جب کسی کی تباہی مقصود ہو تو اُس کی عقل پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں‘ پھر وہ غلط فیصلے کرتا ہے جو اسے تباہ کرڈالتے ہیں۔ بھارت کشمیر پر جبری قبضہ برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں مشرقی پنجاب سے تامل ناڈواور بنگال تک سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ ہیومن رائٹس رپورٹ کے مطابق جنوری 1989سے دسمبر2020تک کے عرصے میں 95ہزار سات سو کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ لاوے پورا میں جو تازہ ترین واقعہ پیش آیا اس میں تین طالب علموں کو یونیورسٹی فارم جمع کروانے کیلئے جانے کے دوران گولیاں مار دی گئیں۔آئی جی کشمیر پولیس وجے کمار نے بعد ازاں تسلیم کیا کہ ان تینوں کا نام دہشت گروں کی فہرست میں نہیں تھا اور انہیں صرف شبہے کی بنا پر مارا گیا۔ایسے کتنے ہی کشمیری نوجوان اور رہنما کشمیر کی وادیوں اور بھارتی جیلوں میں شہید کر دیئے گئے‘کتنے ہی میر واعظ عمر فاروق آج کشمیر میں سراپا احتجاج ہیں‘ کتنے ہی یاسین ملک جیلوں میں آج بھی بھارت کا تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ مگر غلامی کی طویل رات ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی۔لوگو ں کو راہ چلتے یا گھروں سے اٹھا کر غیر قانونی حراست میں رکھا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2019سے اب تک چار سو سے زائد افراد کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ٹارچر سیلز میں قید کیا گیا ہے۔1989سے دسمبر 2020 تک ایک لاکھ اکسٹھ ہزار افراد کو بھارتی فوج کی جانب سے غیر قانونی حراست اور حبس بے جا میں رکھا گیا۔5اگست2019سے اب تک سترہ ماہ گزر چکے ہیں اور انٹرنیٹ منقطع ہونے سے وادی کا رابطہ دنیا بھر سے ختم ہو چکا ہے۔کورونا کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں جن سے پوری دنیا دوچار ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ممالک میں بھی صحت کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ایسے میں مقبوضہ وادی جوکورونا سے قبل ہی لاک ڈائون کا شکار تھی وہاں یہ مسائل اور بھی گمبھیر ہو چکے ہیں۔انٹرنیٹ نہ ہونے سے لوگ ٹیلی میڈیسن کی سہولت سے بھی محروم ہیں جبکہ پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے انٹرنیٹ پر ہی صحت سے متعلق معلومات اور مشورے حاصل کئے جا رہے ہیں۔ یوں وادی کشمیر کو دنیا بھر سے کاٹ کر لاکھوں کشمیریوں کو محدود وسائل کے ساتھ محصور کر دیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اوسطاً ً1658کشمیریوں کو ایک ڈاکٹر میسر ہے جبکہ پوری دنیا میں یہ کم از کم شرح ایک ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ وادی میں تعلیم کا شعبہ مکمل بلیک آئوٹ کا شکار ہے۔ لاک ڈائون کے علاوہ جبری پابندیاں اور انٹرنیٹ وغیرہ کی عدم دستیابی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔جس کی وجہ سے ساڑھے چھ لاکھ کشمیری طلبا کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ 65ہزار سے زائد اساتذہ جو سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے تھے بیروزگاری کاٹنے پر مجبور ہیں۔غیر معینہ لاک ڈائون کی وجہ سے انہیں مستقبل میں بھی کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری اس بھارتی دہشت گردی اور کشمیری عوام کے حالات اور دُکھوں کو دنیا کے سامنے لانے سے روکنے کے لئے بھارت نے وادی میں ہیومن رائٹس سے متعلقہ تنظیموں پر پابندی لگا کر رکھی ہے تاکہ سچ کو دنیا کے سامنے آنے سے روکا جا سکے۔گزشتہ پانچ برس میں بھارت کشمیر میں ایسی بیس ہزارتنظیموں پر پابندی لگا چکا ہے۔ 1989سے آج تک کشمیر میں یوں تو بربریت کی ان گنت داستانیں رقم ہو چکی ہیں لیکن جتنی رپورٹ ہوئی ہیں وہ بھی ہوش اڑانے کے لئے کافی ہیں۔بھارتی حکومت ایک طرف دنیا کو یہ کہتی ہے کہ وہ کشمیریوں کو حقوق دے رہی ہے دوسری طرف اب تک بھارتی فوج کی جانب سے گیارہ ہزار دو سو اکتیس خواتین کی عصمت دری کی جا چکی ہے۔ان دو عشروں میں بھارتی قتل و غارت اور ماوائے عدالت قتل عام کے باعث 23ہزار خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ایک لاکھ سات ہزار بچوں کے سر سے ان کا باپ کا سایہ چھن چکا ہے جبکہ ایک لاکھ دس ہزار سے زائد مکانات اور دیگر املاک کو گرا دیا گیا ہے۔ کشمیرمیں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے محبت کرنے والے مظلوم کشمیری عوام بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم سے تنگ آ کر آزادی کے نعروں کے ساتھ پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں چند دہائیوں میں بھارتی فوج نے کشمیریوں پر شرمناک اور انسانیت کو بھی شرمسار کر دینے والے مظالم کیے۔ بھارتی فوج نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں پر پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے چھروں سے بڑے تو بڑے بلکہ معصوم چھوٹے بچے اور بچیاں اپنی بینائی سے محروم ہو گئے سینکڑوں خواتین کے چہرے مسخ ہو گئے۔ ایسے مظالم دیکھ کر آسمان سے پتھر برسے زمین پھٹ جائے مگر کہاں ہیں انسانی حقوق کے عالمی ادارے؟ بھارتی فوج کے مظالم پر انسانی حقوق کے علمبردار اپنی بغلوں میں گردن دبائے خاموش کیوں بیٹھے ہیں۔ انسانی حقوق کے پیرو کار سال بھر کہاں سوئے رہتے ہیں یا پھر ان کا مقصد سال میں ایک بار فوٹو سیشن کروانا‘ چہرے کی رونمائی کروانا پھر غائب‘ جبکہ بھارتی فوج روزانہ درجنوں کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے‘اُن کی نسل کشی کر رہی ہے‘نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے‘ کاروبار اور باغات تباہ ہو چکے ہیں اور نہتے کشمیریوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جا رہے ہیں۔ مگر بھارتی فوج کے ان مظالم کا ان نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں پر کوئی اثر نہیں۔ دنیا پوچھتی ہے کہ بھارتی فوج کا کیا تربیتی اور پیشہ ورانہ معیار یہ ہے کہ وہ بوڑھے بچوں اور عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹتے ان کا سرعام قتل کرے۔ بچوں پر پیلٹ گنوں کا استعمال کرے بھارتی فوج کا بحیثیت فوجی ادارہ کوئی ڈسپلن کوئی پیشہ وارانہ تربیتی معیار‘ کوئی قاعدے قوانین ہیں تو ان کا مظاہرہ کہیں پر تو نظر آئے لیکن بھارت کی جاہل گنوار فوج کا تربیتی معیار سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں نفسیات کے مارے بھارتی فوجیوں کی ذہنی معذوری کا عالم یہ ہے کہ آئے روز ایل او سی پر فائرنگ کر کے عام شہریوں کو شہید کر رہے ہیں۔ ڈرپوک اور خوفزدہ انسان ہی ہمیشہ گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے اور اس کا مظاہرہ بھارتی فوج کنٹرول لائن پر آبادیوں کا نشانہ بنا کر یا پھر سکول کے چھوٹے بچوں کی وین پر فائرنگ کر کے کرتی ہے۔ ان بھارتی فوجیوں کو اپنے بچے دیکھ کر کشمیر کے وہ معصوم بچے یاد نہیں رہتے کہ جن کی بینائی اور زندگی چھین کر وہ اپنے بچوں کے منہ چوم رہے ہیں؟ آفرین ہے اُن بچوں کی ہمت پر جو درندوں کی بندوق کا مقابلہ پتھروں سے کرتے ہیں۔کشمیری شہدا کے پاکستانی پرچم میں لپٹے جنازے 'ہم ہیں پاکستانی پاکستان ہمارا ہے‘ کے نعروں سے گونجتی مقبوضہ کشمیر کی وادیاں بھارتی فوج کیلئے عذاب مسلسل ہے۔یہ عذاب بھارتی فوج پر اُس وقت تک مسلط رہے گا کہ جب تک اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی قرار دادوں پر عمل نہیں کرواتی۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری کا جتنا ذمہ دار بھارت ہے اتنے ہی عالمی ادارے بھی کیونکہ ظلم ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کرلینا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان دُنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروانا اُس کا فرض ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں لے جا کر ہندوستان ہی گیا تھا مگر اُس کی قراردادوں پر عمل کرنے سے آج بھی گریزاں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بہت سے مواقع پر کئی فارمولے تجویز کیے گئے مگر کشمیری اور پاکستانی قوم نے ہمیشہ ہر اُس فارمولے کو مسترد کر دیا جو حقِ خود ارادیت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ کوئی پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کو پسِ پُشت نہیں ڈال سکتی کیونکہ پاکستانی قوم کبھی ایسا نہیں کرنے دے گی۔بھارت کچھ بھی کہے‘ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق تک ہم چین سے بیٹھیں گے نہ ہی مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک اور اس کے جوش و جذبے میں کوئی کمی آئے گی۔ وادی ٔ کشمیر میں جتنا ظلم اور جتنا بے گناہ خون بہے گا‘ آزادی کی صدائیں اتنی ہی بلند ہوتی جائیں گی۔