ہم مسلمان ہیں۔ ہم ڈیڑھ ارب سے زائد ہیں‘ ہم تیل اور معدنیات سے مالا مال بھی ہیں‘ اس کے باوجود ہم دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم بھی ہیں۔ ٹی وی دیکھیں‘ اخبارات اٹھا لیں یا انٹرنیٹ پر چلے جائیں‘ فلسطینی بچوں کی لاشیں دیکھ کر سانسیں رک جاتی ہیں اور دماغ مائوف ہو جاتا ہے۔ اسرائیل کو کوئی روکتا کیوں نہیں‘ ہمارا قصور کیا ہے‘ ہمیں کیڑے مکوڑوں کی طرح کیوں مارا جا رہا ہے؟ یہ خیالات اور یہ جذبات ہر اس مسلمان کے ہیں جس نے گزشتہ دنوں اسرائیل کے کسی حملے کی وڈیو دیکھی‘ خبر پڑھی یا سنی ہے۔ ہر کوئی اشکبار ہے‘ اندر ہی اندر گھل رہا ہے‘ جب کچھ کر نہیں پاتا تو پھر نفسیاتی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔
''غزہ پر اسرائیل کے حملوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے‘‘ یہ وہ زیادہ سے زیادہ ردعمل ہے جو ہم اور ہمارے مسلمان ممالک دے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کریں بھی کیا‘ زیادہ سے زیادہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مذمتی قرارداد آ جاتی ہے۔ پانچ چھ سال قبل بھی اسرائیل نے فلسطین پر ایسی ہی قیامت ڈھائی تھی جس میں اڑھائی ہزار فلسطینی شہید ہو گئے تھے جبکہ چند سو اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت بھی یہی کچھ ہوا جو آج ہو رہا ہے۔ احتجاج‘ جلوس اور جلسے۔ بیانات‘ تقریریں اور قراردادیں۔ پاکستان جیسا ملک جہاں ہر کوئی مذہب کے نام پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے بظاہر تیار نظر آتا ہے‘ وہاں سوشل میڈیا پر تو ''جہاد‘‘ جاری ہے لیکن پاکستان میں اسرائیل کے خلاف جلوس لندن‘ پیرس اور دیگر 'غیر مسلم‘ ملکوں میں نکالے جانے والے جلوسوں کے کئی دن بعد جا کر نظر آئے۔ ان جلوسوں کیلئے ایک تھکا ہوا بینر تیار کرایا جاتا ہے جس پر اسرائیل کے خلاف نعرے تو چھوٹے فونٹ سائز میں لکھے ہوتے ہیں لیکن منجانب کے نیچے سیاسی یا مذہبی جماعت کا نام جلی حروف میں لکھا جاتا ہے تاکہ اخبار میں شائع ہو کر یا ٹی وی کی سکرین پہ واضح نظر آ سکے۔ کسی تحصیل یا دیہات کے کسی چوک میں ہونے والے ایسے احتجاج سے اگر اسرائیل فتح ہو سکتا ہے یا دبائو میں آ سکتا ہوتا تو کب کا آ چکا ہوتا۔ وہ تو اقوام متحدہ اور دنیا کے جدید ممالک کو بھی گھاس نہیں ڈال رہا۔ اِدھر ہم ہیں کہ سوشل میڈیا پر بعض ناہنجار اس موقع کو بھی ریٹنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور ایسی وڈیوز پھیلا رہے ہیں کہ حماس کے جو میزائل اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کا حصار توڑنے میں کامیاب ہوئے‘ وہ پاکستان کے نصر میزائل تھے جو پاکستان نے ہی دیے تھے۔ اس قسم کی خبروں سے لوگوں کے جذبات سے کھیلا تو جا سکتا ہے لیکن مسلم دنیا کا قد اونچا نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اور کچھ نہ ہو تو آ جا کے تان بائیکاٹ پر ٹوٹتی ہے۔ اسرائیل کی مصنوعات کے استعمال اور خریدو فروخت کے خلاف ایک عارضی لہر چلتی ہے اور جب معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے تو وہی ''ممنوعہ‘‘ مال حلال ہو جاتا ہے۔ یہودیوں کی کس کس چیز کا بائیکاٹ عملی طور پر کیا جا سکتا ہے؟ آج ہم سوائے دنیا کو بدھو بنانے کے اور کچھ نہیں کر رہے اور جو ہماری زندگی بچانے کی ادویات سے لے کر موبائل فون اور سافٹ ویئرز تک بنا رہے ہیں‘ جو فائیور سے لے کر یو ایس بی ڈرائیو تک بناتے ہیں اور جنہیں ہمارا بچہ بچہ استعمال کر رہا ہے‘ ایک موسم آتا ہے کہ ہم انہی چیزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ دیر بعد ہی خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ شاید روزِ آخر تک یا شاید تب تک جب تک ہمیں ہوش نہیں آ جاتا‘ ہم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے جو بظاہر ناممکن سا نظر آتا ہے۔ ہم ہر رات جذبات اور احتجاج کے ذریعے دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور ناکامی کے بعد پرانی ڈگر پر چلنے لگ جاتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے چھوٹا کیمرہ اسرائیل نے ایجاد کیا ہے۔ یہ کیمرہ سیلفیاں لینے یا خفیہ نگرانی کیلئے نہیں بلکہ معدے اور دیگر اعضا میں ایک نالی کے آگے لگا کر داخل کیا جاتا ہے تاکہ سرجنز کو آپریشنز کرنے میں آسانی ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس ایک ایجاد کی وجہ سے روزانہ دنیا میں ہونے والے لاکھوں آپریشنز سو فیصد کامیاب ہو رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹر آپریشن کرنے کے دوران سارا عمل براہ راست کمپیوٹر سکرین پر دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی باریکی اور بیماری بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ جن مریضوں کو رعشے کی بیماری ہوتی ہے‘ ان کا جسم تکلیف دہ جھٹکوں کی زد میں رہتا ہے ۔ یہ جھٹکے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ انسان مر سکتا ہے نہ جی پاتا ہے۔ پارکنسن میں مبتلا افراد کے جسم کو پُرسکون رکھنے کے لئے ایزلیکیٹ نامی دوا اسرائیل نے ایجاد کی تھی۔ فزکس‘ کیمسٹری‘ طب‘ ٹیکنالوجی‘ معیشت سمیت درجنوں شعبوں کو کرید لیں‘ آپ کو صف اول کی ایجادات انہی اسرائیلیوں‘ انہی یہودیوں کی دکھائی دیں گی۔ آج ہم انہی کی بنائی گئی اشیا استعمال کر رہے ہیں‘ انہی کے ذریعے صحت یاب ہو رہے ہیں اور فائیور جیسے انہی پلیٹ فارمز کے ذریعے گھر بیٹھے ڈالرز کما رہے ہیں؛ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ایجادات کر کے اسرائیل کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ جب چاہے‘ جہاں چاہے میزائل داغ دے‘ معصوم ننھے بچوں کے چیتھڑے اڑا دے اور جتنی چاہے عمارتیں نشانہ لگا کر زمین بوس کر دے؟ نہیں! اسرائیل کو یہ حق بالکل بھی نہیں حاصل ہو سکتا کہ وہ معصوم انسانوں کی جانوں سے کھیلے‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرے اور ان کے گھروں کو ان کی قبروں میں تبدیل کر دے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے‘ اگر اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس طرح کا طرزِ عمل اپنائے تو ہم مسلمانوں کو یہ حق کیسے حاصل ہوتا ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ ہمارے خلیجی ممالک امریکا کی غلامی میں یوں بندھ جائیں کہ اسرائیل کے آگے چوں بھی نہ کر سکیں‘ وہ ڈیڑھ کروڑ ہو کر بھی امریکا سمیت دنیا کے اربوں انسانوں کی ضرورت بن جائیں‘ ان کے لئے جان بچانے کی دوائیں اور آلات بنائیں اور ہم دو ارب ہو کر بھی سیلفیاں لیتے ہوئے ٹرین کے نیچے آ کر مرتے رہیں‘ خاکے فرانس میں شائع ہوں اور ہم اپنے ہی ملک کو آگ لگاتے رہیں‘ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر ہم مختلف فرقوں کی چار مساجد تو بنا دیں لیکن ان مساجد میں پہلی صفیں بھی نہ بھر پائیں‘ سوائے جلوس اور احتجاج کے ہم کوئی چیز ایجاد نہ کر سکیں اور تو اور‘ ہمیں جائے نمازیں‘ ٹوپیاں اور تسبیحیں بھی چین سے منگوانا پڑیں‘ اس کے باوجود امید رکھیں کہ اللہ ہمارا ساتھ دے گا‘ وہ اس ملک کو خاک میں ملا دے گا جہاں سے ایجادات کے سوتے پھوٹتے ہیں‘ وہ اس قوم کو برباد کر دے گا جو ایک فیصد ہو کر ننانوے فیصد کی خدمت میں لگی ہوئی ہے‘ ان کی جان بچا رہی ہے اور ان ممالک کو بام عروج دے جہاں مسلمان مذہب‘ سیاست اور معیشت کے بنام آئے روز دوسرے مسلمان کا گلا کاٹتے ہیں‘تو ہمیں اپنا موبائل آف کر کے اور سر سرہانے میں دے کر سو جانا چاہیے‘ کیونکہ خواب دیکھنے‘ طعنے دینے اور کوسنے سے اگر کوئی قوم ترقی کر سکتی تو ہم کب کے فاتح بن چکے ہوتے اورہم محکوم کے بجائے حاکم بن کر دنیا پر راج کر رہے ہوتے۔
ہم اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ کسی گائوں کا چودھری وہی ہوتا ہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اور اس چودھری کے قریب بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس زمین‘ ڈنگر‘ مال اور اثر و رسوخ ہوتا ہے‘ باقی سب عام مزارع‘ مسکین اور کمی کمین ہوتے ہیں‘ جنہیں چودھری جب چاہے ڈیرے پر بلا کر چھترول کرتا ہے، معافیاں منگواتا ہے اور ساتھ ہی ان پر پرچے بھی کراتا ہے۔ ہماری حقیقت بھی ایسی ہی ہے‘ باقی دل کو تسلی دینی ہے تو ایسی جھوٹی خبریں بہت پھیل رہی ہیں‘ انہیں سن کر سکون سے سو جائیں کہ جن میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل پر اتنے میزائل گر چکے ہیں ‘ اس کا مالی و جانی نقصان اس قدر ہو چکا کہ وہ بس گھٹنے ٹیکنے کو ہے اور ہمارے صبح اٹھنے تک وہ نیست و نابود ہو چکا ہو گا۔