پی ٹی آئی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ تھا جسے آزاد بجٹ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اسے آئی ایم ایف کی قدغنوں سے بچا کر بنایا گیا ہے، دوسرا‘ اسے ملک کے اکثر چیمبرز آف کامرس نے بھی متوازن قراردیا ہے۔ یوں تو بجٹ میں بہت سے ریلیف دیے گئے ہیں جن میں سرکاری ملازموں کیلئے تنخواہ اور پنشن میں دس فیصد اضافہ‘مقامی سطح پر چھوٹی گاڑیوں کی تیاری پر ڈیوٹی میں چھوٹ اوردفاعی بجٹ کو برقرار رکھنا شامل ہیں‘البتہ مقامی صنعت کو فروغ دینے کیلئے بھی بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں جن کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔پاکستان ان چند خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں کورونا کے باوجود معیشت میں بہتری پیدا ہوئی اور بہت سے شعبوں میں پیداوار کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے‘ حتیٰ کہ ٹیکس وصولیوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا جو ناقابلِ یقین ہے۔ملک میں بجلی کی سرپلس پیداوار ہے لیکن اس کے باوجود سستی بجلی کا حصول عوام کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کیلئے ہائیڈرل منصوبوں پر تیزی سے کام ہونا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے داسو ‘دیا میر بھاشا ڈیم اورمہمند ڈیم جیسے ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے خطیر رقم مختص کی ہے۔ یہ ڈیم فعال ہو گئے تو آئی پی پیز سے سستی بجلی پیدا کرسکیں گے۔
گزشتہ دنوں ٹرین کا جو خوفناک حادثہ پیش آیا‘ اس کی ایک وجہ ریلوے ٹریک کی خستہ حالی ہے؛ تاہم حکومت کراچی سے پشاور تک 1872کلومیٹر طویل ایم ایل ون ٹریک کو چین کے تعاون سے از سر نو تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس پر ساڑھے چھ ارب ڈالر کی لاگت اور آٹھ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ اگر یہ کام ہو گیا تو پاکستان میں ریلوے کی تاریخ بدل جائے گی کیونکہ فی الوقت یہ ٹریک کئی جگہ سے اس قدر خستہ حال ہے کہ ڈرائیورز حضرات کو سپیڈ پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ تک کم کرنا پڑتی ہے اور ایسا نہ کرنے سے حادثے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اس سال بجٹ میں ایم ایل ون منصوبے کیلئے نو ارب سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ یہ منصوبہ ملک گیر سفری سہولتوں کو آسان تر بنا سکتا ہے اس لئے اس پر کام تیزی سے ہوناچاہیے۔ایک اور اچھا کام ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دینا ہے۔ دیکھا جائے تو زراعت کی طرح یہ شعبہ بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتا ہے کہ ملک کے تقریباً سترہ کروڑ عوام موبائل فون استعمال کر رہے ہیں اور موبائل فون صرف کالز کیلئے ہی نہیں بلکہ درجنوں دیگر مقاصد کیلئے بھی کام آ رہا ہے جن میں رقم کی ترسیل‘تنخواہوں کی ادائیگی‘ٹیکسوں ‘ یوٹیلیٹی بلز اور جرمانو ں کی ادائیگی بھی شامل ہیں، یہ سب کام بھی اب اسی موبائل فون سے ہو رہے ہیں۔ اگرچہ موبائل انٹرنیٹ پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے لیکن وزیر خزانہ کے مطابق‘ وزیراعظم عمران خان نے اس کی منظوری نہیں دی۔ سپیشل اکنامک زونز انٹرپرائززکو کم از کم ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے جس سے اکنامک ایکٹویٹی بڑھے گی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔
پاکستان کے قیام سے عوام کا مطالبہ رہا ہے کہ انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں ۔اس پر باتیں تو بہت ہوئیں‘ تجاویز بھی آئیں‘ کمیٹیاں بھی بنیں لیکن بات نہ بن سکی۔موجودہ بجٹ کی سب سے خاص بات چھوٹے کاروبار کے لیے پانچ لاکھ روپے تک کے بلا سود قرضوں کا اجرا ہے جس سے نہ صرف ملکی سطح پر عام آدمی کو ریلیف ملے گا بلکہ وہ حکومت کو دعائیں بھی دے گا کیونکہ غریب طبقہ اگر سود پر ایک لاکھ روپے کا قرض بھی لیتا ہے یا کوئی موٹر سائیکل یا واشنگ مشین قرض پر لیتا ہے تو ساری عمر اس پر سود دیتا دیتا تھک جاتا ہے لیکن اصل قرض وہیں کا وہیں باقی رہتا ہے، حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہو جائے تب بھی سود خور لواحقین کو اس کی لاش دفنانے کی اجازت نہیں دیتے جب تک انہیں بقایا جات ادا نہ کر دیے جائیں جو اصل رقم سے دس گنا ہو چکے ہوتے ہیں۔بلاسود قرضوں کی یہ سکیم دراصل اخوت کی تھی جس کے وفاقی حکومت کے ساتھ اشتراک کی بدولت عوام کو سکھ کا سانس ملے گا اور اس کا سہرااس کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو جاتا ہے جو بیس برس قبل اس مشن کو لے کر چلے تھے اور بالآخر اسے ملک گیر سطح پر لاگو کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔قرضے کی اس رقم کی حد کو بڑھانا ان کا اگلا ٹارگٹ ہے۔ پانچ لاکھ روپے کی رقم سے چھوٹے کاروبار تو شروع ہو سکتے ہیں لیکن گھروں کی تعمیر کیلئے یہ رقم ناکافی ہے۔ بیس لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے اگر گھر بنانے کے لئے چھوٹے طبقے کو دیے جائیں تو وہ ایک منزلہ گھر بہ آسانی بنا کر رہ سکیں گے اور قرض کی رقم بھی بلاسود قسطوں کے ذریعے اتار دیں گے۔
آئی ایم ایف کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ نچوڑے اور ان کے ذریعے قرضوں اور سود کی اقساط پوری کی جائیں لیکن اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سٹینڈ لیا ہے اور تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ کورونا کی وجہ سے ویسے بھی تنخواہ دار طبقہ بہت زیادہ متاثر اور پریشان ہے‘ ایسے میں اگر بجٹ میں اس پر مزید ٹیکس لگا دیا جاتا تو اس کا کچومر ہی نکل جاتا۔ سب سے زیادہ درمیانہ طبقہ متاثر ہوتا کیونکہ یہ اپنے اخراجات اپنی آمدن اور اپنی استطاعت سے بڑھا لیتا ہے اور جب اس کے مالی حالات کمزور پڑ جائیں تو یہ اس قابل بھی نہیں ہو پاتا کہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں ڈال دے یا پھر کولر کی جگہ پنکھوں پر گزارہ کر سکے۔ یہ نہ اوپر کا رہتا ہے نہ نیچے کا۔ غریب تو اس ماحول کے عادی ہوتے ہیں جبکہ امیر طبقے کو مہنگائی سے فرق نہیں پڑتا‘ اس لئے یہ ریلیف اس بجٹ کا دوسرا سب سے بڑا ریلیف کہا جا سکتا ہے۔
صحت‘ تعلیم‘ معاشی ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ایک سو اٹھارہ ارب رکھے گئے ہیں۔ اس رقم کا مناسب حصہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے رکھنے کا مقصد کرۂ ارض کو ان مسائل سے بچانا ہے جن کا نشانہ دنیا کے تمام بڑے ممالک بن رہے ہیں اور پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ پانچ ممالک میں شامل ہے۔ پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن تھا اور پاکستان نے پہلی مرتبہ اس حوالے سے عالمی کانفرنس کی میزبانی کی۔اس کی وجہ پی ٹی آئی حکومت کا بلین ٹری منصوبہ اور دیگر اقدامات ہیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ وزیراعظم عمران خان عالمی توجہ حاصل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اس لئے اس کانفرنس کی میزبانی کیلئے انہوں نے خاص تیاری کی اور اہم عالمی شخصیات نے اس موقع پر اپنے پیغام جاری کیے اور پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔شکر ہے کہ ماحولیات کو بھی پاکستان میں توجہ حاصل ہوئی ہے۔ یہ ایشو جدید ممالک کی پانچ بڑی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے ۔ پانی کی کمی‘آبی حیات کی بقا‘ زراعت کیلئے پانی کی ضرورت اور اس سے متعلقہ مسائل کا فوری ادراک کر لیا گیا تو آئندہ برسوں میں قحط اور زمینوں کے بنجر ہونے جیسے مسائل سے ہم بچ سکیں گے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو بلا شبہ ماضی کی حکومتوں کا چھوڑا ہوا ایک بہت بڑا بوجھ بیرونی قرضوں کی صورت میں ملا جسے اتارنے کیلئے بھی بہت پیسہ چاہیے؛تاہم حکومت نے ٹیکس دہندگان کے بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ایک اچھی خبر گزشتہ دنوں جی ڈی پی گروتھ سے متعلقہ ملی۔ہر سال جہاں اہم شعبوں کیلئے ریلیف دیکھنے کو مل رہا ہے وہاں جی ڈی پی گروتھ بھی چار فیصد سے تجاوز کر گئی جس پر خوشی اور حیرانی کا ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان اقدامات میں تسلسل آ گیا اور اگلے دو سال یہ شرح برقرار رہی یا مزید بڑھ گئی تو اس کے غیر معمولی اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔حکومت جتنا بھی پیسہ اکٹھا کرتی ہے اس کا بڑا حصہ ماضی کی ادائیگیوں میں نکل جاتا ہے؛ تاہم ایسے مسائل کے باوجود فی کس آمدنی میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان میں روزگار کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور اس کا بڑا حصہ زرمبادلہ کی صورت میں آ رہا ہے۔ کورونا میں کمی اور بجٹ کے ان حوصلہ افزا اقدامات کے باعث امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے چند برسوں میں حالات بہتر ہوں گے اور عام آدمی کیلئے مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب میں کمی واقع ہو گی۔