کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو سال میں کئی مرتبہ منائے جانے چاہئیں‘ ان میں سے ایک منشیات سے بچائو اور آگاہی کا دن ہے۔26جون کو انسدادِ منشیات کا عالمی دن منایا گیا مگر یہ مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اس پر ہر مہینے بھی ایک دن منایا جائے‘ تب بھی کم ہو گا۔ منشیات کا استعمال ماضی میں بعض مخصوص طبقات تک محدود تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا گیا۔ منشیات کے عالمی گروہوں اور مافیاز نے جب سے نوجوانوں اور تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا ہے‘ تب سے حالات انتہائی نازک اور سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ گروپ کی شکل میں نشہ آوراشیا استعمال کرتے ہیں۔ چند سال قبل میں نے ایک طالبہ کا انٹرویو کیا تھا جو اس لت کا شکار اس لئے ہو ئی تھی کیونکہ اس کے والدین اپنی الگ دنیا میں گم تھے اور گھر پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ وہ صرف بچوں کو گاڑی‘ اچھا سکول‘ کالج‘ اچھا کھانا‘ ایئرکنڈیشنر اور نوکر چاکر جیسی سہولتیں دے کر سمجھتے تھے کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ باپ کو کاروباری مصروفیات اور بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ملتی تھی اور بیگم صاحبہ کو خواتین کی انجمنوں ‘ کلبوں اور پارٹیوں سے وقت نہیں ملتا تھا۔ ہاں گھر میں پالتو کتے اوربلیاں ضرور تھیں جو اس لڑکی کو ٹائم دے سکتے تھے لیکن کتے‘ بلیاں اس کے جذبات نہیں سمجھ سکتے تھے۔ اس کے اندر جو گھٹن پیدا ہو چکی تھی وہ فرسٹریشن میں بدل گئی اور جب اس نے اپنے کالج میں اپنی ساتھیوں سے اس بات کا ذکر کیا تو ان میں سے ایک نے اس کی دلجوئی کی، اور پھر ایک دن اسی لڑکی نے اسے پہلے سادہ سگریٹ دیا اور پھر آہستہ آہستہ نشے پر لگا دیا۔
منشیات فروشوں کا آسان ہدف زیادہ تر طلبہ ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کی عمر کم ہوتی ہے اور دوسرا وہ جوانی میں قدم رکھتے ہوئے کچھ نیا‘ کچھ مختلف کرنا چاہتے ہیں۔ شو آف کرنے کا ٹرینڈ انہیں جنون کی حد تک ہوتا ہے اور وہ اس کیلئے انوکھے کام بھی کر جاتے ہیں۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو مختلف انداز میں سجانا ‘ ان میں لائٹنگ اور سائلنسر کا غیرمعمولی استعمال کرتے ہیں اور دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے والے گروہوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ ان کا واردات کا انداز بہت مختلف ہے۔ یہ پہلے اپنے چند لوگوں کو طلبہ کے روپ میں اس جگہ داخل کرتے ہیں جو ان کیلئے پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ انہیں پل پل کی معلومات دیتے ہیں۔کون سا طالب علم کتنا امیر ہے‘ اس کے کیا شوق ہیں‘ کس گاڑی پر آتا ہے‘ یہ سب معلومات نئے گاہک کو پھنسانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔بعض گروہ کالجوں میں موجود طلبہ کو استعمال کرتے ہیں جو پہلے خود نشے کے عادی ہوتے ہیں اور بعد میں دوسرے طلبہ کو یہ لت لگاکر اپنی طلب پوری کرنے کیلیے دوسروں کو نشہ فروخت کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایسے طلبہ منشیات فروشوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کھیلوں سے وابستہ نوجوان نشے کی جانب کم دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک تو ہمارے ملک میں ویسے ہی صحت مندانہ سرگرمیوں کا رواج نہیں ہے‘ پارکوں پر قبضے ہو چکے ہیں یا ان کی حالت کھیلنے کے قابل نہیں ہے، دوسرا کورونا نے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا ہے اور وہ اپنی ٹینشن نکالنے کیلئے ایسی سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ عوام کو صحت مند طرزِ زندگی کے لیے اچھا ماحول فراہم کیا جائے تو یہ مسئلہ خودبخود حل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 68 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، ان میں 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ ہر سال پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں 40سے 50 ہزار کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔موبائل فون نے نشہ آور اشیا کا حصول آسان بنادیا ہے اور اب منشیات کے عادی نوجوانوں کو گھروں پر ہی نشہ سپلائی کیا جاتا ہے۔
نشہ ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ماں باپ کے درمیان جھگڑے اور علیحدگی کے شکار گھرانوں کے بچے تنہائی کے سبب نشے کی جانب راغب ہوتے ہیں۔نئی نسل تجسس کی وجہ سے اور دبائو سے بچنے کیلئے بھی منشیات کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ بد قسمتی سے ایسے عناصر کے ہاتھ بہت لمبے ہیں جو انہیں ان کی کمزوری کی وجہ سے نشے کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ایسے غریب نوجوان بھی ہیں جو نشے کی لت کو پوراکرنے کے لیے چھوٹے موٹے جرائم سے شروعات کرتے ہیں اور بعد میں بڑے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔اس لیے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کیلئے بھی منشیات کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق‘ سگریٹ نوشی کرنے والا بنیادی طور پر نشے کی دنیا میں پہلا قدم رکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی ہے‘ اسی طرح شیشہ کا استعمال بھی منشیات کی جانب راغب کرتا ہے۔ تیس برس قبل تک چرس شراب جیسے نشے عام تھے اور یہ لت غریب اور لوئر مڈل کلاس تک محدود تھی۔پوش طبقے میں اس طرح کے نشے کی وباعام نہ تھی؛ تاہم افغانستان اور روس کی جنگ اور افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد سے کراچی سے پشاور تک ہیروئن کی وبا پھیل گئی۔ کہا جاتا ہے کہ آئس اورکرسٹل زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں، جن گھروں میں والدین کے مابین لڑائی جھگڑے کا ماحول ہوتاہے ‘وہ بچوں کواچھی تربیت نہیں دے پاتے‘ ایسے گھروں کے بچوں میں نشے کی جانب راغب ہونے کا زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ کورونا وبا نے جہاں دیگر مسائل میں اضافہ کیا ہے وہاں لوگوں سے آئوٹ ڈور تفریح بھی چھین لی۔ اب لوگوں کے پاس آ جا کے ٹی وی اور موبائل فون رہ جاتا ہے جس کے ذریعے وہ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے دوران بیماری اور مختلف اثرات سے نمٹنے کیلئے ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال ہوا۔ کورونا کے کیسز کے دوران جاں بحق ہونے والے‘ صحت یاب ہونے والے اور نئے کیسز کے بارے میں معلومات کیلئے ایپس اور ویب سائٹ کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح کورونا کے ٹیسٹ کرنے کیلئے بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ اس جدت کا فائدہ تمام ممالک نے اٹھایا۔خاص طور پر ایسے ممالک جہاں کورونا بہت شدت سے پھیلا جیسا کہ امریکا‘ برازیل اور برطانیہ۔ کورونا میں بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے سے دنیا کو اس کے پھیلائو کو کم کرنے میں خاصی کامیابی ملی ہے۔منشیات کے استعمال سے متعلق امراض میں مبتلا افراد کے علاج اور صحت کی دیکھ بھال بھی اسی طریقہ سے کی جا سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو بڑھانے اور منشیات سے بچائو کے طریقہ کار سے آگاہی کیلئے دنیا کے تمام ممالک کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ یہ کسی ایک ملک کا انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں منشیات مافیاز کا منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ یہ کم آمدنی والے ممالک کو خاص طور پر نشانہ بناتا ہے کیونکہ ایسے ممالک سماجی مسائل میں گھرے ہوتے ہیں۔جو لوگ منشیات کے بھنور سے نکلنا چاہتے ہیں انہیں علاج کیلئے بیش قیمت ادویات درکار ہوتی ہیں جنہیں خریدنے کی وہ استطاعت نہیں رکھتے اور ناکامی پر دوبارہ نشے کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے سرکاری و نجی ادارے منشیات کے عادی افراد کو نارمل زندگی میں لانے کی جستجو کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے چند ماہ قبل انسدادِ منشیات فورس ہیڈ کوارٹر کیلئے بجٹ‘ افرادی قوت اور وسائل کی فراہمی میں اضافے کا حکم دیا تھا۔ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی نشے کے عادی افراد کی بحالی کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے جہاں ایسے افراد کو رہائش‘خوراک اور علاج کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ نشے سے زندگی کی طرف لوٹنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ آسان کام نہیں اور نہ ہی نشے میں مبتلا شخص تنہااس پہاڑ کو عبور کر سکتا ہے۔ اس کیلئے قریبی عزیز‘ رشتہ دار‘ ہمسایے اور بالخصوص دوست اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ہمارا دیا گیا وقت اگر کسی شخص کو زندگی میں واپس لاسکتا ہے‘ اسے منشیات کے جال سے نکال سکتا ہے تو یہ بہت بڑی نیکی ہو گی‘ جو ایک شخص کو ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کو عذاب سے نجات دلا دے گی۔