بھارت کے داعش کے ساتھ گٹھ جوڑ اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے بارے میں کچھ نئی اور ہوشربا تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ کس طرح بھارت پھر سے دہشت گردی کا جال بُننے میں مصروف ہے اور افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کا ایک کنسورشیم بنا رہا ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں وزارتِ خارجہ اور آئی ایس پی آرنے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کچھ انکشافات کئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان کے پاس بھارت کی ان مکروہ سازشوں کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بھارت بزدلانہ کارروائیوں میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر اور ایل او سی کی خلاف ورزی کر کے ریاستی دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے جبکہ پاکستان کو ان کارروائیوں سے 126 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق بھارت مسلسل کالعدم تنظیموں کی معاونت کر رہا ہے اور ریاست مخالفت قوتوں کو متحد کر کے انہیں کارروائیوں پر اکسا رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھی بھارت ہے جبکہ افغانستان میں موجود بھارتی کرنل راجیش دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ایک اور انکشاف میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارت نے حال ہی میں داعش کے تیس دہشت گردوں کو پاکستان اور اردگرد منتقل کیا ہے اور ان کو تربیت اور جدید اسلحہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔
اس سے قبل امریکی ادارے فارن پالیسی نے بھی اپنی رپورٹ میں بھارت کے داعش سے روابط سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ داعش کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے شدت پسندوں میں سے اکثریت کا تعلق بھارت سے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک جانب افغانستان میں طالبان اِن دنوں حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہیں لیکن دوسری جانب داعش کی شدت پسند کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس سال اگست میں افغانستان کے صوبہ خراسان میں داعش نے جلال آباد کی جیل پر حملہ کیا تھا تاکہ اپنے ساتھیوں کو رہا کرا سکیں اور اس حملے میں افغان، بھارتی اور تاجک باشندوں نے شرکت کی تھی۔ یہ اس طرز کے حملوں کی ایک نئی اور خطرناک ترین قسم تھی جس میں بھارت سمیت مختلف ممالک کے باشندوں نے ایک ہی جھنڈے تلے حملہ کیا۔ ان حملوں میں 2019ء میں ایسٹر کے موقع پر سری لنکا کے مختلف شہروں میں چرچوں پر کیے گئے حملے بھی شامل ہیں جس میں 300 سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس کے علاوہ 2017 ء میں نئے سال کے موقع پر ترکی میں نائٹ کلب، 2017ء میں نیویارک شہر میں ٹرک حملہ اور سٹاک ہوم میں کیا گیا حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بھارت کا دہشت گردی میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس طرح کے حملوں نے دیگر ممالک اور مذاہب کو بھی الرٹ کر دیا ہے۔ بھارت سے افغانستان میں داعش کے ذریعے بڑے پیمانے پر حملے کیے گئے جس کی سب سے بڑی مثال جلال آباد کی جیل پر حملہ ہے۔ اس کے علاوہ کابل میں سکھ گوردوارے پر حملہ بھی بھارتیوں کی جانب سے کیا گیا۔
نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے خاص طور پر مسلمانوں کیلئے بھارت کی زمین تنگ ہو گئی ہے اور ان کیلئے جینا محال ہو چکا ہے۔ مودی کی فاشسٹ حکومت قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دیتی ہے اور کشمیر میں اسرائیل کی طرز پر ہندوئوں کی آباد کاری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بڑھتی ہوئی بھارتی انتہا پسندی کے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں سات عشروں سے مسلسل ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے اور کشمیریوں کے حقوق کو بدترین تشدد کے ذریعے ماپال کر رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائربندی معاہدے کی آئے روز خلاف ورزی بھی بھارت کا معمول بن چکا ہے ۔گزشتہ اتوار کو کنٹرول لائن کے قریب جگجوٹ گاؤں میں شادی کی تقریب پر بھارت کی جانب سے راکٹ اور گولے برسائے گئے جس سے خواتین اور بچوں سمیت درجن بھر شہری شدید زخمی ہو گئے۔ یوں بھارتی فورسز نے اپنے طرزِ عمل سے خود کو ایک مرتبہ پھر اخلاقیات سے عاری اور غیر پیشہ ور ثابت کیا۔
صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ بھارت کرپشن اور رشوت ستانی کے معاملے میں بھی دنیا میں سرفہرست ہے۔ بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری حالیہ سروے کے مطابق بھارت ایشیا کا سب سے کرپٹ ملک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی کام بغیر سفارش اور دبائو کے مکمل نہیں ہوتا۔ سروے کے مطابق بھارت میں رشوت کی شرح سب سے زیادہ 39 فیصد ہے اور بھارت میں 46 فیصد عوام سرکاری خدمات حاصل کرنے کیلئے ذاتی تعلقات کو استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کے مکروہ چہرے کا ثبوت حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور جینوسائیڈ واچ کی رپورٹ‘ اوباما کی نئی کتاب اور انٹرنیشنل آبزرور کے بیانات سے بھی ملتا ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق بھارت میں انتہا پسندی‘ جنونیت‘ بھوک‘ بد عنوانی‘ قومیت‘ نسل پرستی اور مذہبی عدم رواداری تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ انسانیت کی قدر بھارت میں گھٹتی جا رہی ہے بالخصوص اقلیتوں کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔ مسلمانوں پر آئے روز گائو ماتا کی بے حرمتی کا الزام لگا کر سرعام قتل کر دیا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے دور کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات میں پولیس ہمیشہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی ہے اور اُلٹا تھانے درخواست کیلئے آنے والوں پر پرچے کاٹ دیے جاتے ہیں۔ بھارت کے بیس کروڑ سے زائد مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آزادی کے ساتھ عبادات کرنا تو دُور‘ معمول کی زندگی گزارنا بھی ان کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ بھارت کی اسّی فیصد آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے جبکہ مسلمان آبادی کا چودہ فیصد‘ مسیحی ڈھائی فیصد اور سکھ ایک اعشاریہ سات فیصد ہیں۔مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن انہیں زندگی کے ہر شعبے میں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت گاندھی کو بھی غدار قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر کئی معتبر عالمی ادارے متعدد مرتبہ تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے شاید ہی کبھی ہجوم کے تشدد کے خلاف کوئی بیان دیا ہو جبکہ ان کی جماعت کے اراکین کے انتہا پسند تنظیموں سے روابط ڈھکے چھپے نہیں اور وہ آئے روز اقلیتوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اگر ملک کا وزیراعظم اور برسراقتدار جماعت ایسی سوچ کی حامل ہو تو پھر ملک کے نوجوان کیسے ہوں گے‘ اس بات کا اندازہ داعش میں شامل ہونے والے بھارتی نوجوانوں کی اکثریت سے لگایا جا سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے اس انکشاف کے بعد ہمیں اور بھی زیادہ محتاط رہنا ہو گا کیونکہ داعش کے جن جنگجوئوں کو وہ پاکستان میں داخل کر چکا ہے وہ پوری طرح سے اسلحہ اور تربیت سے لیس ہیں اور افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کئی کارروائیاں کر چکے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں جس طرح پاکستان نے ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کا صفایا کرکے امن قائم کیا ہے‘ یہ بات بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی‘ اب اس جنگ کو وہ نئے سرے اور نئے انداز سے شروع کرنا چاہتا ہے اور افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ گزشتہ برس بھارت کے دو جنگی طیارے گرا کر پاکستان نے بھارت کو کرارا جواب دیا تھا‘ ایسی کوئی نئی شرارت کی گئی تو آئندہ بھی منہ توڑ جواب ہی ملے گا‘ اس حوالے سے بھارت کسی بھول میں نہ رہے۔