مقابلے کے امتحان میں چند سوال اکثر طالب علموں سے پوچھے جاتے ہیں‘ جیسے ان کے خیال میں پاکستان میں بیروزگاری کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے‘ معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے اور پاکستان ترقی یافتہ ملک کیسے بن سکتا ہے۔ امیدوار اس کے مختلف جواب دیتے ہیں مثلاً یہ کہ برآمدات بڑھانے پر زور دیا جائے‘ ٹیکسوں کی شرح کم کی جائے‘ نئی صنعتیں لگائی جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن آج کل روایتی صنعتوں پر انحصار اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ صنعتیں لگانے میں کئی سال لگتے ہیں اور پھر ان کی پیداوار شروع ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ لاہور میں والٹن ایئر پورٹ کے علاقے کو حکومت نے گزشتہ دنوں بزنس سٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اس طرح کے منصوبے ان مسئلے کا حل تو ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ تیزی سے اگر کسی کام سے فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ سمارٹ ٹیکنالوجی سٹی ہے۔ اگر تیزی سے زرمبادلہ بڑھانا ہے تو بزنس سٹی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی سٹی بنانے ہوں گے۔ امریکہ میں سیلی کون ویلی کی طرح پاکستان میں بھی ایسے علاقے منتخب کر کے ٹیکنالوجی کمپنیوں اور بزنس کے لئے مختص کر دئیے جائیں تو اس کے کئی فوائد ہوں گے۔ بھارت میں بنگلور اور دیگر شہروں میں ایسے آئی ٹی پارکس کب کے بن چکے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کو ایسی جگہ منتخب کرنا ہو گی جو ایئرپورٹ یا پھر رنگ روڈ کے قریب ہو تاکہ بیرون ملک سے آنے والے بہ آسانی وہاں پہنچ سکیں۔ پھر اس جگہ کو سکیورٹی پروف بنانا بھی ضروری ہے کیونکہ ٹیکنالوجی سٹی میں دنیا بھر کی ٹاپ ریٹڈ کمپنیاں دفتر بنائیں گی۔ ان میں مائیکروسافٹ‘ گوگل‘ یاہو‘ ایمزون وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں پے پال یا اس جیسی کچھ کمپنیاں اگر آنے سے ابھی تک احتراز کر رہی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں ویسا ماحول نہیں دیا جیسا انہیں درکار ہے یا دیگر ممالک میں میسر ہے۔ ٹیکنالوجی سٹی کو سٹیٹ آف دی آرٹ انداز میں بنایا جائے۔ اس میں ملکی و غیرملکی معیاری فوڈ چینز کے ریسٹورنٹس کو بھی رعایتی جگہ دی جائے۔ چونکہ دنیا میں کووڈ جیسی بیماریاں حملہ آور ہو چکی ہیں اس لئے ٹیکنالوجی سٹی کو اس انداز میں بنایا جائے کہ فاصلاتی پابندیاں برقرار رکھتے ہوئے آپریشنز جاری رکھے جا سکیں۔ اس سمارٹ سٹی میں سب کچھ ڈیجیٹل انداز میں ترتیب دیا جائے تاکہ ہر آنے جانے والے شخص کی خودکار اینٹری اور سکیننگ کی جا سکے۔ تیسرا اہم کام یہ کیا جائے کہ اس سٹی میں پاکستان اور دنیا بھر کی جدید ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں کے سمارٹ کیمپسز کے لئے بھی جگہ رکھی جائے۔ ان کیمپسز میں طلبا اپنی تعلیم کے آخری سال میں آئیں‘ آخری چھ ماہ یہاں عملی تعلیم حاصل کریں اور ساتھ ہی دنیا کے آئی ٹی کے جدید اداروں میں عملی تربیت بھی حاصل کریں۔ کسی طالب علم کو اس وقت تک ڈگری نہ جاری کی جائے جب تک وہ یہاں چھ ماہ کسی کمپنی میں نہ لگا لے اور خود سے کوئی پراجیکٹ یا منفرد ایپ نہ بنا لے۔ اس شہر میں فری لانسرز کے کام کرنے کی خاطر بڑے ہال اور ریفریشمنٹ ایریاز بنائے جائیں جہاں وہ کام کرنے کے بعد ریلیکس کر سکیں۔ ٹیکنالوجی سٹی میں تمام افراد اور کمپنیوں کو مفت اور تیز ترین وائرلیس انٹرنیٹ مہیا کیا جائے تاکہ گھنٹوں کا کام منٹوں میں مکمل ہو سکے۔ اسی شہر میں فائیو سٹار ہوٹلز کھولے جائیں تاکہ بیرون ملک اور شہر سے آنے والے مہمان قیام کر سکیں۔ اس سمارٹ سٹی میں کام کرنے والے افراد کیلئے وائی فائی پر مبنی جدید ترین بسز چلائی جائیں تاکہ وہ راستے میں بھی اپنا کام سرانجام دے سکیں۔ نئے شہر کو بجلی کی سپلائی سولر سسٹم کے تحت دی جائے تاکہ سستی اور مسلسل بجلی چوبیس گھنٹے میسر ہو سکے۔ اس چھوٹے سے شہر میں شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ‘ ویزا‘ گاڑی ٹرانسفر اور ایسی دیگر سہولیات ایک چھت تلے میسر ہوں تاکہ یہاں کام کرنے آنے والوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے دفتر سے چھٹی نہ کرنی پڑی بلکہ وہ روزگار اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہیں سے اپنے روزمرہ کے کام بھی کروا سکیں۔ سمارٹ ٹیکنالوجی سٹی میں جمنیزیم‘ سوئمنگ پول اور سپورٹس کلب قائم کئے جائیں تاکہ لوگ اپنی صحت اور لائف سٹائل کو انجوائے کر سکیں۔ سٹارٹ اپس کلچر کو فروغ دینے کیلئے اسی شہر میں انکوبیشن سنٹر بنائے جائیں جہاں طلبا اور نوجوان اپنی صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے اپنے آئیڈیا کو منافع بخش کاروباروں میں ڈھال سکیں۔ چونکہ یہیں پر فیس بک‘ گوگل‘ ٹیسلا اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں کے دفاتر ہوں گے اس لئے چھوٹے سٹارٹ اپس جو منفرد اور اچھوتا کام کریں گے وہ ان بڑی کمپنیوں کی نظر میں آ جائے گا۔ اس سلسلے میں اسی شہر میں چھوٹے چھوٹے سہ ماہی اور بڑے سالانہ ٹیکنالوجی مقابلے اور نمائشیں بھی منعقد کرائی جا سکتی ہیں جہاں پر تمام بڑی چھوٹی کمپنیوں کو مدعو کرکے ان کے سامنے یہ سٹارٹ اپس اپنے عملی منصوبے پیش کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے فٹ بال سٹیڈیم کی طرح کا ہال تعمیر کیا جا سکتا ہے جس میں کم از کم دس ہزار افرا د کے بیٹھنے کی گنجائش ہو اور بڑی بڑی سکرینوں پر سٹارٹ اپس کمپنیاں اور گروپس اپنے پراجیکٹس کے ڈیمو دکھا سکیں۔ اس شہر میں صرف ٹیکنالوجی اور ایجادات پر ہی زور نہ دیا جائے بلکہ یہاں ہر وہ قانون اور اصول لاگو کیا جائے جن پر ہم بیرونی ممالک کے ایئرپورٹس پر اترتے ہی عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سڑک پر کاغذ‘ تھوک یا پان پھینکنے پر بھاری جرمانہ ہو‘ سڑکوں پر جدید کیمرے لگائے جائیں جو آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے نہ صرف جرم کی پہچان کر سکیں بلکہ جرم کرنے والے کا چہرہ بھی شناخت کر کے براہ راست الیکٹرانک چالان اس کے ای میل‘ موبائل فون اور ویب پورٹل پر بھجوا دیں۔ چین میں یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے نافذ کی جا چکی ہے اور کیمروں کی مدد سے شہر میں کہیں سے بھی کسی بھی شخص کو ڈھونڈ نکالا جا سکتا ہے۔ وقت‘ اخلاقیات اور نظم وضبط کے حوالے سے جو کوڈ آف کنڈکٹ طے کئے جائیں وہ ہر کمپنی میں لاگو کئے جائے۔ ہر شخص کی آنکھوں کے آئرس‘ انگلیوں کی مکمل سکیننگ کے ذریعے اس کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے۔ داخلی اور خارجی راستوں پر خود کار دروازے لگائے جائیں جو چھونے یا دیکھنے سے کھل جائیں۔ کسی ایک شہر میں ایسے کسی کامیاب سمارٹ سٹی کے بعد دوسرے بڑے شہروں میں بھی ایسے منصوبے شروع کئے جائیں تاکہ پورے ملک کے نوجوان ان سے استفادہ کر سکیں۔
اس وقت امریکہ کی سیلی کون ویلی میں کام کرنے والوں کی سالانہ اوسط آمدنی اکیاسی ہزار ڈالر ہے۔ یہ ماہانہ سات ہزار ڈالر یا گیارہ لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اوسط انکم ہے۔ وہاں پراڈکٹ مینجمنٹ کے ڈائریکٹر کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر ہے جو ماہانہ چوبیس لاکھ روپے بنتی ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی وسیع آئی ٹی پارک تعمیر نہیں کیا جا سکا جہاں پر تمام بڑی کمپنیاں اپنے دفاتر کھول سکیں۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں اگر تین آئی ٹی پارکس یا سمارٹ ٹیکنالوجی سٹی بن جائیں تو یہاں کے لوگوں اور ملک کی تقدیر ہی بدل جائے گی۔ اس وقت دنیا میں جو بظاہر چھوٹی چھوٹی موبائل ایپس ہم استعمال کر رہے ہیں جن کے صارفین کروڑوں میں ہیں وہ اربوں روپے سالانہ کما رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک چودہ سالہ لڑکے نے وٹس ایپ سے ملتی جلتی بلکہ بہتر ایپ بنا لی ہے لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ ایسے ٹیلنٹ کو سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں بلکہ خود کو منوانے کیلئے ایسے کسی بندے کو میڈیا کے چکر لگانے پڑتے ہیں کہ شاید ان کی خبر سے کسی کی نظر پڑ جائے۔ فری لانسنگ میں پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ساٹھ ارب روپے فری لانسنگ کی بدولت ملک میں آئے۔ اگر پے پال اور ایمزون یہاں آ گیا تو یہ رقم تین گنا ہو جائے گی۔ یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں اگر پاکستان میں جدید آئی ٹی پارک یا دبئی کی طرز پر سمارٹ ٹیکنالوجی سٹی قائم کر دئیے جائیں تو بیروزگاری‘ معاشی بدحالی اور غربت جیسے مسائل عشروں کے بجائے چند برسوں میں حل کئے جا سکتے ہیں۔ ضرورت صرف قدم بڑھانے کی ہے۔