پاکستان کو وجود میں آئے ابھی صرف تین ماہ کا وقت گزرا تھا کہ بھارت نے ستائیس اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے سری نگر ایئرپورٹ پر صبح کے قریب نو بجے اپنی فوجیں اتارنا شروع کر دیں اور اس کا جواز یہ بتایا کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں قبائل کو داخل کیا گیا تھا اور اگر بھارت کشمیر میں فوج نہ بھیجتا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے تھے۔ یہ انتہائی بودی اور کمزور دلیل تھی۔ درحقیقت نہ تو اس وقت تک کشمیر کا بھارت سے کسی قسم کا الحاق ہوا تھا اور نہ ہی پاکستان نے قبائل کو کشمیر میں بھیجا تھا۔ یہ حقیقت بھی بعد میں آشکار ہوئی کہ اگر کوئی کشمیر میں داخل ہوا تھا تو وہ اپنی مرضی سے گیا تھا‘ حکومتِ پاکستان کی اشیر باد کسی کو حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 27اکتوبر 1947ء سے آج تک پوری دنیا میں کشمیری اور پاکستانی ہر سال 27اکتوبر کو یومِ سیاہ کے مناتے آ رہے ہیں کہ اس روز بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کے ذریعے کشمیری عوام کی زندگی کو اجیرن اور کشمیر کی جنت نظیر وادی کو جہنم میں تبدیل کر دیا تھا۔ بھارت چیونگم کی طرح اس بودی دلیل کو الزام کے طور پر آج تک کھینچتا چلا آ رہا ہے اور کشمیر میں بھارتی فوج پر کوئی بھی حملہ ہوتا ہے‘ کوئی دھماکا یا گولی چلتی ہے تو اس کا الزام فوری طور پر پاکستان پر لگا دیا جاتاہے۔ بھارت کا کشمیر میں فوج بھیجنے کا اصل مقصد صرف طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانا تھا۔ بھارت کو علم تھا کہ کشمیری کبھی بھی بھارت کے ساتھ الحاق چاہیں گے نہ ہی اس کے خلاف نفرت کے اظہار سے باز آئیں گے۔ اس کا خیال تھا کہ لاکھوں فوجیوں کو کشمیر میں دیکھ کر وہاں کے عوام مغلوب ہو جائیں گے اور بھارت کے کشمیر سے متعلق نظریے اور ہر فیصلے کو چارو ناچار قبول کر لیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں بھارت کی یہ خوش فہمی دور ہو گئی۔ کشمیر میں عوام کو جبری طور پر اپنی غلام بنانے کی اس کی ہر کوشش رائیگاں گئی کیونکہ کشمیری عوام کے اندر سے ہی آزادی کی تحریکیں ابھرنا شروع ہو گئیں۔ اس کے جواب میں بھارت نے وادی میں جبر‘ تشدد اور ٹارچر میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھوں اور بچوں حتیٰ کہ کشمیری خواتین کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا؛ تاہم کشمیر میں جب بھی کسی کشمیری حریت پسند کو دہشت گرد کہہ کر شہید کیا گیا‘ کشمیری لیڈروں کو پابند سلاسل کیا گیا یا کشمیری خواتین کی عصمت دری کی گئی‘ یہ تحریک پہلے سے بھی زیادہ تیز‘ پُرجوش ہوتی چلی گئی۔ تحریک آزادی کے اس کارواں میں مقامی نوجوان اور بزرگ لیڈر شامل ہوتے چلے گئے یوں بھارت کا کشمیر کو ہتھیانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
آج کشمیر میں بھارتی فوج کے ناجائز قبضے کو 73برس بیت گئے ہیں مگر کشمیری عوام نے کبھی بھی اس غاصبانہ قبضے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ بھارت کے جبر و استبداد کے سامنے وہ پہلے بھی ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے او ر آج بھی کھڑے ہیں۔ ان 73برسوں میں بے گناہ کشمیری عوام پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے گئے کہ زمین کانپ کر رہ گئی۔گزشتہ ایک عشرے میں بھارت نے ممنوعہ اسلحے یعنی پیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال بھی شروع کر دیا جس کے بعد لاتعداد روح فرسا واقعات سامنے آئے۔ یہ گن عالمی طور پر استعمال کے لئے ممنوع قرار دی جا چکی ہے‘ بالخصوص عوامی ہجوم پر اس کا استعمال انتہائی خطرناک نتائج لاتا ہے کیونکہ اس سے ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والے بے لگام چھرے کئی میٹر طویل دائرے کی صورت میں جسموں میں چھید کر دیتے ہیں ۔ اس کے ایک کارتوس سے تقریباً چھ سو چھرے برق رفتاری سے باہر نکلتے ہیں۔ ایسی گنوں کا بے دریغ استعمال دو ہزار دس سے جاری ہے اور اس دوران کئی ہزار افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ ہزاروں دیگر ہمیشہ کے لیے اپنی بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارت کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چند ماہ کے شیرخوار بچوں کو بھی پیلٹ گنز کے نشانے پر رکھتا ہے۔سینکڑوں کشمیری پیلٹ گنز کے چھروں کی وجہ سے عمر بھر کی معذوری کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں پُراسرار قتل‘تشدد‘ زنا بالجبر‘غیرقانونی گرفتاریاں اور چھاپے روز کا معمول بن چکے ہیں۔آزادی کا نعرہ لگانے والے حریت پسندوں کو کچلنے کے لئے بھارت کی نو لاکھ فوج ہر حربہ آزما چکی ہے لیکن آزادی کی شمع بجھنے کے بجائے اور تیز ہو رہی ہے۔نسل کشی کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاری کے طرز پر ہندو انتقال آبادی کے ذریعے کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں بھی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جو کشمیریوں کی بقا پر مزید کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ بھارت نے کشمیر پر جس مجرمانہ مکاری اورساز شانہ جارحیت کے ذریعے اپنا قبضہ جمایا‘ اس حقیقت کو ساری دنیا جانتی ہے۔ بھارت نے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ریاست کے باشندوں سے آزادانہ‘ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کاوعدہ کیا جس کو آج 73سال گزر جانے کے بعد بھی پورا نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ایک قرارداد یہ بھی تھی کہ کشمیر سے افواج کو نکال لیا جائے اور کشمیریوں کو اپنے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں مارچ 1949ء میں یو این او کے کمیشن نے ایک میٹنگ اس غرض سے منعقدکی کہ سلامتی کونسل کی قرار داد کے تحت افواج کو کشمیر سے واپس بلانے کا پروگرام طے کیا جائے۔ پاکستان نے اپنا پروگرام پیش کردیا مگر بھارت نے ٹال مٹول شروع کر دی اور اپنی فوجیں ریاست کی حدوں سے باہر نکالنے سے مُکر گیا۔ بھارت کے اوچھے ہتھکنڈے اور کشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کے غیرقانونی اقدامات آج بھی جاری ہیں۔ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا حالانکہ یہ اقدام خود بھارتی آئین کے مطابق غیر قانونی تھا۔ ان آرٹیکلز کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی اور یہ آرٹیکلز کشمیر کے بھارت کا حصہ ہونے کی نفی کرتے تھے۔یہ اقدام بی جے پی کی قیادت میں بھارتی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا عکاس ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو، مواصلات، طبی امداد کی بندش اور بین الاقوامی امدادی اداروں کو روک کر بھارت اپنے ہی خلاف نفرت میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن چکا ہے اور اب تو بھارتی فوجیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مزید اختیارات دیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہوا ہے۔ مقامی سیاسی قیادت کو غیر قانونی طور پر گرفتار اور نظر بند کرکے آزادی کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بھارتی اقدامات کے باعث کشمیر میں مسلمانوں کے جان و مال کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے، ان کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیری تاجروں کو 400 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جبکہ پانچ لاکھ سے زائد لوگ بیروزگار ہوئے ہیں۔ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں، جنیوا کنونشن اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
بھارت اپنے ناجائز الحاق کے بل بوتے پر آج تک کشمیرپر قابض ہے اور اس کی فوج کشمیر کی وادیوں میں دندناتی پھرتی ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نکلنے، سکول‘ کالج اور دفاتر جانے کی آزادی تک سلب کر لی گئی ہے۔ انٹرنیٹ‘ ٹیلی فون اور کمیونیکیشن کے دیگر ذرائع پر پابندی سے کشمیر کو پتھر کے دور میں واپس دھکیل دیا گیا ہے۔ کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صرف انٹرنیٹ اور مواصلات ذرائع کی بندش سے کشمیریوں کو 2ارب 40کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔یہ سب دنیا کے سامنے ہے۔ بائیس کروڑ پاکستانی کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہے ہیں۔ اب بھارت نے جبرکے ہتھکنڈے فیس بک پر بھی آزمانا شروع کر دیے ہیں اور کشمیر اور برہان وانی کے حق میں بات کرنے پر اکائونٹ تک بند بلاک کر جاتے ہیں۔اس طرح کی اوچھی حرکتیں بھارت عشروں سے کرتا آیا ہے لیکن تحریک ہر دن گزرنے کے ساتھ زیادہ تیز ہورہی ہے ۔کشمیر میں موجود بھارت کی نو لاکھ فوج کا مقدر صرف اور صرف ناکامی ہے اور یہ بات بھارت کو امریکہ کی طرح آج نہیں تو کل‘ سمجھ میں آ ہی جائے گی۔