آج پوری دنیا میں یومِ یکجہتیٔ کشمیر منایا جا رہا ہے۔ یوں تو پاکستانیوں کے دل ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘ ہم ان کو کبھی بھلا نہیں پاتے لیکن پانچ فروری کا دن خاص طور پر کشمیر اور کشمیریوں کا دن ہے۔ آج کے دن جہاں دنیا بھر میں بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی مذمت کی جا رہی ہے‘ وہاں بھارت دو ماہ سے اپنے ہی کسانوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ کسانوں نے مودی سرکار کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ 26 جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ تھا۔ اس روز بھارتی کسانوں نے لال قلعے پر اپنے مذہبی جھنڈے لہرا دئیے۔ بھارت میں علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں جو بھارت کا منہ کالا کرنے اور اسے دنیا میں ننگا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ آج کے دن ہر سال نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کشمیری اور پاکستانی مقبوضہ ریاست میں برسر پیکار حریت پسندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں اور پاکستان کا بچہ بچہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ یوم یکجہتیٔ کشمیر جہاں کشمیریوں کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ بنتا ہے‘ وہیں پاکستان میں قومی سطح پر صف بندی کی تجدید ہوتی ہے، نیز بین الاقوامی سطح پر بھی پیغام جاتا ہے کہ کشمیر اور پاکستان لازوال رشتوں میں منسلک ہیں‘ انہیں جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مقبوضہ ریاست میں بھارتی مظالم کی انتہا ہو چکی۔ نریندر مودی کی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے درپے ہے، ریاست کے مسلم تشخص کو بدلنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ آزادی کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو ختم کرنے کی تدبیر کی گئی۔ پیلٹ گنز کا مجرمانہ استعمال کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں ہزاروں نوجوان بینائی سے محروم ہوئے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی کرکے جس طرح برہمن ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے‘ وہ کسی طرح قابل قبول نہیں۔ وادی میں ہر قسم کا ظلم و جبر روا رکھا گیا ہے۔ بھارت بے خوف و خطر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب‘ اور عالمی برادری کے تفتیشی مشاہدات کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن بھی تنبیہ کر چکے ہیں کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کے حقوق کی بحالی اور حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ کشمیر میں مواصلات اور انٹرنیٹ نظام کو تباہ کرنا اور اپنے حقوق کیلئے پُرامن احتجاج کرنے والوں پر ظلم کرنا اور انہیں روکنا جمہوریت پسندی نہیں۔ نائب صدر کملا ہیرس نے پیغام دیاکہ کشمیری خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کی ہائی کمشنر نے بھارت کے کشمیر میں فوجی مظالم پر سخت تشویش ظاہر کی۔ کشمیریوں کو پیلٹ گنوں اور دیگر ذرائع سے شہید اور زخمی کئے جانے پر انہوں نے بھارت کی سخت مذمت کی۔ اسی طرح ترکی‘ برطانیہ اور دیگر ممالک بھی اپنے تئیں بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں غیرانسانی اقدامات اور مداخلت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کے حق میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جعلی مقابلوں میں شہریوں کا قتل عام عروج پر ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات آئے روز رپورٹ ہو رہے ہیں‘ جن میں شہریوں کو یہ کہہ کر سرِ عام قتل کر دیا جاتا ہے کہ یہ فوج یا پولیس پر حملہ کرنے والے تھے۔ اس طرح کے اقدامات دراصل دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے اور کشمیری عوام کو دبانے کیلئے کئے جاتے ہیں تاکہ آزادی کی تحریک کو کمزور کیا جا سکے؛ تاہم کشمیریوں کو خوفزدہ کرنے کے یہ تمام بھارتی حربے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کشمیر کو خصوصی حیثیت اور کشمیریوں کو انفرادی حقوق دینے والے قانون کی منسوخی اور بھارتی ظلم و بربریت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ بھارت اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آنے کے بجائے انہیں بڑھاوا دے رہا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے نتیجے میں جس طرح غیر کشمیریوں کو بھی کشمیر میں جائیداد کی خریداری کی اجازت دی گئی‘ اس سے بھارت کا اصل چہرہ اور ایجنڈا بے نقاب ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی حمایت کی قرارداد منظور کی تھی۔ ہمیں بھارت کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ کشمیری عوام نے گزشتہ 74 سال سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے جبروتشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشتگردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈروں کے مکروفریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبرواستقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہے اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو جس انداز میں اٹھایا اس کی ٹیسیں بھارت آج تک محسوس کررہا ہے۔ بھارت آزادی کی اس تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں لاکھوں شہیدوں کا خون شامل ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس خطۂ ارضی پر کشمیر کے سوا آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے اور نہ ہی آزادی کی کسی تحریک میں عفت مآب خواتین نے اپنی عصمتوں کی اتنی قربانیاں دی ہیں جتنی کشمیری خواتین دے چکی ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ پاکستان کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیا؛ تاہم جنرل گریسی نے اس جواز کے تحت قائد کے حکم کی تعمیل نہ کی کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کا تنازع بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے پیدا ہوا جو دراصل پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرکے اس کے آزاد وجود کو ختم کرنے کی سازش تھی۔ بھارت اسی سازش کے تحت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے کر گیا مگر جب جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اب اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔ وہ اپنی آزادی کیلئے جو بھی ہو سکتا ہے‘ کر رہے ہیں۔
اس وقت کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے کشمیریوں کی صحت دائو پر لگ چکی ہے۔ بنیادی حقوق تو ان کے پہلے ہی غصب کئے جا چکے ہیں۔ مودی نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نو لاکھ بھارتی فوج کو استعمال کرکے کشمیریوں کو اپنے گھروں میں محصور کر دیا اور ان کے سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی اور معاشی آئینی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ مودی سرکاری کے یہ غیردانشمندانہ فیصلے اسے لے ڈوبیں گے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان ماضی میں بھی کشمیریوں کے ساتھ کھڑا تھا‘ آج بھی ہے اور کل بھی مسئلہ کشمیر کی سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ اقوام متحدہ ہو یا او آئی سی‘ پاکستان نے ہر فورم پر مظلوم کشمیریوں اور کشمیر کی آزادی کیلئے آواز ضرور بلند کی ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے بھارت پر بڑھتا ہوا یہ دبائو اسے جلد گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دے گا۔ خدا نے چاہا تو مسئلہ کشمیر ہم اپنی زندگیوں میں حل ہوتے دیکھیں گے۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔