حکومت کے ابتدائی دو سالوں کے دوران ایسا لگنے لگا تھا جیسے معاملات خرابی کی طرف جا رہے ہیں یا چیزوں میں بہتری نہیں آ رہی؛ تاہم جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ حکومت کی کارکردگی سے متعلق اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ ہم لوگ جلد باز بھی ہیں اور رائے قائم کرنے میں بہت تیزی دکھاتے ہیں۔ تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ مرکز میں اقتدار ملا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ تو متعدد مرتبہ باری لے چکی ہیں اور عوام ان کی کارکردگی سے خائف ہو کر ہی تحریک انصاف کی طرف راغب ہوئے تھے۔ اس سے قبل کے پی میں تحریک انصاف اچھی کارکردگی دکھا چکی ہے جو اسے مرکزی حکومت میں لانے کی وجہ بھی بنی؛ تاہم کسی بھی نئی جماعت کو پہلے ایک‘ دو یا تین برسوں میں پرکھنا مناسب نہیں۔ اتنی دیر تو ایک کنال کا اچھا مکان بنانے میں لگ جاتی ہے جتنی دیر میں ہم پورے ملک کو یکسر تبدیل ہو کر امریکا یا جاپان بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور جاپان یا چین بھی دو یا تین برس میں نہیں بن گئے بلکہ انہیں بھی کئی عشرے لگے۔ اصل مسئلہ سمت اور لیڈر شپ کا تھا۔ پاکستان کو بھی بہتر لیڈر شپ کی تلاش تھی۔ اگر عمران خان بطور وزیراعظم ملک کو چین اور جاپان کی طرح درست سمت میں گامزن کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گئی۔ اگر وہ ایسے منصوبے اور پالیسیاں بنا گئے جو ملک کے دیرپا مفاد میں ہوں اور آنے والی حکومت چاہے کسی جماعت کی بھی ہو‘ اگر وہ انہیں لے کر آگے چل پڑی تو پھر پاکستان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ماضی میں ہم نے بہت سے چھوٹے بڑے منصوبے ایسے دیکھے جنہیں اگلی آنے والی حکومتیں ختم نہیں کر سکیں۔ ان میں گیارہ بائیس ایمبولینس سروس جیسا شاندار منصوبہ بھی تھا جو موجودہ سپیکر اور سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے پندرہ برس قبل شروع کیا تھا‘ یہ آج بھی پوری شان سے جاری ہے۔ اسی طرح پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کرنے پر بھٹو دور میں کام شروع ہوا اور بالآخر یہ کام عشروں بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اسی طرح گوادر پورٹ اور فری زون جیسا بڑا اور گیم چینجر پلان بھی آج تکمیل کی جانب گامزن ہے۔ اس طرح کے قومی اور عوامی سطح کے منصوبے ملکوں کی بنیادیں مضبوط کر تے ہیں۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے صرف ڈیڑھ سال بعد کورونا آ گیا جس نے گروتھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا؛ تاہم ترقی پذیر ملک ہونے اور کمزور ہیلتھ انفراسٹرکچر کے باوجود پاکستان نے دنیا کے جدید ممالک کی نسبت اس وبا کا دلیری سے مقابلہ کیا ۔ گزشتہ روز عالمی میگزین اکانومسٹ نے کورونا سے مقابلہ کرنے اور واپس معمول کی زندگی جلد بحال کرنے والے ممالک کی فہرست جاری کی جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر تھا۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمسایہ ملک بھارت میں روزانہ چار چار لاکھ نئے کیس سامنے آ رہے تھے اور ہر روز چار پانچ ہزار لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے تھے پاکستان میں کورونا کیسز انتہائی کمی کی جانب گامزن رہے اور اس کی تصدیق کوئی مقامی سروے کمپنی نہیں بلکہ مستند عالمی فورمز پر کی جا رہی ہے۔اکانومسٹ نے جو رپورٹ مرتب کی وہ آٹھ انڈیکیٹرز پر مشتمل ہے۔ ہر ملک کو سو پوائنٹس دیے گئے۔ تازہ ترین جاری رپورٹ میں ہانگ کانگ چھیانوے پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست‘ ستاسی پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ کھڑا ہے جبکہ پاکستان کا موجودہ سکور چوراسی پوائنٹس ہے اور یہ کم نقصان کے ساتھ ‘دنیا کے تمام ممالک میں سب سے تیز معمول کی زندگی کی طرف واپس آنے والا ملک بن گیا۔وزیراعظم عمران خان نے اس کامیابی پر این سی او سی ‘ احساس ٹیم اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو شاباش بھی دی۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت صرف چھیالیس پوائنٹس حاصل کر سکا اور اس قافلے میں اڑتالیس ویں نمبر پر ہے۔چین‘ جہاں اس وبا پر بظاہر بہت جلد قابو پا لیا گیا تھا‘ وہ بھی پاکستان سے بہت پیچھے انیسویں نمبر پر ہے۔اسی طرح امریکا جیسا ملک بیسویں نمبر پر ہے۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی بنیادیں تھیں جن کی بنا پر ان ملکوں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس حوالے سے تین بڑی کیٹیگریز بنائی گئیں۔اس میں پہلے نمبر پر کیٹیگری ٹرانسپورٹ اور ٹریول سے متعلق تھی۔یعنی بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کس پیمانے پر اور کتنا جلد چلنا شروع ہوئی۔انٹرنیشنل اور مقامی ایئر فلائٹس کی تعداد کس ملک میں کتنی رہی اور شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک کے رش کی کیا صورتِ حال تھی۔اسی طرح ایک کیٹیگری میں لوگوں کے معمولاتِ زندگی کو جانچا اور پرکھا گیا۔ کتنے لوگ خریداری کے لیے مالز میں گئے۔ دفاتر میں حاضری کی پوزیشن کیا رہی۔ کتنی جگہ پر پچاس فیصد یا اس سے زیادہ لوگ کام کیلئے آتے رہے‘ ان اعداد و شمار کو بھی رپورٹ کا حصہ اور درجہ بندی کیلئے استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مسلسل بند نہیں رکھا گیا بلکہ ہفتہ وار دو دن پابندی رہی۔ اسی طرح پچاس فیصد سواریوں کے ساتھ بسیں اور ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت تھی‘ اس لئے لوگوں کوسفر میں بہت زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔سفری رکاوٹیں کم سے کم ہونے پر اس سے متعلق انڈیکیٹر میں پاکستان کا سکور سو سے بھی بڑھ گیا ۔مارچ کے مہینے میں پاکستان میں پبلک مقامات اور خریداری مراکز پر ریکارڈافراد کی موجودگی دیکھی گئی جبکہ دفاتر میں حاضری بھی سو فیصد تھی۔ اسی طرح کنسٹرکشن کے شعبے میں ریلیف دینے سے معاشی سرگرمیوں میں کمی کے بجائے تیزی آئی۔ اس سے جڑے چالیس سے زائد شعبوں نے عام حالات سے زیادہ پیداوار دکھائی۔ پچھلے سال چاربڑی فصلوں‘ گندم، چاول، گنا اورمکئی کی ریکارڈفصل ہوئی ۔
گزشتہ روز ایک اور اچھی خبر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی پیداوار‘ فروخت اور ان کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے تھی۔پاکستان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ چیزوں کی قیمت بڑھنے کے بعد کم ہوئی ہو۔ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے بتایا کہ کچھ اقدامات ایسے کیے گئے ہیں جن سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آ جائے گی۔ گزشتہ سال ایک لاکھ 64ہزارگاڑیاں بنائی گئیں اور اگلے سال کم ازکم 3 لاکھ گاڑیوں کی پروڈکشن کی جائے گی۔گاڑیوں پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی اورکسٹم ڈیوٹی اور چھوٹی گاڑیوں پرسیلز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔اس اقدام سے چھوٹی گاڑی کی قیمت تقریباً ایک لاکھ 5 ہزار تک کم ہوگی اور پہلی بار گاڑی خریدنے والے کو مراعات ملیں گی جبکہ جوشخص گاڑی خریدنا چاہتا ہے‘ گاڑی اسی کے نام پررجسٹرڈہوگی۔ ایک اور کام جو پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے وہ یہ کہ جو مینوفیکچررز گاڑی دینے میں تاخیر کرے گا‘ اسے جرمانہ ہوگا۔ گاڑی خریدنے والے کو جو اون منی دینا پڑتی ہے‘ خسرو بختیار کے مطابق‘ اس کا بھی حل وہ نکال رہے ہیں۔جو شخص گاڑی بُک کرائے گا اسے آن لائن مسلسل یہ معلوم ہو سکے گا کہ اس کی گاڑی کن مراحل سے گزر رہی ہے، اس طرح وہ اپنی گاڑی کو ٹریک کر پائے گا اور درمیان میں حائل حیلے بہانوں کاسلسلہ ختم ہو جائے گا۔
اس سال کی تیسری اچھی خبر گوادر سے متعلق تھی ۔گوادرمیں کام تو طویل عرصے سے ہو رہا تھا لیکن حالیہ برسوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔ وزیر اعظم نے چند روز قبل گوادر فری زون فیز ٹو کا افتتاح کیا۔اس سے قبل گوادر فری زون کا پہلا فیز‘ جو 60 ایکڑ پر مشتمل تھا ‘ پر بیشتر کام مکمل ہو چکاہے۔ فیز ٹو 2200ایکڑ پر مشتمل ہے۔وزیراعظم نے فری زون میں تین فیکٹریوں ‘ایکسپو سنٹر اور ایگریکلچرل انڈسٹریل پارک کا بھی افتتاح کیا۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں گوادر آنے کے دو مقاصد بتائے؛ ایک‘ فری زون کا افتتاح اور دوسرا بلوچستان کی ترقی۔ بلوچستان بظاہر پسماندہ صوبہ ہے لیکن اس میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے ۔ تقریب میں چیئرمین سی پیک اتھارٹی جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ گوادر میں مال بردار جہازوں کی آمد روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کا حجم60ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گوادر تقریب میں زیادہ تعداد ٹی وی اینکرز کی تھی۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دیگر شعبوں کے افراد کو بھی گوادر کے دورے کروائے جانے چاہئیں تاکہ وہ بھی ترقی اور تبدیلی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں۔اس حوالے سے جتنے زیادہ مستند صحافیوں کی آرا سامنے آئیں گی اتنا ہی حکومتی کارکردگی کھل کر سامنے آئے گی اور عوام تک معلومات اپنی اصل حالت میں پہنچ سکیں گی۔