گزشتہ ایک عشرے میں پیدا ہونے والے بچوں کو زندگی کے آغاز میں جو تین لفظ سب سے زیادہ سننے کو ملے ہیں‘ وہ دہشت گردی‘ دھرنے اور کورونا ہیں۔ دہشت گردی تو گزشتہ تین چار برسوں میں تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن کورونا اور دھرنے بدستور جاری ہیں۔ لاہور کی مال روڈ کا تو نام ہی دھرنا روڈ پڑ چکا ہے کہ یہ سال میں کم از کم ساٹھ ستر روز تو ضرور بند رہتی ہے۔ کبھی ینگ ڈاکٹرز‘ کبھی پیرا میڈیکل سٹاف‘ کبھی اساتذہ تو کبھی کوئی اور آ کر اپنے مطالبات منوانے کے لئے اس شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتا ہے اور کاروبار کا بھٹہ بھی بٹھا دیتا ہے۔ شہر کے مرکز اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سمیت اہم سرکاری اداروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ جگہ احتجاج کرنے والوں کا حسنِ انتخاب ٹھہرتی ہے۔ اب مگر یہ سلسلہ مال روڈ تک محدود نہیں رہا۔ شہر کے وہ تمام مقامات جہاں ٹریفک کا بہت زیادہ بہائو رہتا ہے‘ اب آناً فاناً بلاک کر دیے جاتے ہیں اور یوں لاکھوں افراد نقل و حمل اور روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ احتجاجوں اور دھرنوں کا سلسلہ صرف ہمارے ہاں ہی جاری نہیں بلکہ یہ وائرس چین جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ چین میں کوئی غلطی سے احتجاج کر لے تواس کی اچھی خاصی مرمت کی جاتی ہے۔ حکومت کے خلاف وہاں آواز اٹھانا ممکن نہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کی آواز کم ہی سنائی دیتی ہے۔ وہاں سوشل میڈیا سمیت تمام قسم کا میڈیا بھی حکومتی کنٹرول میں ہے۔ مذہبی‘ سیاسی اور دیگر طبقات کو اتنی آزادی نہیں جتنی ہمارے ہاں یا کہیں اور حاصل ہے۔ چین کی ترقی کی شاید وجہ بھی یہی ہے کیونکہ چین واحد ملک ہے جو بغیر کسی جنگ کے دنیا کو فتح کرتا جا رہا ہے۔ چھوٹی موٹی جھڑپوں اور شورشوں کا تو ہم سنتے رہتے ہیں لیکن کبھی نہیں سنا کہ چین نے کسی فوجی مسئلے میں کبھی ٹانگ اڑائی ہو یا پھر اس کی فوجیں امریکا کی طرح دنیا کو تہس نہس کرنے نکل پڑی ہوں۔
جہاں تک کینیڈا اور سویڈن جیسے پُرامن ملکوں کی بات ہے تو احتجاج وہاں بھی ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کورونا ایس او پیز سے تنگ آ کر کینیڈا میں بھی لوگ باہر نکل آئے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔کینیڈا کے بڑے شہر ٹورنٹو میں کورونا وبا کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں سے لوگ اکتا ئے نظر آئے۔ ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے، شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لاک ڈاؤن کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کاروبار تباہ‘ روزگار ختم ہو رہے ہیں اورکورونا سے جڑی پابندیوں کی وجہ سے ان کے معاشی حالات روز بروز خراب تر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کی بات ہے جہاں حکومت نے اپنے ٹیکس پیئرز کو کورونا ریلیف فنڈ سے ہزاروں ڈالرز دیے‘ اس کے باوجود لوگ اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے۔ ایک اور مغربی ملک میں ماسک پہننے کے خلاف تحریک چل نکلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسک کا زیادہ استعمال سانس کے ساتھ جراثیم اندر لے جانے کا باعث بن رہا ہے‘ جس کو کورونا نہیں ہو رہا وہ ماسک کی وجہ سے سانس اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض میں مبتلا ہو رہا ہے۔ امریکا جیسے ملک میں‘ جہاں ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ہلاکتیں کورونا کی وجہ سے ہو چکی ہیں اورکورونا نے معیشت کو سخت دھچکا پہنچایا ہے‘ لوگوں کو دو کھرب ڈالر کا تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی ریلیف پیکیج دیا گیا ہے اور فوری طور پر ہر
امریکی شہری کو فی کس بارہ سو ڈالر کی رقم دی گئی ہے جبکہ فی بچہ پانچ سو ڈالر الگ سے جاری کئے گئے ہیں، اسی طرح ہفتہ وار بیروزگاری الائونس کے طور پر چھ سو ڈالر دیے گئے، سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے ساٹھ ارب ڈالر اور ہسپتالوں کے لیے ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا پیکیج دیا گیا، بیروزگاری الائونس کو باقاعدہ نوکری پیشہ افراد تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ فری لانسرز کو بھی اسی مد میں شامل کر کے ریلیف دیا گیا ہے‘ اس کے باوجود وہاں میں حالات نارمل نہیں ہو سکے ہیں۔ امریکا میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ کورونا کیسز ریکارڈ کیے گئے‘ سوا تین کروڑ سے زائد جبکہ سب سے زیادہ اموات‘ پانچ لاکھ بیاسی ہزار سے زائد‘ بھی امریکا میں ہی ہوئیں۔ اب ہمارا پڑوسی ملک کورونا کے سب سے بڑے شکار کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں گزشتہ ایک ہفتے سے ہر روز ڈھائی سے تین لاکھ نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اس وقت امریکا میں نصف کے قریب بالغ افراد کو کورونا ویکسین لگ چکی ہے لیکن کیسز رکنے کا سلسلہ نہیں تھم سکا۔ کورونا کے دوران ہی امریکا پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کی وجہ سے دہرے انتشار کا شکار ہو چکا تھا۔ ہم لوگ اپنے ہاں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کو تو کب سے دیکھتے آ رہے ہیں لیکن امریکا میں یہ سلسلہ تب شدت کے ساتھ نظر آتا ہے جب کوئی گورا کسی سیاہ فام امریکی کے ساتھ عصبیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس وقت امریکا جیسا ملک بھی شام اور عراق کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے کہ جہاں سرعام گاڑیاں جلائی جاتی ہیں‘ دکانیں لوٹی جاتی ہیں اور سٹریٹ کرائمز اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ سال امریکا میں ایسے وقت میں‘ جب کورونا سے روزانہ ہزاروں افراد سوکھے پتوں کی طرح زمین پر گر رہے تھے‘ سیاہ فام فرد کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں اور لوٹ مار میں گورے امریکیوں کو دکانیں لوٹتے دیکھا گیا۔ یہ امریکی جنرل سٹورز اور کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ جیولری کی دکانیں بھی لُوٹ رہے تھے۔ امریکی جو خود کو بہت مہذب قوم کہلواتے ہیں‘ ان کی اصلیت ایسے واقعات میں کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ گزشتہ برس ہنگاموں کے دوران امریکیوں نے تہذیب کی جتنی دھجیاں اڑائیں‘ پوری دنیا نے وہ نظارہ دیکھا۔
جہاں کورونا نے لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا کر خاموش کر دیا وہاں کورونا کی وجہ سے دہشت گردی اور جنگوں میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ عالمی وبا نہ ہوتی تو نئے نئے ملکوں میں شورشیں برپا کر کے انہیں تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بن چکے ہوتے لیکن کورونا کی وجہ سے اسلحے کو بھی زنگ لگ رہا ہے۔ اسلحہ بیچنے والی کمپنیوں نے شاید جان لیا ہے کہ دنیا میں قتل عام کرنے کے کئی اور طریقے بھی ہیں جن میں پیسہ کم لگتا ہے اور مخالف کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ وائرس نہ عام بندے کو دیکھتا ہے نہ پولیس‘ ڈاکٹروں اور نہ فوج کو‘ اسی لئے دنیا بھر میں جاری جنگوں پر یہ پانی کا کام کر گیا۔ سب کو اپنی اپنی پڑ گئی کیونکہ اب ان کا دشمن اَن دیکھا تھا اسی لئے افغانستان‘ شام اور عراق سمیت دیگر ممالک سے جھڑپوں اور ہلاکتوں وغیرہ کی خبریں آنا کم ہو گئیں۔ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ وائرس کہاں سے آیا، از خود تخلیق ہوا یا پھر اسے کسی مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ چین میں شروع میں جو ہوا سو ہوا‘ اس کے بعد کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں۔ کیسے انہوں نے اس مسئلے پر قابو پایا‘ کیا واقعی وہاں کیسز ختم ہو گئے ہیں یا خبریں باہر نہیں آ رہیں‘ یہ خدا بہتر جانتا ہے؛ تاہم دہشت گردی‘ دھرنوں اور کورونا جیسے عفریتوں نے جہاں دنیا کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہاں نئی نسل کے لئے بہت زیادہ خطرات اور چیلنجز بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ پوری دنیا پہلے ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ شہروں میں تعلیم‘ صحت اور رہائش کے ہوشربا اخراجات عام آدمی کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے لئے بھی مشکلات پیدا کرنے لگے ہیں۔ شہری علاقوں میں زمینوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ تعمیراتی اخراجات میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سارے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے نئی نسل کو تیارکرنا اپنی جگہ خود ایک چیلنج ہے۔ بچے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے ماسٹرز‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کر کے بھی فارغ پھر رہے ہیں یا چھوٹی موٹی نوکریاں کر رہے ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پھر جس طرح کی ہماری معیشت اور اس پر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے‘ اس میں ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک تو کورونا میں کئی کئی ہزار ارب اپنے بیروزگار عوام کو گھروں میں بیٹھے دے دیتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے یہ ممکن نہیں۔ ایسے میں کوئی کرشمہ ہی ہے جو اس ملک کو خوشحالی‘ امن اور ترقی کی راہ پر لے جائے اور نئی نسل کو ایسے الفاظ سے روشناس کرائے جن میں دہشت گردی‘ دھرنوں اور احتجاجوں کے بجائے ترقی اور خوشحالی کا پیغام ملتا ہو اور جن کے ذریعے یہ ملک انتشار اور اضطراب کی کیفیت سے باہر نکل آئے۔