دو برس قبل 5 اگست کو بھارت نے انتہائی مکاری کے ساتھ اپنے آئین میں غیر آئینی تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو تین ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا تھا‘ جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی حدود میں شامل کرنا تھا۔ یوں تو بھارت کے مکروہ عزائم کئی عشروں سے چلے آ رہے ہیں لیکن بدنیتی پر مبنی بھارت کی اس چال نے کشمیر کو جبر کے ہتھکنڈوں سے دبانے کے بھارتی ایجنڈے کو دنیا کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا۔ بھارت نے دکھا دیا کہ وہ غیر قانونی کارروائیوں میں کس حد تک جا سکتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو ایک غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے ذریعے ایک صدی پرانا قانون‘ جسے مہاراجہ ہری سنگھ نے خود نافذ کیا تھا تاکہ غیر ملکی باشندے کشمیر کی شہریت حاصل نہ کر سکیں‘ کو بھارت نے یکدم ختم کر دیا۔ ان غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے وادی میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو بھی نافذ کردیا گیا اور کشمیریوں کی پوری قیادت کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا کیونکہ یہ خدشہ بلکہ یقین تھا کہ اس کے اس ناجائز اقدام کے خلاف کشمیر کے اندر اور باہر سے زبردست ری ایکشن آئے گا۔ پاکستان‘ جو ہمیشہ سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے‘ نے ایک مرتبہ پھر اپنے جائز موقف کے اظہار کیلئے پاکستان کا ایک نیا نقشہ جاری کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے اس نئے نقشے کی منظوری دی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ تھا‘ ہے اور رہے گا اور اس امر کا فیصلہ کشمیر ی عوام نے ایک استصواب کے ذریعے کرنا ہے۔ نیز یہ کہ بھارت آئینی موشگافیوں کے ذریعے یا نو لاکھ فوج کی مدد سے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت کا یہ اقدام سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قراردادوں کے بھی منافی تھا جن میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیری اپنے استصوابِ رائے یعنی ریفرنڈم کے ذریعے ہی کریں گے جو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی منعقد ہوگا۔ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر کو متنازع قرار دیا گیا ہے‘ بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اس خطے کے نقشے میں کوئی تبدیلی کرے۔ پانچ اگست کے غیر آئینی اقدامات کے فوری بعد جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے دنیا پر واضح کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگوں کا باعث بن چکا ہے لیکن اب دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں اس لیے آئندہ کوئی جنگ چھڑی تو اس کا دائرہ برصغیر کی حدوں سے باہر تک پھیل جائے گا۔
پاکستان کشمیر کا مقدمہ بڑی فصاحت کے ساتھ لڑتا آ رہا ہے۔ وہ اس کیلئے اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے جس کی بھارت کو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کشمیر پر کوئی آواز اٹھائے یا کشمیریوں پر ظلم کے خلاف عالمی ضمیر کو جگانے کی کوئی کوشش کرے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کشمیر کے بارے میں دو ٹوک موقف رکھتے تھے اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے وکیل اور سفیر کا کردار ادا کریں گے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کے اندر کشمیر ڈیسک قائم کیے گئے اور ہر اہم موقع پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حق میں آواز اٹھائی گئی۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے کشمیر میں مظلوم عوام کے حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اس نے اس جنت نظیر وادی کو جہنم میں تبدیل کر دیا۔ حکومت نے وادیٔ کشمیر کو پاکستان میں شامل دکھاتے ہوئے جو نیا نقشہ جاری کیا‘ اس سے کشمیریوں میں آزادی کا نیا ولولہ اور جوش پیدا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت اور پاکستان کے مابین کوئی تنازع کھڑا ہوتا ہے کشمیری عوام اور تنظیمیں بھی ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیتی ہیں۔ بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرنے اور بھارت کے دو طیاروں کو مار گرانے پر مقبوضہ کشمیر میں خاصی خوشیاں منائی گئی تھیں۔ یہ تو ابھی کی بات ہے‘ کشمیر کے ساتھ ہمارا رشتہ تو اس وقت سے ہے جب پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ جب تحریک پاکستان مسلم لیگ کے بینر تلے چل رہی تھی تو اس موقع پر سری نگر میں کشمیریوں نے آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس حوالے سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی بنائی گئی جس کے زیر انتظام 1931ء میں سیالکوٹ میں جلسہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جلسے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد نے شرکت کی تھی اور کشمیریوں کی حریت کی حمایت کا اعلان کیا تھا جبکہ 14 اگست 1931ء کا دن یوم کشمیر کے طور پر بھی منایا گیا تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں نے کبھی اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو نہیں چھیڑا تھا، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج‘ پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 ء میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑ دیا اور 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا‘ جہاں تعلیمی ادارے مسلسل بندش کا شکار ہیں۔ شہریوں کے حالات سے بیرونی دنیا بالکل ناآشنا ہے‘ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کا نام و نشان نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کے حکم سے ہی علاج ہو پاتا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں دو سال قبل جو کرفیو نافذ کیا گیا اور لاک ڈائون لگایا گیا اس کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔اس دوران پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرارداد اکثریت کی بنیاد پر منظور کر لی گئی۔ اس اقدام سے دو روز قبل دہشت گردی کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے تمام غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کو جموں و کشمیر چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی اور ساتھ ہی اضافی فوج بھی وادی میں بھیج دی گئی تھی۔ بھارتی حکومت کے اس اعلان کے ساتھ ہی سیاحوں نے بھی مقبوضہ وادی سے واپسی شروع کر دی تھی‘ دہشت گرد حملے کے خطرات کی وارننگ جاری کرنے پر وادی میں موجود ہزاروں سیاحوں اور طلبہ میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور واپسی کے لیے قطاریں لگ گئی تھیں۔ ہزاروں سیاحوں نے سری نگر ایئر پورٹ کا رخ کیا تھا جن میں سے اکثریت کے پاس ٹکٹ بھی نہیں تھے۔ اس موقع پر بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ریاستی تشدد بھی جاری رکھا اور ضلع بارہ مولا اور شوپیاں میں محاصرہ کرکے آپریشن کے دوران کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو کشمیر میں مستقل شہریت سے محروم کیا گیا تھا کیونکہ اسی کے تحت واضح کیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری کون ہے اور کون وادی میں زمین خرید سکتا ہے۔ آرٹیکل 370 بنیادی طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے بھارت کی غلامی میں دینے کیلئے نافذ کیا گیا تھا۔ اس میں جموں و کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ قرار دیا گیا تھا۔ بھارت کا ایجنڈ بڑا واضح تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ اور مودی حکومت کے اشیرباد سے ایسا ہو بھی رہا ہے۔ جس کے سبب کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں ہندو مقبوضہ کشمیر کا رخ کریں گے اور یہاں رہائش اختیار کر لیں گے جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی خطے میں آبادی کا جغرافیہ بدل جائے گا اور مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا۔ کشمیر میں بھارتی جبری لاک ڈائون کے بعد کورونا نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بھارتی فوج کی جانب سے سختیاں مزید بڑھا دی گئیں؛ تاہم ان سب مظالم کے باوجود کشمیریوں کے عزم و ہمت اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پاکستان ڈٹ کر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور جس دن عالمی طاقتیں بھی کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو گئیں‘ وہ دن بھارت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔