پندرہ بیس برس قبل کہا جاتا تھا 'دنیا گلوبل ویلیج بن رہی ہے‘ لیکن گائوں پھر تھوڑا بڑا ہوتا ہے‘ اب تو دنیا 6x3 انچ کے موبائل فون میں سما چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پاکستانی نژاد بزنس مین کا انٹرویو دیکھا جو غالباً سنگاپور میں رہتے ہیں لیکن ان کا کاروبار بیالیس ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ دیکھنے میں وہ انتہائی سادہ انسان معلوم ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ان کے اپنے آفس میں کمپیوٹر تک موجود نہیں تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کل تو کمپیوٹر کا زمانہ ہے اور ایک چھوٹے سے چھوٹے آفس کے مالک کے کمرے میں بھی کمپیوٹر ضرور موجود ہوتا ہے تو آپ اتنے وسیع نیٹ ورک کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں؟ وہ مسکرا ئے‘ جیب سے اپنا موبائل نکالا اور میز پر رکھتے ہوئے بولے: میری چار شپنگ کمپنیاں ہیں‘ دنیا بھر میں میرے چھیالیس شو روم ‘چودہ فیکٹریاں اور درجنوں گودام ہیں اور ان کمپنیوں اور اداروں میں بائیس سو سے زائد افراد کام کر رہے ہیں۔ میں روزانہ کروڑوں کے سٹاکس خریدتا اور بیچتا ہوں اور یہ سب کام میں اپنے موبائل فون سے کنٹرول کر رہا ہوں کیونکہ کمپیوٹر کا زمانہ پرانا ہو چکا ہے۔ ہماری کمپنیوں کی ایک موبائل ایپ بنی ہوئی ہے‘ اس ایپ میں الگ الگ کاروباروں کی خرید و فروخت اور دیگر تفصیلات لمحہ بہ لمحہ اَپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں‘ میں جب چاہے جس مرضی ملک میں اپنے کاروبار کا منافع دیکھ سکتا ہوں‘جب چاہے فون پر اپنے تمام کنٹری منیجرز کے ساتھ ایک ٹچ پر وڈیو میٹنگ کر لیتا ہوں‘ میرے ایک ٹچ پر لاکھوں کروڑوں ڈالر کی پیمنٹ ریلیز ہو جاتی ہے اور یہ سب کام کرنے کے لئے مجھے کسی ملازم یا اسسٹنٹ کی ضرورت نہیں بلکہ میں خود موبائل فون استعمال کرتا ہوں اور پورے دن میں سے ایک‘ دو گھنٹے لگا کر اپنی تمام کاروباری مصروفیات نمٹا لیتا ہوں۔
یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ آپ خود سوچیں‘ آج سے دس‘ بیس سال قبل یہ سب کہاں ہوتا تھا؟ بجلی کا بل جمع کرانا ہو یا گاڑی کے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی‘ ہر کام کے لئے گھر سے بینک اور مختلف اداروں میں جانا پڑتا تھا۔ لمبی قطاروں میں لگنا‘ وقت اور پیسوں کے ضیاع کے ساتھ ہم بھی اس زندگی کے عادی ہو چکے تھے لیکن پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انگڑائی لی اور سب کچھ سمٹ کر پہلے کمپیوٹر اور پھر موبائل فون میں سماتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے ایک سال قبل میرا سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر ٹریفک چالان ہوا تھا، غلطی بہرحال میری تھی لیکن مجھے چالان کی رقم جمع کروانے کی اتنی دقت نہیں تھی‘ مسئلہ یہ تھا کہ جرمانہ ادا کرنے کے لئے ایک مخصوص بینک کی مخصوص برانچ میں ہی جانا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے رسید لے کر متعلقہ تھانے جا کر اپنا لائسنس چھڑانا تھا۔ یہ کئی گھنٹے ضائع کرنے والی مشق تھی لیکن مجبوری تھی‘ آج اس سب سے نجات مل چکی ہے۔ آج اگر پنجاب میں آپ کا ٹریفک چالان ہوتا ہے یا آپ زیبرا کراسنگ یا اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ کو خودبخود کیمروں کی مدد سے ای چالان جاری ہو جاتا ہے لیکن آسانی یہ ہے کہ اب ٹریفک چالان جمع کرانے کے لئے خوار نہیں ہونا پڑتا۔ ای چالان ہو اور سادہ چالان‘ دونوں حکومت پنجاب کی ایک ایپلی کیشن کے ذریعے کسی بھی بینک کی موبائل ایپ کی مدد سے ادا ہو سکتے ہیں‘ یعنی اِدھر آپ کا چالان ہوا اور اُدھر آپ ایپ کھول کر ادائیگی کر دیں، آپ کو چالان جمع کرانے نہ بینک جانا پڑے گا اور نہ کاغذات لینے کے لیے تھانے۔
کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی وغیرہ نوجوانوں کا کھیل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار میں لانے میں بھی نوجوانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ ملک کی باسٹھ فیصد آبادی‘ جو پینتیس برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے‘ میں سے بیشتر ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ خان صاحب کو علم تھا کہ یہ ڈیجیٹل دور ہے اور اس دور میں جتنی بھی ایجادات ہو رہی ہیں‘ ٹیکنالوجی جس طرح دنیا کو بدل رہی ہے‘ اس میں نوجوانوں کا کردار سب سے اہم ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم نوجوانوں کے دلدادہ ہیں‘ وہ آج بھی نوجوانوں کی طرح اپنی فٹنس کا بھرپور خیال رکھتے ہیں اور روزانہ ایکسر سائز کرتے ہیں اور تیس برس کے ہٹے کٹے جوان سے زیادہ فٹ دکھائی دیتے ہیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی وجہ سے ویسے ہی ایک دنیا ان کی شیدائی ہے؛ چنانچہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی انہوں نے زیادہ تر کھلاڑی ایسے چنے جو نوجوان تھے اور زیادہ بہتر انداز میں حکومت چلا سکتے تھے۔ پنجاب کی بات کی جائے تو ہاشم جواں بخت‘ عمران خان صاحب کی طرح بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ ایک خوبرو نوجوان ہیں۔ وہ صرف چالیس سال کی عمر میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ پنجاب میں ٹیکسوں کی ادائیگی کے نظام کو آسان بنانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ لوگ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن ادائیگی کے پیچیدہ طریقہ کار ان کا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ہاشم جواں بخت نے کینیڈا سے تعلیم حاصل کی اور بینکنگ سیکٹر میں تجربہ رکھتے ہیں۔ چونکہ انہیں وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی‘ اس لئے ان کیلئے سب سے اہم کام قومی خزانے کا حجم بڑھانا تھا۔ اس مقصد کیلئے 2019ء میں انہوں نے مختلف ٹیکسوں کی آن لائن ادائیگی کا نظام متعارف کروایا۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لوگ اس سے کتنا مستفیض ہوں گے۔ آج قریب سوا سال گزرنے کے بعد‘ ایک خبر کے مطابق آن لائن ای پے نظام سے ہونے والی ٹرانزیکشنز کی تعداد تیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ حکومت کو چودہ ارب سے زائد ریونیو وصول ہو چکا ہے۔ سات مختلف محکموں کے 18مختلف ٹیکسوں کو آن لائن کیا گیا جس سے عوام کو گھر بیٹھے ادائیگی کرنے کی سہولت ملی اور حکومت کے خزانے میں اضافہ ہوا۔
اسی طرح اگر ہم وفاق میں دیکھیں تو وہاں بھی ایک نیا منظر دکھائی دیتا ہے۔ پرائم منسٹر سٹیزن پورٹل پر موبائل فون سے تیس لاکھ سے زائد لوگ رجسٹر ہو چکے ہیں اور لاکھوں شکایات پر عمل ہو چکا ہے۔ نوشہرہ کی ایک خاتون نے پورٹل پر نوشہرہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا کوٹہ بڑھانے کی درخواست کی جس پر ایکشن لیتے ہوئے اسے فوری منظور کر لیا گیا۔ اسی طرح بعض جگہوں پر کمپیوٹر لیب تھیں لیکن کمپیوٹر اور فرنیچر نہیں تھا‘ اس طرح کے مسائل بھی حل ہوئے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کیلئے تو یہ انتہائی سود مند ایپ تھی کہ جن چھوٹے چھوٹے کاموں یا شکایات کے لئے انہیں سات سمندر پار کر کے وطن آنا پڑتا تھا‘ اب موبائل فون سے کام ہو جاتا ہے۔ وفاق میں بھی اب سرکاری دفاتر جا کر روٹین کے کام کروانے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے اور زیادہ تر اداروں اور سروسز کو آٹومیٹ کر دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی ٹوکن ٹرانسفر فیس سے لے کرکورٹ فیس‘ ڈومیسائل بنوانے سے لے کر فرد یا پاسپورٹ کی تجدید تک‘ اسلام آباد میں بھی اب سب کام ایک ایپ کی مدد سے مکمل ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کی درجنوں نہیں‘ سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ دنیا بھر میں کس طرح موبائل فون کو ترقی اور معیشت کی بہتری کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ یہاں سولہ کروڑ لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں‘آپ موبائل فون سے جڑی معیشت کا اندازہ صرف اس مثال سے لگا لیں کہ اگر وٹس ایپ‘ جو ہر موبائل فون کا لازمی جز و بن چکا ہے‘ پر کمپنی فی موبائل فون ماہانہ دس روپے فیس لاگو کر دے‘ جو ہر کوئی بہ آسانی دے سکتا ہے‘ تو یہ کمپنی صرف پاکستان سے ڈیڑھ ارب ماہانہ منافع کما سکتی ہے اور اگر سو روپے فیس ہو تو ڈیڑھ سو ارب ماہانہ! یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ اگر پاکستان سے بھی سافٹ ویئر اور کارآمد موبائل ایپس بن کر پاکستان‘ بھارت سمیت دنیا کی بڑی آبادی کے حامل ممالک میں پھیل جائیں تو یہاں کروڑوں اربوں ڈالر ماہانہ زرمبادلہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ نوجوانوں کے جذبات ‘ان کا ٹیلنٹ سمجھنے اور ان کے دلوں پر حکومت کرنے والے حکمران ہی کر سکتے ہیں۔