والدین کے لئے بچوں کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ان کی کیریئر پلاننگ ہے۔ بڑے ہو کر انہیں کیا بننا چاہیے‘ اس بارے میں بہتر رہنمائی بروقت مل جائے تو بچوں کی زندگی بن جاتی ہے۔ کچھ بچے خودرو پودوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا ٹیلنٹ بہت جلد سامنے آ جاتا ہے ‘اس لئے انہیں اپنی پسندیدہ فیلڈ میں جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی؛ تاہم زیادہ تر بچے ایسے ہوتے ہیں جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس فیلڈ کا انتخاب کریں اور کون سا کیریئر اپنائیں۔ ہمارے ہاں عموماً کیریئر کو بہترین تنخواہ اور مراعات سے مشروط کیا جاتا ہے مثلاً ہم اپنے بچوں کو اس پروفیشن میں بھیجنا چاہتے ہیں جس میں تنخواہ زیادہ ملتی ہو۔ یہ سوچ کر ہمارے ذہن میں جو ابتدائی دو تین شعبے آتے ہیں وہ ڈاکٹریا انجینئر کے ہیں۔ ان فیلڈز میں ٹرائی کرانے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو وہ لائن بدلتا ہے اور تب تک بدلتا رہتا ہے جب تک وہ کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو جاتا۔ ہمارے اذہان میں یہ تاثر ابھی تک قائم ہے کہ بچہ ماسٹرز کی ڈگری لے آئے گا تو اسے کوئی نہ کوئی نوکری ضرور مل جائے گی‘ چاہے اس نے ماسٹرز انتہائی بے دلی اور کم نمبروں میں ہی کیوں نہ پاس کیا ہو۔ ایسا تیس چالیس اور پچاس برس پہلے تک تو ہوتا ہو گا مگر آج نہیں۔ ہم آئے روز ایسی وڈیوز دیکھتے ہیں جن میں کوئی شخص تین تین چار چار ڈگریاں کر چکا ہوتا ہے لیکن وہ کہیں نان چنے کی ریڑھی لگا کر بیٹھا ہے تو کوئی فوڈ رائیڈر بن کر دو وقت کی روٹی کمانے کی جستجو میں ہے۔اگر ڈگری حاصل کرنا ہی سب کچھ ہوتا تو اس شخص کو تین گنا تنخواہ کے ساتھ نوکری پر رکھ لیا جاتا کیونکہ اس نے تین ڈگریاں لی تھیں۔
بے روزگاری کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے‘ کہیں زیادہ کہیں کم! پھر کورونا کے بعد تو یہ انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔اس لیے اب کورونا کے بعد کا دور انتہائی احتیاط اور سمجھ بوجھ کا متقاضی ہے۔ کورونا ایسا طوفان تھا جو اب کچھ تھمتا دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ اپنے پیچھے لاتعداد اسباق اور کہانیاں چھوڑ رہا ہے۔ ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ کیریئر پلاننگ کرنا آج کے دور میں آسان اس لیے ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا بھر کی تازہ ترین معلومات انتہائی ارزاں میسر ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان کی خاتونِ اول نے پنجاب کے نوجوانوں کے لیے رہنمائی پورٹل کا افتتاح کیا جو کیریئر پلاننگ کی ہی ایک کڑی ہے۔اس پورٹل پر نہ صرف تمام سرکاری یونیورسٹیز میں داخلوں‘ اہلیت‘سکالرشپ اور فیس وغیرہ کی معلومات دستیاب ہیں بلکہ اس کی خاص بات کیریئر کونسلنگ ہے جس کی مدد سے طلبہ و طالبات اپنے رجحان کے مطابق اپنے مضمون کا انتخاب کر سکتے ہیں اور آگے چل کر اپنے پسندیدہ پیشے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔طلبہ کونسلنگ کیلئے اپنی سہولت کے مطابق آن لائن اپائنٹمنٹ بھی لے سکتے ہیں جس کے بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن انہیں ان کے کیریئر کیلئے بہتر مضمون کے انتخاب میں مدد فراہم کرے گا۔ اس طرح کے پورٹلز طلبہ کے لئے خاصی آسانی پیدا کریں گے اور انہیں ایک مرکزی اور مستند پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے مستقبل کو سنوارنے میں آسانی ہو گی۔ اسی طرح حکومت کو بھی اس کا فائدہ ہو گا کہ اسے طلبہ کے رجحانات کا علم ہو گا اور اس کے مطابق پالیسی اور پلاننگ کرنے میں مدد ملے گی۔
مغربی ممالک میں طلبہ کو بچپن سے ہی اپنی فیلڈ منتخب کرنے میں آزادی حاصل ہوتی ہے۔سکولوں میں انہیں نہ ہی رٹا لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور نہ ہی زبردستی کوئی مضمون پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا اور ایسے جدید ممالک میں تو بچے بھاری بھر کم بستے تو کیا عام بستے بھی نہیں لے کر جاتے۔ ایک آدھ کتاب لے جاتے ہیں اور باقی سب سکول کی لیب‘ کمپیوٹر میں موجود ہوتا ہے۔ اکثر سکول تو بچوں کو گھر کا کام بھی نہیں دیتے اور والدین سے اس کی اجازت لیتے ہیں۔ اگر وہ راضی ہوں‘ تب بچوں کو گھر کیلئے کام ملتا ہے ۔وہاں طلبہ پر پچاس فیصد محنت ان کی تدریس اور پچاس فیصد توجہ ان کی صحت‘ پرسنیلٹی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر دی جاتی ہے۔نمبر گیم کا کوئی رواج نہیں۔ بس طلبہ سے اتنی توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کچھ مختلف کر کے دکھائیں۔ اس کی وجہ سے طلبہ میں صحت مند مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ انوویشن‘ جدت اور ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بچے کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جاتا ہے اور دوسرے پلڑے میں دو گنا کتابیں‘ ٹیوشنز اور توقعات ڈال دی جاتی ہیں ۔ یہ تو شکر ہے کہ موجودہ حکومت نے یکساں نصاب کیلئے جو وعدے کئے تھے وہ پورے کرنا شروع کر دیے ہیں ‘یکساں تعلیمی نصاب اس سال سے پڑھایا جائے گا ۔ نئی درسی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں اور ان میں نصاب کو بھی کافی بہتر کیا گیا ہے۔ پرانی نویں کی کمپیوٹر سائنس کی کتاب میں صرف اور صرف تھیوری تھی اور اس میں بھی ایسی چیزوں کے متعلق مضامین پڑھائے جا رہے تھے جن کا استعمال بھی بیس سال پہلے متروک ہو گیا تھا؛ مثلاً فلاپی ڈسک کیا ہوتی ہے‘ کس نے بنائی‘ کیسے کام کرتی ہے ۔ اب فلاپی ڈسک میوزیم میں تو مل سکتی ہے لیکن مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ نئی کتاب خاصی بہتر کر دی گئی ہے۔ اس میں پہلا باب پرابلم سولوِنگ یعنی مسئلے کا حل نکالنے سے متعلق ہے اور یقین مانیں انفارمیشن ٹیکنالوجی صرف ان دو چیزوں کو سمجھنے کا ہی نام ہے۔ جہاں کوئی مسئلہ آئے اس کا حل ٹیکنالوجی سے کیسے نکالا جائے‘ کیسے دنیا بھر میں لوگوں کی آسانی پیدا کی جائے‘ اسی کے باعث آج گوگل ‘ فیس بک‘ یوٹیوب‘وٹس ایپ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔
اب ایک نیا ٹرینڈ بھی شروع ہو رہا ہے اور وہ کمپیوٹر اور میڈیکل کا ملاپ ہے۔ اگرچہ اس پر کافی کام ہو رہا ہے لیکن اب اس میں تیزی آ رہی ہے۔ ہم یہ جو بلڈ ٹیسٹ وغیرہ کراتے ہیں اس بارے میں بھی بہت جلد خبر آنے والی ہے کہ یہ روایتی طریقہ متروک ہو جائے گا اور کوئی بھی انسان اپنے موبائل فون کو جسم پر سکین کرنے سے اپنے خون میں موجود سرخ‘ سفید خلیوں اور پلیٹ لیٹس کی تعداد وغیرہ معلوم کر سکے گا۔یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا تو پھر تمام قسم کے ٹیسٹ موبائل فون سے ہو جائیں گے اور روایتی لیبارٹریاں بھی ختم ہو جائیں گی اور یہ ایک دن ہو کر رہنا ہے۔ ماضی میں بھی بہت سے شعبے ختم ہو چکے ہیں۔ ایمزون جو دنیا کا سب سے بڑا آن لائن خرید و فروخت کا پلیٹ فارم ہے‘ پاکستان میں آ چکا ہے ‘ اس کے ویئر ہائوسز میں اب مصنوعی ذہانت پر بنائے گئے روبوٹس انسانوں کی طرح بھاگے پھرتے ہیں اور متعلقہ خانے سے ڈبہ اٹھا تے ہیں اور لا کر کوریئر والی گاڑی میں ڈال دیتے ہیں یا پھر کسی ڈرون کے حوالے کر دیتے ہیں جو اڑتا ہوا خریدار کے گھر پر جا کر ڈلیور کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ چین میں کئی برسوں سے شروع ہے اور وہاں فوڈ ڈلیوری کی یہ مقبول ترین قسم ہے۔لوگ پیزا آرڈر کرتے ہیں جس کے پندرہ بیس منٹ بعد ان کے ان کے موبائل فون پر پیغام آتا ہے کہ باہر تشریف لے آئیں‘ پیزا پہنچ چکا ہے۔ باہر دروازے پر ایک ڈرون چھ سات فٹ کی بلندی پر ہوا میں معلق ہوتا ہے۔ آپ آگے بڑھتے ہیں ‘ کوڈ کنفرم کرتے ہیں اور ڈرون آپ کا پیکٹ آپ کو تھما کر واپس اڑ جاتا ہے۔ آج سے تیس چالیس سال قبل جو شخص فوت ہو چکا ہو‘ وہ آج کے زمانے میں آ جائے تو یہ سب دیکھ کر حیران ہو جائے گا؛ تاہم دور یہ بھی نہیں رہے گا۔ آج سے بیس برس بعد چیزیں یکسر بدل جائیں گی۔ کیا ہو گا‘ یہ جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ اس کا اندازہ کیجئے اور آج سے نئی نسل کو اس دور سے مقابلے کیلئے تیار کیجئے تاکہ کل کو افسوس نہ کرنا پڑے۔اس کیلئے اب سرکاری اور نجی سطح پر کئی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل بن چکے ہیں‘ آپ خود بھی انہیں وزٹ کریں اور بچوں کو بھی ترغیب دیں‘ اس طرح ہم مستقبل کے چیلنجوں کا بہتر مقابلہ کر پائیں گے۔