کا مقابلہ الگ الگ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ جہاں تک کورونا کے پیچھے سازش کی تھیوریوں کی بات ہے تو یہ اب دم توڑ چکی ہیں، اِلّا یہ کہ کوئی نئی چیز سامنے نہ آ جائے۔ سوال اٹھانے والے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر چین اس کے پیچھے تھا تو کیا چین اتنا بیوقوف ہے کہ ساری دنیا بند کر کے بیٹھ جائے؟ اگر اس کا مال خریدنے والا دنیا میں کوئی نہ ہو تو خود چین کہاں سے کمائے گا اور کہاں سے کھائے گا؟ اس کا تو اُلٹا نقصان چین کو ہوا ہے کہ کورونا کی وجہ سے جب سرحدیں بند کر دی گئیں تو جو ممالک چین پر زیادہ انحصار کر کے سوئی دھاگے سے لے کر ٹشو پیپر تک چین سے منگوا رہے تھے‘ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار اپنے ملک میں ہی ہونی چاہیے۔ اس سے اپنے عوام کو روزگار بھی ملتا ہے‘ زرمبادلہ بھی بڑھتا ہے اور سرحدیں بند ہونے سے پیداوار یا سپلائی کی بندش کا خطرہ بھی نہیں پیدا ہوتا۔ کورونا کی دوسری لہر آنے اور اس میں تیزی پیدا ہونے سے پہلے ہی ان تمام نکات پر غور کیا جانا چاہیے کیونکہ کورونا کی دوسری لہر کی شکل میں دنیا پر ایک مرتبہ پھر بھوک‘ غربت اور قحط کے سائے منڈلا رہے ہیں جبکہ طبی ماہرین کے مطابق دوسری لہر پہلی لہر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔