آپ گھر میں درجن بھر خدمت گزار اور خانسامے رکھ لیں‘ انہیں ماہانہ دس لاکھ روپے تنخواہ دے دیں تو وہ بھی کبھی نہ کبھی چھٹی کر لیں گے لیکن قدرت کا عجیب کھیل ہے کہ ماں کو چھٹی تب ملتی ہے جس دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوتی ہے۔
ہر انسان کی اپنی اپنی خواہشیں ہیں۔ کوئی اربوں روپوں‘ عالیشان بنگلے اور قیمتی گاڑی کو سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہے‘ کوئی شہرت کے ذریعے دنیا پر راج کرنے کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی کسی ادارے کے سب سے اعلیٰ عہدے یا کاروبار کے عروج کو ہی سب سے بڑی اچیومنٹ سمجھتا ہے لیکن یہ سارے بنگلے‘ گاڑیاں‘ شہرت‘ کاروبار اور یہ ساری خوشیاں اکٹھی ہو جائیں تب بھی ماں کی اس ایک نظر کے سامنے ہیچ ہیں‘ جو وہ پیار سے دن کے کسی لمحے میں اپنے بچے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس نظر میں اتنی طاقت‘ اتنی کشش اور اتنی راحت ہوتی ہے کہ انسان خود کو ہلکا پھلا‘ پُرسکون اور غموں‘ دبائو اور مصیبتوں کے ہوتے ہوئے بھی خوش محسوس کرتا ہے۔ آپ پیسوں سے دنیا بھر کی چیزیں اور آسائشیں خرید سکتے ہیں لیکن صحت اور والدین کا پیار نہیں پا سکتے۔ آپ ماہر ترین ڈاکٹر اور پرائیوٹ ہسپتال تک خرید سکتے ہیں لیکن صحت خدا کی مرضی سے ہی ملے گی۔ اسی طرح والدین ایک مرتبہ ساتھ چھوڑ جائیں تو پھر آپ کو وہ پیار کہیں سے بھی نہیں مل سکتا جس کی قدر ہم اس وقت نہیں کرتے جب وہ ہمیں مل رہا ہوتا ہے لیکن ہم دوسری مصروفیات میں مگن ہوتے ہیں۔ صبح ہوتی ہے‘ ہم سکول، کالج یا نوکری کیلئے نکلتے ہیں‘ تو ماں ہمارے اٹھنے سے کئی گھنٹے پہلے جاگ کر ہمارے کھانے‘ پینے اور پہناوے کی تیاریوں میں لگ چکی ہوتی ہے۔ کسی کو فرائی انڈا‘ کسی کو آملیٹ تو کسی کو آلو والا پراٹھا پسند ہوتا ہے‘ یہ سب صبح صبح جادو کی طرح ناشتے کی ٹیبل پر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی موجود ہوتا ہے۔ یہ ماں اور بچوں کے درمیان قدرت کی ودیعت کردہ خاص الفت کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے چھ سال قبل‘ آج ہی کے دن آٹھ مئی کو جب میری والدہ نے ہسپتال میں آخری ہچکی لی تھی تو میں ان کی میت کے سرہانے کھڑا ان کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید وہ کہہ رہی تھیں کہ رات کا کھانا وقت پر کھا لینا وگرنہ کھانا ہضم نہیں ہو گا اور معدہ پھر سے خراب ہو جائے گا۔ میرے پوتوں سے کہنا ناشتہ کر کے سکول جائیں وگرنہ خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہو گی‘ سر دردکرے گا۔ مجھے لگا‘ وہ کہہ رہی تھیں کہ بیٹا کھڑے کھڑے تھک جائو گے، قریب ہی بینچ پڑا ہے اس پر بیٹھ جائو، آرام کرو۔ میں تو جا چکی ہوں تم اپنا خیال رکھنا۔ مجھے لگا جیسے انہیں اب بھی میری فکر ہے۔ میں سوچنے لگا کہ میں ان کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ چارپائی کو کندھا دے سکتا ہوں۔ گھر سے قبرستان تک میں نے کسی کو اپنی جگہ نہیں لینے دی۔ شاید یہ آخری مشقت تھی جو میں ان کیلئے کر سکتا تھا۔ لحد میں اتارا تو یوں لگا جیسے اپنے وجود کو قبر میں اتار دیا ہے۔ قبرستان سے واپسی پر یوں لگا جیسے جسم تو ساتھ ہے لیکن روح نہیں۔
بچپن سے لے کر آخری وقت تک‘ جس نے کبھی کوئی وعدہ نہ توڑا ہو‘ کبھی آپ کا دل نہ دکھایا ہو اور آپ کی تربیت کیلئے اپنی جان لگا دی ہو‘ وہ شخص دنیا سے چلا جائے تو اس سے بڑا دُکھ اور کیا ہو گا۔ ہم لوگ مگر تب تک نہیں سمجھتے جب تک خود والدین نہیں بن جاتے۔ ایک بیٹے کیلئے سب سے بڑی خواہش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو جائے‘ ان کی صحت اور ضروریات کا مکمل خیال رکھے اور ان کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرے۔ ہم مگر اور چیزوں میں مگن رہتے ہیں۔
ماں کا رشتہ بھی بڑا عجیب ہے۔ نہ کوئی لالچ نہ کوئی تمنا۔ میں حیران ہوتا ہوں‘ مائوں کے ہوتے ہوئے لوگ بوریت دور کرنے کے بہانے کیوں ڈھونڈتے ہیں۔ خدا کے بندو! کیا تمہارے لئے یہی کافی نہیں کہ گھر میں ماں‘ ایک ولی‘ تمہاری جنت موجود ہے اور تم اس سے فیض لینے کے بجائے سڑکوں‘ گلیوں کی خاک چھانتے ہو‘ ریسٹورٹنس اور کھانوں کی تلاش کے لئے نکلتے ہو‘ سوشلائزنگ کے نام پر نئے دوست بناتے ہو جبکہ ماں سامنے بیٹھی ہوتی ہے اور تم موبائل فون سے چمٹ کر ان قیمتی لمحات کو خاک میں ملا رہے ہوتے ہو جن لمحات کے لئے بعد میں تم دن رات ترستے ہو‘ دھاڑیں مار مار کر روتے ہو اور ماں کے دوپٹے کو چوم چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہو‘ اس ماں کے ہوتے ہوئے نہ تم اسے کچھ سمجھتے ہو‘ نہ پاس بیٹھتے ہو‘ نہ آتے جاتے سلام کرتے ہو اور نہ اپنے رازوں اور فیصلوں میں شریک کرتے ہو۔ کیا تمہارے لئے یہی کافی نہیں کہ دنیا کی قیمتی ترین متاع تمہارے پاس ہے۔
قرآن نے والدین کے سامنے اُف کہنا یا جھنجلاہٹ کا اظہار کرنا گناہ قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے والدین کی طرف عقیدت بھری نظروں سے دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم والدین کی قدر نہیں کر پاتے۔ شاید اس وقت ہمیں یہ لگتا ہے کہ والدین ہمیشہ رہیں گے یا والدین کسی بات کا برا نہیں مناتے۔ شاید خدا نے ماں باپ کو ایسی صلاحیت دی ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے اولاد کے لگائے گئے زخم‘ زخم نہیں لگتے۔ بیٹا یا بیٹی معافی مانگ لے تب بھی اور نہ مانگے تب بھی‘ ماں باپ انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک بدنصیب نے اپنی اسّی سالہ معمر والدہ کو اتنا مارا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں ٹوٹ گئیں‘ سر پھٹ گیا لیکن جب پولیس نے خاتون سے بیان لیا کہ آپ اپنے بیٹے (ملزم) کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں تو ماں نے صاف انکار کر دیا۔ کہا: میرے بیٹے کو کچھ نہ کہا جائے‘ چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘ میں اسے معاف کرتی ہوں۔
ماں رخصت ہو جائے تو گھر ہی نہیں پوری دنیا قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتی ہے۔ جب بھی کوئی خوشی‘ کوئی ترقی یا بچوں کی کوئی کامیابی ملتی ہے دل چاہتا ہے فوراً جا کر ماں کو سنائی جائے، پھر جب خیال آتا ہے کہ ماں تو ہے نہیں تو خوشی ادھوری رہ جاتی ہے۔ مائوں کا عالمی دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ میری طرح جن کی مائیں ان دنوں میں رخصت ہوئیں ان کیلئے یہ دن بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ جن کی مائیں حیات ہیں‘ انہیں چاہیے کہ انہیں وقت دیا کریں‘ چھٹی کا دن ان کے پاس گزارا کریں‘ ان کی ادویات و خوراک کا خصوصی خیال رکھیں‘ بزرگوں کو تازہ ہوا اور دھوپ پسند ہوتی ہے۔ ہر چھ ماہ یا سال بعد ضروری بلڈ ٹیسٹ کراتے رہیں۔ ان کے بستر کو آرام دہ بنائیں‘ ان کے جوتے اس انداز میں جوڑ کر رکھیں کہ جب وہ بستر سے اتریں تو انہیں پائوں ڈالنے کے لئے سیدھے یا تلاش نہ کرنا پڑیں۔ ان کے سرہانے پانی اور ادویات رکھیں اور ساتھ میں ایک بیل بٹن اور موبائل فون بھی تاکہ انہیں آپ کوبلانے میں آسانی ہو۔ انہیں ان کے عزیزوں اور پرانے دوستوں سے ملواتے رہیں۔ اونچ نیچ سبھی سے ہوتی ہے لیکن اس کے بعد والدین سے معافی ضرور مانگ لیں۔ زندگی میں نہیں مانگ سکے تو بعد میں ان کیلئے دعا کریں‘ ان کی قبر پر اپنے بچوں کو ساتھ لے کر باقاعدگی سے جائیں تاکہ آپ کے بچے بھی آپ کو یاد رکھیں۔ ماں کے بعد اس کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعائیں کریں‘ جی بھر کے صدقات دیں اور پانی کا نلکا یا کولر لگوائیں تاکہ انہیں ثواب پہنچتا رہے۔ پیارے نبیﷺ نے ماں کا رتبہ باپ سے تین گنا زیادہ بتایا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ باپ تو پھر آرام کر لیتا ہے لیکن ماں ایک تو حمل کے کٹھن مرحلے سے گزرتی ہے اور دوسرا وہ چوبیس گھنٹے میں بچوں اور گھر کی فکروں کی وجہ سے چند منٹ ہی ٹھیک سے آرام کر پاتی ہے۔جانا تو سبھی نے ہے لیکن ماں کی زندگی میں ہی جتنا زیادہ اور اچھا وقت ساتھ بیت جائے‘ اتنا ہی انسان بعد میں پُرسکون رہتا ہے کیونکہ زندگی میں آگے چل کر سب کچھ مل جاتا ہے لیکن مائیں دوبارہ نہیں ملتیں!