دنیا بھر میں معیشت اور کمائی کے انداز نہ صرف تبدیل ہو رہے ہیں بلکہ کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے کے مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔ کروڑ پتی یا ارب پتی بننے کیلئے سرمائے‘ لمبی چوڑی فیکٹریوں اور ہزاروں ملازمین کی ضرورت نہیں بلکہ اب امیر ہونے کیلئے ذہانت اور ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ اب دنیا کا کوئی بھی شخص تھوڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ کام کرے تو جتنی چاہے ترقی کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ کون سا ہے یہ بتانے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے۔ گزشتہ رات مجھے ایک اجنبی نمبر سے موبائل پر کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف سے انتہائی اپنائیت والے لہجے میں ایک صاحب بولے: کیسے ہیں جناب آپ نے پہچانا مجھے؟ میں کون بول رہا ہوں؟ میں نے کہا: نہیں میں آپ کو نہیں جانتا۔ تو وہ بولے: ذرا ذہن پر زور دیجئے ذرا سکول کے زمانے کو یاد کیجئے۔ میرا ذہن سکول کے دوستوں کی طرف مڑ گیا مگر یہ تیس برس پرانی بات تھی اور سکول میں درجنوں دوست تھے۔ اب ان کی آوازیں بھی خاصی بدل چکی ہوں گی۔ میں نے ایسے ہی تُکا لگاتے ہوئے کہا‘ کہیں آپ سجاد لغاری تو نہیں بول رہے‘ جس پر اجنبی بولا‘ بالکل درست پہچانا میں لغاری ہی بول رہا ہوں۔ میں نے کہا: آپ کہاں رہتے ہیں اور کیا مصروفیات ہیں‘ جس پر انہوں نے گول مول سا جواب دیتے ہوئے کہا: میں اِدھر آپ کے شہر میں ہی رہتا ہوں اور کام بھی ٹھیک چل رہا ہے لیکن یہ سب میں آپ کو پھر بتا دوں گا فی الوقت مجھے آپ سے ضروری کام ہے‘ مجھے بیس ہزار روپے فوری چاہئیں جو سوموار کو لوٹا دوں گا۔ میں نے سوچا‘ ایک تو مجھے یقین نہیں کہ یہ واقعی سجاد لغاری ہے اور دوسرا تیس برس بعد یکدم فون کر کے دھڑلے سے بیس ہزار مانگنا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ میں نے کہا: اتنے پیسے تو نہیں ہیں‘ جس پر وہ بولے: چلیں پانچ ہزار بھجوا دیں مجھے آن لائن۔ میں نے کہا‘ پانچ بھی نہیں ہیں‘ تو وہ بولے‘ چلیں کل تک کر دیں کل میں آپ کو دوبارہ فون کروں گا۔ میں نے بعد میں کھوج لگا کر اصل سجاد لغاری کا نمبر تلاش کیا اور فون کر کے پوچھا کہ کیا فلاں نمبر آپ کے استعمال میں ہے تو وہ بولے: نہیں۔ اس پر میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا تو وہ ہنستے ہوئے بولے: میں آپ سے مذاق کرتا تو پانچ ہزار نہیں پانچ لاکھ تو مانگتا۔ خیر میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی چالباز تھا جو بڑے نفسیاتی انداز میں مجھے اپنے جال میں پھنسا کر رقم اینٹھنا چاہتا تھا۔ میں نے اسی نمبر پر فون کیا تو اسی شخص نے فون اٹھا لیا۔ میں نے کہا: آپ کون بول رہے ہیں‘ جس پر اس نے کہا: لغاری۔ میں نے کہا: تیس برس ہو گئے مجھے آپ کا پورا نام بھول گیا‘ کیا آپ بتانا پسند کریں گے۔ اس پر اسے شک ہو گیا اور اس نے فون کاٹ دیا۔ میں نے دوبارہ نمبر ملایا جو مسلسل بند ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت ناجائز طریقے سے پیسہ بنانے کیلئے فون اور آن لائن پے منٹ کے طریقے استعمال کرتی ہے۔ کبھی کبھی ان کا دائو لگ بھی جاتا ہے لیکن اکثریت شکنجے میں اس لئے آ جاتی ہے کیونکہ موبائل نمبر یا ای میل وغیرہ سے ہر بندے کو ٹریس کیا جا سکتا ہے۔ جس شخص نے مجھے کال کی تھی ہو سکتا ہے‘ یہ روزانہ پندرہ بیس لوگوں کو ایسے ہی فون کرتا ہو اور کوئی ایک بھی پھنس جائے تو پانچ چھ ہزار کی دیہاڑی لگ جاتی ہو لیکن یہ سارا کام غیرقانونی ہے۔ جب آج کے دور میں کمائی کے سینکڑوں جائز طریقے موجود ہیں تو پھر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا نری حماقت ہے۔ کمائی کا دنیا میں سب سے زیادہ جو طریقہ تیزی سے معروف ہو رہا ہے وہ آن لائن خریدوفروخت ہے اور ایمیزون اس کا بانی اور بادشاہ ہے۔ کورونا میں دنیا کی بڑی طاقتور قسم کی کمپنیاں‘ ایئرلائنز‘ رئیل سٹیٹ ٹائیکون اور نہ جانے کون کون آسمان سے زمین پر آ گئے لیکن انہی دنوں میں سب سے زیادہ جس نے کمایا وہ ایمیزون اور اس کمپنی کا مالک جیف بیزوس تھا۔ اس کی دولت میں سینکڑوں فیصد اضافہ ہوا اور دنیا کو سمجھ آ گئی کہ کورونا جیسی وبائوں میں بھی اگر کاروبار اور کمائی کا کوئی طریقہ کامیابی سے چل سکتا ہے تو وہ آن لائن خریدوفروخت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ایمیزون نے کھربوں ڈالر چند ماہ کے کورونا لاک ڈائون میں کما لئے تو صرف ایمیزون کا مالک ہی امیر نہیں ہوا بلکہ اس کاروبار سے جو شخص بھی جڑا ہوا تھا اس کی دولت کو چار چاند لگ گئے۔ چاہے وہ آن لائن چیزیں سپلائی کرنے والا شخص ہو‘ چیزیں درآمد‘ برآمد کرنے میں کسی کا کردار ہو‘ آن لائن سیلز ایجنٹ ہو‘ کسٹمر سپورٹ ایجنٹ ہو‘ گرافک ڈیزائنر یا ڈیٹا اینٹری آپریٹر ہو‘ ایسے تمام لوگ جو ایمیزون یا اس طرح کی کسی کمپنی سے کسی طرح بھی جڑے ہیں وہ اچھے خاصے پیسے کما رہے ہیں۔
پاکستان میں اس کا کیا مستقبل ہے اس حوالے سے گزشتہ دنوں اس فیلڈ کے ایکسپرٹ ثاقب اظہر سے ملاقات میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ثاقب کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں کی تعداد اور ان کا ٹیلنٹ ہمارے لئے کسی قدرتی خزانے یا انمول ذخائر سے کم نہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ ایمیزون سے نہ صرف عام لوگ بلکہ حکومت اور نجی ادارے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کسی کے پاس سرمایہ ہے تو وہ سرمایہ لگا کر اسے بڑھا سکتا ہے۔ جس کے پاس ٹیلنٹ ہے‘ جس کو کمپیوٹر چلانا آتا ہے‘ کسی پراڈکٹ کی تفصیل لکھنی آتی ہے‘ ای میل کا جواب دینا آتا ہے‘ گوگل سے چیزیں ڈھونڈنا جانتا ہے ایسا ہر شخص تھوڑی سی محنت کرے تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنی فیملی کا معاشی بوجھ بآسانی اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک بات بتا کر حیران کر دیا کہ بہت سے لوگ جتنا کام یا جب تک کام کرتے ہیں اتنی دیر کے پیسے کماتے ہیں۔ جیسے ایک ڈاکٹر مریض کو دیکھے گا تو فیس لے گا‘ مزدور مزدوری کرے گا تو اجرت اسے مل جائے گی لیکن ایمیزون جیسے پلیٹ فارمز پر آپ اگر چند گھنٹے کام کرکے سو جائیں تو ایک دو تین دن بعد ان چند گھنٹوں کی اُجرت آپ کو مسلسل ملتی اور بڑھتی رہے گی۔ یہ خاص تکنیک ہے جس پر انہوں نے خاصا کام کیا ہے اور بھارت کے تو تقریباً سبھی نوجوان اسی فیلڈ سے جڑتے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: ایمیزون تو دیگر ممالک میں ہے تو یہاں سے کیسے کام ہو گا تو ثاقب اظہر نے کہا کہ اس کیلئے آپ برطانیہ یا دیگر ممالک میں اپنی کمپنی رجسٹر کرتے ہیں جس کے بعد آپ پوری دنیا میں چیزیں خریدوفروخت کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ چین سے مال تیار کروا کر اس پر اپنے برانڈ کی مہر لگواتے ہیں اور اسے آن لائن فروخت کیلئے پیش کر دیتے ہیں۔ فیصل آباد پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے ‘ یہاں سے کپڑے سے بنی مصنوعات ایمیزون پر فروخت ہوتی ہیں۔ اسی طرح چمڑے اور کھیل کی مصنوعات سیالکوٹ سے بن کر جاتی ہیں۔ اصل کام اسے آن لائن فروخت کرنے کی تکنیک ہے جو سیکھنا انتہائی آسان ہے۔
حال ہی میں ایک نوجوان کا انٹرویو نظر سے گزرا جس نے ایمیزون پر صرف دو سال کام کر کے چار کروڑ روپے کمائے اور اب وہ اس کاروبار کو پھیلانے کیلئے اپنی فیملی سمیت برطانیہ شفٹ ہو رہا ہے۔ یہ شخص امام مسجد کا بیٹا ہے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایسے ہونہار لوگ ایسے سنہرے مواقع بے کار سمجھ کر ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ جدوجہد کرتے ہیں اور بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آپ خود بتائیں ایسا کون سا حلال اور کم پیسوں والا کام ہے جس سے کوئی بھی غریب نوجوان آج کے دور میں دو سال میں چار کروڑ کما لے۔ ایمیزون نے بہر حال دنیا کے ایک سو چوالیس ممالک کے پانچ ارب افراد کو اپنی قسمت بدلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے‘ جو بھی درست سمت میں محنت کرے گا فائدہ اٹھا کر خوشحال ہو جائے گا۔ جو مہنگائی اور حالات کا رونا روتا رہے گا‘ اس کی باقی عمر یونہی پچھتاتے اور جلتے کڑھتے گزر جائے گی۔