پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر عین اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ برس مارچ میں پہلی لہر شروع ہوئی تھی۔ دوسری لہر اتنی تیز نہ تھی لیکن پہلی اور تیسری لہر نے حالات کافی خراب کیے ہیں۔ خدا خدا کر کے تعلیمی عمل اور کاروبارِ زندگی بحال ہونا شروع ہوئے تھے کہ پھر سے وہی لاک ڈائون اور دیگر بندشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان طلبہ کو ہوا ہے کیونکہ کاروبار میں نقصان تو بعد میں بھی پورا ہو جاتا ہے لیکن تعلیمی نقصان کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ کورونا کے دوران ایک فائدہ طلبہ کو یہ ضرور ہوا کہ انہیں آن لائن تعلیم حاصل کرنے، کمپیوٹر اور دیگر سافٹ ویئرز کے استعمال کے متعدد طریقے سمجھ آ گئے لیکن بہت بڑی تعداد سرکاری سکولوں کے ایسے بچوں کی بھی تھی جو آن لائن تعلیم حاصل کرنا افورڈ نہیں کر سکی۔ ان کے لئے حکومت نے متبادل طور پر تعلیم گھر ٹی وی چینل شروع کیا جس سے کچھ نہ کچھ فائدہ انہوں نے ضرور اٹھایا ہو گا؛ تاہم جیسے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ آن لائن تعلیم میں وہ بات نہیں جو فزیکل کلاسز میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاد کی موجودگی میں بچوں کے سیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ آن لائن امتحانات کا الگ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ بچے دائیں بائیں سے نقل کر رہے ہوتے ہیں اور استاد کے لئے یہ سب کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیمروں کی کوالٹی اتنی اچھی ہو اور ایک کیمرہ دور سے اور ایک قریب سے بچے کو مانیٹر کر رہا ہو تب تو نقل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اتنا تردد کون اور کیسے کرے کہ پہلے ہی تعلیمی اخراجات قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔ پھر کورونا کی وجہ سے عوام کی آمدن اور قوتِ خرید بھی کم ہو چکی ہے۔ مہینے کا انٹرنیٹ بھی دو سے چار ہزار روپے میں پڑتا ہے۔ پھر اس کا بیک اَپ رکھنے کیلئے موبائل میں بھی انٹرنیٹ پیکیج رکھنا پڑتا ہے۔
کورونا کے قابو نہ آنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس اپنی شکلیں بدل رہا ہے۔ پہلے فیز میں یہ خاصا خوفناک دکھائی دیا۔ وڈیوز میں ایسے مناظر ہم نے دیکھے کہ لوگ سانس نہ آنے پر زمین پر مچھلی کی طرح تڑپ رہے تھے۔ پھر ہسپتالوں کا بھی برا حال تھا۔ جس کو کورونا ہوتا تھا‘ اسے اٹھا کر ہسپتال میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اس سے ملنے جلنے پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ یہ بھی ہوا کہ والدین ایک ہسپتال میں اور بچے کسی اور ہسپتال میں ہوتے تھے۔ جوہر ٹائون لاہور میں ایکسپو سنٹر کو قرنطینہ مرکز بنایا گیا تو وہاں ایک ہزار افراد کو رکھا گیا جن کے رہنے‘ کھانے‘ پینے اور دیگر انتظامات کا الگ سلسلہ شروع ہو گیا۔ نہ لوگوں کو اور نہ ہی انتظامیہ کو سمجھ آ رہی تھی کہ کس طرح ان حالات سے نمٹا جائے۔ آدھے عوام تو تب بھی کورونا کو مذاق سمجھ رہے تھے۔ سب ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہارے کسی عزیز کو کورونا ہوا ہے؟ وہ جواب میں کہتا: نہیں، تو پھر یہی رائے پھیلتی پھیلتی لوگوں کو گمراہ کرتی رہی اور لوگوں نے احتیاط کرنا چھوڑ دی۔ جب کورونا قریبی عزیزوں تک پہنچا تو پھر سب کو سمجھ آئی کہ یہ تو ایک حقیقی بیماری ہے، اس پر بھی بس نہیں کی گئی اور یہ تھیوریاں بنا کر پیش کی گئیں کہ اسے جان بوجھ کر پھیلایا جا رہا ہے تاکہ ویکسین بیچ کر پیسے کمائے جا سکیں۔ اس طرح کی تھیوریز میں دم تب ہوتا جب کوئی ملک اس وبا سے بچا ہوتا۔
چین سے یہ مرض شروع ہوا اور ہر رکاوٹ روندتا ہوا پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب اس کو کوسنے یا کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ تھا نہ وقت۔ اب یہ آ گیا اور اس نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ جب تک دنیا کے تمام ممالک سے یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا‘ تب تک کسی ایک ملک سے اسے ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ویکسین کو صرف چند جدید اور امیر ممالک تک محدود رکھنے سے بات نہیں بنے گی۔ پھر یہی ہو گا کہ جیسے ہی کسی ملک کی فلائٹ سے وائرس سے دو‘ چار متاثرہ بندے آئیں گے وہ آ کر چند دنوں میں ایک سے دو‘ دو سے چار‘ چار سے سولہ اور سولہ سے دو سو چھپن کی رفتار سے دیگر آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ جنوری میں ہمارے کیس بھی کم تھے اور ہلاکتیں بھی‘ لیکن پھر برطانیہ سے لوگ آئے اور اپنے ساتھ ایک نیا قسم کا وائرس لے آئے جو پہلے سے زیادہ شدت رکھتا تھا۔ برازیل میں جو وائرس اُدھم مچا رہا ہے وہ الگ ہی کہانی ہے۔ یہ وائرس پہلے سے متاثرہ لوگوں کو دوبارہ اس مرض میں مبتلا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی جو بندہ ویکسین لگوا لے گا‘ یہ اسے بھی لے بیٹھے گا یا اس کی اینٹی باڈیز کو اتنا کم کر دے گا کہ اس کا مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف کمزور پڑ جائے گا۔ برازیل سمیت ایسے تمام ممالک سے فلائٹس بند ہونی چاہئیں جہاں سے ایسے نت نئے خطرات آ سکتے ہوں۔ یہ کام پیشگی ہونا چاہیے وگرنہ ایک مرتبہ ایک بندہ بھی وائرس لے کر آ گیا تو وہ اکیلا ہی سب کچھ ملیامیٹ کرنے کے لئے کافی ہو گا۔ ایئر پورٹس پر سکریننگ کا عمل سخت ہونا چاہیے۔ جو لوگ یہاں آ رہے ہیں ان کے پاس تین دن پرانا ٹیسٹ سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے اور یہاں آ کر ان کا نہ صرف دوبارہ ٹیسٹ ہو بلکہ ان پر ایک ہفتہ قرنطینہ میں گزارنے کی پابندی عائد ہو۔ ہمارا مسئلہ وہی ہے کہ جیسے ہی حالات تھوڑے بہتر ہوتے ہیں‘ وائرس کا گراف کم ہونا شروع ہوتا ہے ہم ریلیکس ہو جاتے ہیں۔ پھر آدھی سے زیادہ آبادی تو اس سے ویسے ہی انکار کر رہی ہے تو پھر ان حالات میں یہ کیسے قابو میں آ سکتا ہے۔
شادیوں پر تین سو لوگوں کی اجازت بھی حیران کن ہے۔ کینیڈا میں ایک ہال کے اندر شادی میں پچیس لوگوں کی اجازت ہے۔ ہر شخص کی کرسی کا درمیانی فاصلہ چھ فٹ رکھا جاتا ہے اور ہماری طرح‘ وہاں شادی میں لوگ ایک دوسرے پر چڑھ نہیں دوڑتے نہ ہی بلاوجہ جپھیاں ڈالتے ہیں۔ حالات کے مطابق صرف حاضری کو کافی اور غنیمت سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں آپ کو شادیوں میں کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑتی دکھائی دیں گی۔ تمام رسمیں بھی پوری ہوں گی‘ دودھ پلائی تو جیسے فرض ہو اور پھر جوتا چھپائی۔ اس میں درجنوں لوگوں کا جمگھٹا لگ جاتا ہے اور کسی کو احتیاط یاد نہیں رہتی۔ ایسے میں انتظامیہ چھاپا مار کر دُلہے کو گرفتار کر لے تو واویلا مچ جاتا ہے۔
جس طرح کی ہمارے لوگوں کی سوچ اور وائرس کے انداز ہیں‘ یہ کورونا اگلے دو سال بھی جاتا نظر نہیں آتا۔ ہر بندے کو ایک سال میں کم از کم دو مرتبہ ویکسین لگے تب جا کر یہ معاملہ درست سمت میں چلے گا۔ ابھی تو ویکسین صرف ساٹھ‘ ستر سال سے اوپر کے لئے میسر ہے یا میڈیکل عملے کو لگی ہے۔ ویکسین کی تیاری سے لے کر فراہمی تک اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر برطانوی فائزر ویکسین تو منفی ستر ڈگری پر ہی محفوظ رہتی ہے تو یہ پاکستان جیسے ملکوں میں نہیں آ سکتی۔ اس کے لئے سپیشل کنٹینرز درکار ہیں جو فضائی سفر کے دوران اس کا درجہ حرارت برقرار رکھتے ہیں۔ کچھ دوسری ویکسینز کے ٹرائل بھی پاکستان میں چل رہے ہیں مگر مقامی طور پر تیار کی گئی ویکسین ہی اس مسئلے کا فوری اور موثر حل ہو سکتی ہے۔ ہر ملک کو ویکسین تیار کرنے کے قابل بنا دیا جائے تو بھی اس بیماری کا صفایا ہو جائے گا۔ اس کے باوجود احتیاط پھر بھی درکار ہو گی کیونکہ ویکسین کورونا کے خلاف اینٹی باڈیز بناتی ہیں‘ کتنی دیر یہ قائم رہتی ہیں یہ تجربات اور وقت کے ساتھ ہی پتا چلے گا۔
کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست کو کورونا ہوا‘ وہ صحت یاب ہو گیا اور اینٹی باڈیز بھی بن گئیں لیکن تین ماہ بعد ٹیسٹ کروایا تو اینٹی باڈیز کا نام و نشان نہ تھا۔ اب یہ تو کوئی ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؛ تاہم یہ طے ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں‘ اس میں انسان تجربات کے طور پر ہی استعمال ہوں گے۔ جن لوگوں نے احتیاط کی بلکہ جن پر خدا کا کرم ہوا‘ وہ بچ جائیں گے اور جب اس کی دوا آئے گی‘ باقیوں کی جان تبھی اس عذاب سے باہر آئے گی۔ اُس وقت تک احتیاط کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔