برطانیہ جیسا ملک کورونا کیسز بے قابو ہونے کی وجہ سے آج سے چار ہفتوں کے لئے دوبارہ لاک ڈائون میں جا رہا ہے‘ ابتدائی طور پر ایک ماہ کیلئے تمام اہم کاروباری شعبے بند کر دیے جائیں گے جن میں ریسٹورنٹس‘ تھیٹرز‘ جم وغیرہ شامل ہیں۔برطانیہ کا معاشی پہیہ اس اقدام سے مزید سست ہونے کا اندیشہ ہے۔ ڈیڑھ ماہ بعد کرسمس کا تہوار آ رہا ہے جس پر اربوں ڈالر کی خریداری ہوتی تھی۔ اس سال یہ چند ملین ڈالر تک محدود ہو جائے گی۔ برطانیہ کے بڑے چھوٹے کاروباری اداروں سے پہلے ہی لاکھوں ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ یہ دوسری لہر برطانیہ کی رہی سہی معاشی کمر بھی توڑ کر رکھ دے گی۔یورپ کے دیگر ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں کورونا کے باوجود حالات قابو میں رہے ہیں اور لاک ڈائون ختم کرنے کے بعد معیشت کے مثبت اشاریے سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران حیران کن حد تک ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ فارن ایکسچینج ریزرَو بھی سترہ سال کی بلند ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی اگست میں سیمنٹ کی ریکارڈ فروخت بھی سامنے آئی ہے۔ اس کی وجہ حکومت کا تعمیراتی صنعت کیلئے ریلیف پیکیج ہے جس میں بہت سے ٹیکسوں کو ختم اور کم کیا گیا ہے۔ گھر بنانے کیلئے شرائط کو نرم اور آسان کیا گیا ہے۔ٹیکس رجسٹریشن کو سادہ اور آسان کرنے سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے۔ چھوٹے طبقے کو چھت فراہم کرنے کیلئے زیادہ ریلیف دیا گیا ہے۔ جو لوگ برسوں سے اپنا گھر نہیں بنا پا رہے تھے‘ انہوں نے اس ریلیف کا فائدہ اٹھا کر اپنے گھر بنانا شروع کر دیے ہیں کیونکہ گھر کے نقشے کی منظوری سے تکمیل کے سرٹیفکیٹ تک‘ اب سب کچھ ایک ہی چھت تلے ای خدمت مراکز میں ون ونڈو سنٹرز کے ذریعے ہو رہا ہے۔ ایک ماہ کے اندر نقشہ منظوری کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نجی رہائشی سکیموں کی منظوری بھی ساٹھ سے پچھتر دنوں تک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہی کام رشوت دیے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے‘ لوگوں کو خواری کا الگ سامنا کرنا پڑتا تھااور کئی کئی ماہ‘ حتیٰ کہ سالوں کا وقت ضائع ہوتا تھا۔ تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کے ذرائع آمدن بھی پوچھ گچھ سے مستثنیٰ قرار دیے گئے جو اہم فیصلہ اس لئے بھی تھا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ عام طور پر فنانشل ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ ان کے پاس پیسے تو ہوتے ہیں اور یہ جائز بھی ہوتے ہیں لیکن ان کا ذریعہ کیا ہے‘اس کا تحریری ریکارڈ نہیں ہوتا۔ خصوصاً کاشتکار او ر کسانوں کا زیادہ کام زبانی چلتا ہے، ٹھیکے بھی زبانی دیے جاتے ہیں اور رقم بھی کیش میں وصول کی جاتی ہے۔پاکستان کی ستر فیصد اکانومی ڈاکومنٹڈ نہیں ہے۔ ہر سال عیدالاضحی پر جو قربانی کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے‘ یہ تقریباً تین سو ارب روپے کی معاشی سرگرمی ہوتی ہے لیکن اس کا ایک فیصد بھی کاغذ پر ریکارڈ نہیں ہوتا۔ جانوروں کی خریدوفروخت سے لے کر کھالوں تک‘ سب کچھ زبانی اور کیش پر چلتا ہے۔تعمیراتی شعبے کھولنے کے حکومتی فیصلے نے ملک کو بڑے بحران سے بچا لیا ہے وگرنہ یہاں تو خدشات کی وجہ سے عوام کی نیندیں اڑ چکی تھیں۔ جب جدید ممالک کی حالت دیکھتے تھے تو اور بھی خوف آتا تھا کہ اگر یہ ملک نہیں بچے جن کا طبی اور معاشی انفراسٹرکچر اتنا مضبوط ہے تو پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
خدا خدا کر کے اگست کے مہینے میں لاک ڈائون ختم ہوا تھا اور تین ماہ سکون سے گزرے تھے مگر اب دوبارہ کیسز بڑھنے لگے ہیں بلکہ پنجاب کے سینکڑوں علاقوں میں تو سمارٹ لاک ڈائون شروع بھی ہو چکا ہے۔اس کی وجہ کورونا کی دوسری لہر ہے جس کی پیشگی توقع کی جا رہی تھی مگر پاکستان بالخصوص پنجاب میں اس لئے یہ زیادہ شدید ہو سکتا ہے کیونکہ اس پر کورونا کے ساتھ سموگ اور بدلتا موسم بھی اپنے کاری وار کر رہا ہے۔ یکم اکتوبر تک ملک میں روزانہ چار سو سے پانچ سو نئے کورونا کیسز آ رہے تھے لیکن اب گزشتہ ایک ہفتے سے یہ تعداد ایک ہزار یومیہ سے بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں یہ تیرہ سو سے بھی اوپر چلے گئے۔ اس کی بڑی وجہ لوگوں کا ایس او پیز پر عمل نہ کرنا ہے۔ خال خال ہی کوئی ماسک پہنتا ہے اور جو پہنتا ہے وہ بات کرتے وقت ماسک نیچے کر لیتا ہے۔ بندہ پوچھے کہ پھر ماسک کی ڈوریاں کانوں کو گرنے سے بچانے کیلئے باندھی ہوئی ہیں؟ اگر منہ کو کور نہیں کرنا تو پھر ماسک کا فائدہ؟
کچھ لوگ ماسک کو محض اینٹری اجازت نامے کے طور پر استعمال کرتے ہیں یعنی ایسی بلڈنگز جہاں ماسک کے بغیر داخلہ ممنوع ہو‘ ان کیلئے کبھی کبھار مجبوری میں ماسک خرید لیتے ہیں اور اندر جاتے ہی اتار کر جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ اب تو ماسک کافی سستے ہو گئے ہیں حتیٰ کہ پانچ روپے تک بھی مل جاتا ہے۔ شاید گزشتہ تین ماہ میں اچھی خاصی تعداد میں ماسک‘ سینی ٹائزر وغیرہ بنائے جا چکے ہیں بلکہ ایکسپورٹ بھی ہو رہے ہیں اس لئے ممکن ہے اس لہر میں قیمتیں اتنی زیادہ نہ ہوں لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہاں لوگوں کو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا صرف بہانہ چاہیے۔ جب ڈینگی نے دس سال قبل سر اٹھایا تھا تب مارکیٹ سے پینا ڈول جیسی عام دوائی بھی غائب ہو گئی تھی اور ایک ایک پتا دو دو سو روپے تک فروخت ہو رہا تھا۔ کچھ لوگ ایسے بحرانوں کے انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال سمیٹا جا سکے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی قرآن میں آخرت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
اس صورتحال سے اپوزیشن بھی فائدے سمیٹنے کے چکر میں ہے۔ اب تیرہ دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم نے جلسہ رکھ لیا ہے۔ اس سے قبل بھی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں جلسے ہو چکے ہیں جن میں کورونا ایس او پیز کی جو دھجیاں اڑائی گئیں‘ نجانے ان کا خمیازہ کتنے لوگوں اور کتنے ڈاکٹرز کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ کورونا سے جنگ میں ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر ہیں اور اب تک بیسیوں ڈاکٹر اس کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔کورونا سے عوام نے خود بچنا ہے‘حکومتیں اسے جڑ سے غائب کر سکتی ہوتیں تو سب سے پہلے امریکا اس سے نجات پاتا۔ حکومت عوام کو معاشی طور پر ریلیف دے سکتی تھی‘ سو اس نے دیدیا؛البتہ جو سب سے اہم اور مشترک احتیاط سامنے آئی ہے وہ ماسک ہے۔ اگر سب لوگ گھر سے نکلتے وقت صرف ماسک پہن لیں تب بھی اس مصیبت کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ امریکا میں گزشتہ دنوں الیکشن کے مناظر پوری دنیا نے دیکھے۔ کس طرح ایس او پیز کے تحت ریکارڈ ووٹنگ ہوئی۔چھ فٹ کا سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر اتنی بڑی ایکٹیوٹی ہوئی۔ہمارے ہاں لوگوں کو سمجھانے میں نجانے کتنے سال لگ جائیں گے اور پھر بھی بہت سے لوگ یہی کہہ رہے ہوں گے کہ کورونا تو ایک مذاق ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ آج کل تو عام بخار بھی ہو جائے تو کورونا کے خوف سے دماغ مائوف ہونے لگتا ہے کہ دونوں کی علامات ملتی جلتی ہیں۔کورونا کی پہلی لہر سے تو ہم خدا کی مہربانی سے نکل آئے اور حکومت کے درست اقدامات کی وجہ سے معیشت بھی بحال ہونے لگ گئی ہے لیکن اب صورتحال بقول منیر نیازی یہ ہے کہ
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
نجانے یہ آخری دریا ہو گا یا پھر کئی دریا مزید آنے ہیں‘ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کیونکہ جب تک اس بیماری کی ویکسین نہیں آ جاتی تب تک شاید آنکھ مچولی کا یہ کھیل جاری رہے گا۔خدا کرے ہم اس دوسرے دریا کے بھی جلد پار اتر جائیں‘ دوسری لہر سے بھی نقصان کم سے کم ہو اور ملک کی معاشی سرگرمیاں اور رونقیں بحال رہیں۔