چند ماہ قبل گوادر کرکٹ سٹیڈیم کی ایک تصویر بہت وائرل ہوئی تھی۔ پہاڑوں میں گھرے اس خوبصورت سٹیڈیم کو عالمی میڈیا میں بھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور بہت سے چینلز اور وی لاگرز نے اس پر ڈاکومینٹریز بھی بنائی تھیں۔ اس تصویر کو دیکھنے کے بعد ایسے لوگ جو گوادر کی بندرگاہ اور گوادر فری زون کو صرف ایک خواب سمجھتے تھے‘ انہیں بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ گوادر میں واقعی اس حد تک کام ہو چکا ہے۔ زمینی حقائق دیکھیں تو گوادر کہیں زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں جتنا بھی کام ہو رہا ہے اس سے نہ صرف بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی خطے میں اہمیت مزید بڑھ رہی ہے۔ سی پیک بھارت کی آنکھ میں شہتیر کی طرح چبھتا ہے‘ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی بھی طرح تجارتی سامان کی ترسیل کیلئے کوئی اہم سنگ میل حاصل کرے اور خاص طور پر چین اور پاکستان کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات بھی اس کا ہاضمہ خراب کیے ہوئے ہیں؛ تاہم ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود گوادر پورٹ اور فری زون نہ صرف ایکٹو ہو چکا ہے بلکہ اس سے سالانہ دس ارب کی معاشی سرگرمیاں بھی متوقع ہیں۔ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے گزشتہ دنوں ایک بریفنگ میں پورٹ اور فری زون کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا کہ کس طرح یہاں ہزاروں نوکریاں لوگوں کو مل چکی ہیں‘ سامان لے کر تواتر کے ساتھ بڑے بحری جہازوں کی آمد جاری ہے‘ ہسپتال‘ تکنیکی اور ووکیشنل تربیتی ادارے اور سڑکیں بن چکے ہیں اور ایک نئی دنیا آباد ہو چکی ہے اور یہ سب بنیادی طور پر چین اور پاکستان کے مشترکہ تعاون کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
گوادر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر بنیادی چیلنج تھا کیونکہ دور دراز کے مقامات تک پانی‘ بجلی‘ گیس‘ سڑکیں اور دیگر سپلائی لائن جب تک مکمل نہیں ہو جاتی وہاں پر زندگی کی رونقیں اور کاروباری سرگرمیاں شروع نہیں کی جا سکتیں۔ تعمیری ڈھانچے کو بچھانے کی ذمہ داری چائنا پورٹ ہولڈنگ کمپنی کو دی گئی جس نے تیس کروڑکی لاگت سے انفراسٹرکچر کام مکمل کر لیا جس کے بعد اب تعمیری اور تجارتی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔ گوادر پورٹ فنکشنل ہونے کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں 67 میٹرک ٹن کارگو سامان یہاں آ چکا ہے۔ یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کارگو تھا اور یہیں سے ہینڈل ہوا۔ اسی طرح ایک خبر کے مطابق آٹھ ہزار کیوبک فٹ کا بڑا ایل پی جی کا تجارتی بحری جہاز آ رہا ہے۔ آسٹریلیا سے بھی جہاز آ رہے ہیں۔ یوں ایک مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور اب اگلا مرحلہ یہاں کی ٹریفک کو بڑھانا ہے۔ گوادر پورٹ اس قابل ہو چکا ہے کہ یہ بڑی تعداد میں بحری جہازوں کی آمد اور سامان کی ترسیل وغیرہ کی ہینڈلنگ کر سکتا ہے۔ جس طرح کراچی پورٹ پر بحری راستے سے آنے والے سامان مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور اس کی کلیئرنس کیلئے کراچی پورٹ پر محکمہ کسٹم سمیت دیگر اداروں کے دفاتر اور سیٹ اپس قائم ہیں‘ بالکل اسی طرز پر گوادر پورٹ پر بھی کسٹم کا سیٹ اَپ موجود ہے جو فعال ہے اور اپنا کام معمول کے مطابق سرانجام دے رہا ہے۔ پورٹس پر دوسری بڑی ضرورت لاجسٹکس کی ہوتی ہے یعنی جو سامان پہنچ گیا اس کی ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں میں ترسیل کیلئے لاجسٹکس کمپنیاں اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔گوادر پورٹ پر تمام اہم اور بڑی لاجسٹکس کمپنیاں اپنے دفاتر قائم کر چکی ہیں۔ آن لائن بکنگ کا عمل بھی شروع ہے جس سے چیزوں کی ہینڈلنگ اور لاجسٹکس آسان ہو جائے گی۔
گوادر پورٹ فری زون کا منصوبہ بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں جو صنعتیں اور فیکٹریاں لگیں گی‘ ان سے معیشت میں اٹھان اور روزگار کی فراہمی ممکن ہو گی اور پاکستان کا امپورٹ بل کم ہو جائے گا۔ ایکسپورٹ بڑھنے سے قرضے بھی کم ہوں گے اور زرمبادلہ بڑھے گا۔ جو لوگ اعلیٰ تعلیم میں ڈگریاں لے کر بیرونِ ملک نوکریوں کیلئے جاتے تھے اب وہ گوادر جانے کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ سب کچھ انہیں اپنے ملک میں حاصل ہو جائے گا جس کیلئے انہیں سمندر پار جانا پڑتا تھا۔ فری زون کے اس منصوبے کے تحت ساٹھ ایکڑ کا پہلا فیز مکمل ہو چکا ہے۔ معروف عالمی و ملکی کمپنیاں یہاں جگہ لے کر صنعتیں اور فیکٹریاں لگانے میں دلچسپی لے رہی ہیں اور اب تک لگنے والی بارہ فیکٹریوں میں سے چھ مکمل ہو چکی ہیں جبکہ میں سے تین فعال بھی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پچھلے اڑھائی تین سالوں میں فری زون پورٹ پر بارہ سو نوکریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ مقامی لوگوں کو روزگار ملنے سے نہ صرف ان کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں بلکہ ان کی اگلی نسلیں بھی اب اپنے علاقے میں اپنا نام و مقام پیدا کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد گوادر کا فری زون‘ جو نارتھ میں اکیس ایکڑ پر مشتمل ہو گا‘ اب اس کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس کا افتتاح عنقریب وزیراعظم عمران خان کریں گے۔ گوادر کو آباد کرنے کا ایک اہم مقصد سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔ اس مقصد کے لئے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے یہاں بھرپور دلچسپی لی۔ آہستہ آہستہ‘ جیسے جیسے کام مکمل ہو رہے ہیں‘ فیکٹریاں لگ رہی ہیں اور بحری جہازوں کی آمد بڑھ رہی ہے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عاصم باجوہ صاحب نے ایک سرمایہ کار کے بارے میں بتایا کہ وہ تنہا سولہ ایکڑ جگہ لینے کا خواہش مند ہے جس پر تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں تیس ہزار سے زیادہ نوکریاں ایک جگہ سے پیدا ہوں گی۔ اس طرح کے مزید سرمایہ کار آ گئے تو پاکستان میں لوگوں کیلئے دیگر علاقوں سے گوادر جا کر کام کرنے کے مواقع بڑھیں گے ۔
گوادر شہر کی تعمیر اور ترقی بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ سامان کی زمینی ترسیل کے لئے ذرائع آمدورفت اور سڑکوں کی بہتری بھی ضروری ہے۔ گوادر شہر کو اس سارے منصوبے کے ساتھ اس طرح سے منسلک کیا جائے گا کہ شہر میں جائے بغیر سامان سے لدے ٹرک سیدھا ایکسپریس وے پر پہنچ جائیں تاکہ شہر میں ٹریفک کے مسائل سے بچا جا سکے۔ آخر میں سب سے اہم گوادر کا ایئرپورٹ ہے اس کا جدید ترین رن وے بھی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ بھی بن رہے ہیں‘ جن میں مردوں اور خواتین کی تربیت شروع ہو جائے گی اور وہ مقامی سطح پر معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہاں پر جس طرح کے کارخانے لگ رہے ہیں ان کو چلانے کیلئے ماہر تربیت یافتہ فورس درکار ہے۔ چینی صدر نے پاکستانی عوام کیلئے سو بیڈز کا ہسپتال کا عطیہ کیا ہے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو گوادر کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری یا رہائش کی غرض رکھتے ہیں ان کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ گوادر سٹی کا ماسٹر پلان منظور ہو چکا ہے جبکہ زراعت کو فروغ دینے کیلئے بتیس ہزار ایکڑ پر جدید فارمنگ کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
ان سارے عوامل ‘اب تک کی کارکردگی اور حقائق کو دیکھیں تو گوادر پاکستان کیلئے ایک زبردست بریک تھرو دکھائی دے رہا ہے۔ سی پیک دنیا میں ایک گیم چینجر ثابت ہو گا اورجس طرح سے گوادر میں کام جاری ہے یہ دنیا کا بہترین پورٹ سٹی بن جائے گا۔گوادر پورٹ اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ قدرتی پانی کی بندرگاہ ہے۔ یہاں ٹورازم کو پروموٹ کیا جائے تو عوام کو تفریح کے زبردست مواقع میسر آئیں گے۔ گوادر میں منصوبوں کو چونکہ ایک مربوط اور جدید انداز میں ڈیزائن کیا جا رہا ہے اس لئے سیروسیاحت کیلئے آنے والوں کو وہ تمام سہولتیں میسر ہو سکتی ہیں جو جدید ممالک میں دستیاب ہیں۔ گوادر کے خواب سے حقیقت بننے کے سفر میں پاکستانی عوام اور اداروں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ زراعت کے بعد سی پیک اور گوادر ایسے منصوبے پاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان منصوبوں کے باعث یہ علاقہ پوری دنیا کا مرکزِ نگاہ بن جائے گا۔