پیسوں کے لین دین کے حوالے سے آج کل بہت آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ بیس پچیس سال قبل تک صرف بینک ہی ایک ذریعہ ہوتا تھا اور چیک کے ذریعے ہی پیسے نکلوائے جا سکتے تھے۔ نوے کی دہائی میں پاکستان میں اے ٹی ایم مشین متعارف ہوئی تو عوام خاصے حیران ہوئے۔ شروع شروع میں سو سو کے نوٹ بھی نکالے جا سکتے تھے لیکن بعد ازاں اسے پانچ سو‘ ایک ہزار اور پانچ ہزار کے نوٹوں تک محدود کر دیا گیا۔ اے ٹی ایم سے لوگوں کی جہاں پریشانی دور ہوئی وہاں انہیں نئے نوٹ بھی ملنے لگے۔ بعد ازاں پرانے کرنسی نوٹ بھی مشینوں میں ڈالے جانے لگے۔ پھر چند بینکوں نے پیسے اور چیک جمع کروانے والی مشین بھی متعارف کروا دی جس سے لوگوں کو چوبیس گھنٹے پیسے جمع کرانے اور نکلوانے میں خاصی سہولت حاصل ہو گئی؛ تاہم اب بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ان سہولیات سے محروم تھی جن کے بینکوں میں اکائونٹ نہیں تھے۔ غریب طبقے کے پاس اتنے پیسے ہی کہاں ہوتے ہیں کہ وہ بینکوں میں رکھوائیں۔ یہ تو امیروں کے چونچلے ہیں۔ جب انٹرنیٹ اور موبائل فون دنیا میں عام ہوا تو پیسوں کے لین دین کے نئے طریقے سامنے آنے لگے۔ موبائل فون کے ذریعے پیسوں کی ٹرانسفر کے اکائونٹس اور کمپنیاں بنیں تو گویا غریب طبقے کے لئے انقلاب ہی آ گیا۔ یہ طبقہ ان اکائونٹس میں پیسے تو نہیں رکھتا لیکن موبائل اکائونٹس کی وجہ سے ان کے معاشی حالات کافی بہتر ہونے لگے۔ موبائل اکائونٹ کھولنے کے لئے شناختی کارڈ اور ایک موبائل فون ہی چاہیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد چاہے وہ الیکٹریشن ہو یا پلمبر‘ مزدور ہو یا مستری‘ کبھی بھی کہیں سے بھی اپنے موبائل فون اکائونٹ میں رقوم وصول کرنے لگا۔ اس سے اس طبقے کو پیسوں کی ادائیگی میں حائل بہت بڑی رکاوٹ دور ہو گئی جن کے پاس بینک اکائونٹ نہیں تھے اور جنہیں صرف کیش میں ہی پیسے دینے پڑتے تھے۔ میں بھی اس وقت حیران ہوا جب الیکٹریشن سے کچھ کام کروایا تو وہ بولا کہ میرے پاس چینج نہیں ہے‘ آپ سات سو روپے مجھے آن لائن میرے موبائل نمبر پر ٹرانسفر کر دیں۔ گزشتہ دس بارہ برسوں میں بینکوں کی ویب سائٹس اور موبائل ایپ بھی آ چکی تھیں جن سے صارف نہ صرف دوسرے بینکوں کے اکائونٹس میں پیسے ٹرانسفر کر سکتا تھا بلکہ یوٹیلٹی بلز‘ سکولوں کی فیسیں‘ ٹیکس‘ آن لائن خریداری اور دیگر ادائیگیاں بھی بینکوں کی موبائل ایپس سے کی جانے لگیں۔ ان سہولیات کی وجہ سے ملک کے معاشی ڈھانچے کو بہت زیادہ تقویت ملی۔ آن لائن خریداری کا رجحان بڑھ گیا اور لوگ دو تین سو روپے کی چیز بھی آن لائن پیسے ادا کرکے منگوانے لگے۔ اس سے ان کے وقت کی بچت ہوتی اور پٹرول وغیرہ بھی بچ جاتا۔
سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل فون بینکنگ صارفین کی تعداد نواسی لاکھ سے زائد ہے۔ ملک میں تقریباً سولہ ہزار اے ٹی ایم مشینیں ہیں‘ چار کروڑ سے زائد اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ زیر استعمال ہیں۔ آن لائن خریدوفروخت کے دو ہزار سے زائد ای مراکز رجسٹرڈ ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں‘ پاکستان میں اس وقت پیسوں کے لین دین کیلئے آن لائن پلیٹ فارم مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور وہ لوگ بھی انہیں استعمال کرنے لگے ہیں جو کسی وجہ سے کتراتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی طریقہ کار میں وقت اور توانائی کا ضیاع ہوتا تھا۔ تمام بینک اور موبائل کمپنیوں کے اکائونٹ آپس میں انٹرلنک ہونے سے عوام کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ آج کسی شخص نے ٹریفک چالان ادا کرنا ہے‘ موٹروے پر سفر کیلئے ایم ٹیگ میں پیسے ڈلوانے ہیں‘ ٹوکن ٹیکس یا دیگر ادائیگیاں کرنی ہیں اس کیلئے اسے بینکوں میں جاکر قطاروں میں لگنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ یہ کام سیکنڈوں میں گھر بیٹھے بغیر کسی اضافی فیس کے کر سکتا ہے۔ پھر کورونا میں تو اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ ایسی سروسز جو پہلے آن لائن نہیں تھیں انہیں بھی روایتی طریقہ کار سے نکال لیا گیا ہے۔ آن لائن پے منٹ سہولیات کی وجہ سے کورونا کے دنوں میں ان لوگوں کے کاروبار بھی چلتے رہے یا چمک اٹھے جو آن لائن پے منٹ نظام سے منسلک تھے۔ ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ڈاکٹرز نے اپنے گھروں میں بیٹھ کر لوگوں کو دیکھا اور فیسیں بھی لیں کیونکہ فاصلاتی پابندیوں کے باعث کلینک بند تھے۔ اسی طرح ایسے اساتذہ کا کام چل نکلا جو آن لائن پڑھانا جانتے تھے۔ ایسے سکولوں کو والدین خوش ہو کر فیسیں دیتے رہے جو ان کے بچوں کو آن لائن پڑھا کر مصروف رکھتے رہے۔ انٹرنیٹ سے ادائیگی کے نجی چینلز تو بہت ہیں لیکن ضرورت کسی ایسے سرکاری پیمنٹ چینل کی تھی جس پر کٹوتیوں اور ٹرانسفر فیسوں کی شرح کم سے کم ہو اور اکانومی کو ڈاکومینٹڈ کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں سٹیٹ بینک نے پاکستانی معیشت میں آن لائن پیمنٹ نظام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے 'راست‘ نامی آن لائن نظام متعارف کروانے کا اعلان کیا۔ کورونا کے دنوں میں آن لائن ادائیگیاں اور غیرملکی ترسیلات اس قدر بڑھ گئیں کہ حکومت کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ سرپلس میں چلا گیا جس سے روپے پر دبائو کم ہوا۔ اس نظام کے قیام سے غیرملکی زرمبادلہ مزید بڑھے گا۔ اس کے ساتھ پنشنروں کی ادائیگیاں اور حکومتی ٹیکسز اور فیسیں منسلک کرنے سے جہاں عوام کو سہولت ہو گی وہاں سمال بزنس کا شعبہ فروغ پائے گا۔ حکومت کے پاس فنانشل ٹرانزیکشنز کرنیوالوں کی تعداد بھی آ جائے گی‘ کس شعبے میں کتنا خرچ ہو رہا ہے اس طرح کی تفاصیل سامنے آنے سے حکومت کو معاشی اہداف وغیرہ متعین کرنے میں آسانی ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ 'راست‘ کے آنے سے تعمیراتی سرگرمیاں بھی بڑھ جائیں گی کیونکہ حکومت پہلے ہی ایک برس کیلئے تعمیراتی صنعت کیلئے ریلیف میں اضافہ کر چکی ہے اور اس دوران اگر یہ ایپ آ جاتی ہے تو تعمیرات سے متعلقہ دو سو سے زائد شعبوں میں خریداری اور پیسوں کا لین دین کئی سو گنا بڑھ جائے گا جس کا لامحالہ فائدہ قومی خزانے کو ہو گا۔
جس تیزی کے ساتھ کرنسی کا استعمال کم اور آن لائن طریقے متعارف ہو رہے ہیں‘ ڈیجیٹل کرنسیاں مثلاً بٹ کوائن جیسی مزید کرنسیاں سامنے آ سکتی ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ خبر پڑھ کر پوری دنیا نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں کہ ایک بٹ کوائن جو دو تین سال قبل چند ہزار روپے کا مل جاتا تھا‘ اب چھتیس ہزار ڈالر کا بک رہا ہے۔ یعنی اگر کسی نے تین بٹ کوائن ایک لاکھ کے خریدے تھے تو وہ آج ڈیڑھ دو کروڑ میں فروخت کر سکتا ہے؛ تاہم یہ ڈیجیٹل کرنسی صرف انٹرنیٹ تک محدود ہے۔ بٹ کوائن اب بھی کئی جدید ممالک میں ممنوع ہے حتیٰ کہ چین میں اس کی فروخت پر پابندی ہے۔ امریکی حکومت دیگر ممالک کے مقابلے میں فراخ دلی سے کام لیتی ہے۔ شاید امریکہ دنیا کا مزاج دیکھنا چاہتا ہے۔ نئی چیزیں اسی طرح متعارف ہوتی ہیں۔ ان کے مثبت یا منفی اثرات وقت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اگر تو بٹ کوائن کے لین دین میں کوئی مسائل سامنے نہ آئے اور لوگوں نے اسے دیگر کرنسیوں کی نسبت زیادہ سہل اور مؤثر پایا تو پھر اس کو جگہ بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ فی الوقت سٹیٹ بینک نے بھی پاکستانیوں کو اس کرنسی کی خریدوفروخت سے بچنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ اس کرنسی میں خاصے ابہام موجود ہیں اور حد درجہ خفیہ نوعیت کی حامل ہونے کی وجہ سے انہیں غیرقانونی کارروائیوں اور مختلف قسم کے فراڈ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام تو عام قسم کے فراڈ میں ہی پھنس جاتے ہیں۔ انہیں تو کوئی جعلی نمبر سے بینک کا نمائندہ بن کے کال کرے اور ڈیبٹ کارڈ کا پن وغیرہ مانگ لے تو وہ فوری دے دیتے ہیں تو پھر اس قسم کی کرنسیوں کی کہاں انہیں سمجھ آئے گی؛ البتہ جس طرح ایک بٹ کوائن پچاس پچاس لاکھ کا فروخت ہو رہا ہے ڈر یہی ہے کہ لوگ اس کی خریداری کرکے پھنس نہ جائیں کہ ہمارے عوام کو بھی راتوں رات امیر ہونے کی جلدی ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو تھوڑا اور ستھرا کھانے کے بجائے جیل کی ہوا کھانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔