کورونا کی تیسری لہر ختم ہونے پر جون کے اوائل میں حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں میں نرمی ہوئی تھیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید اگلے تین چار ماہ سکون سے گزر جائیں گے لیکن کورونا کی چوتھی لہر اپنے ساتھ ڈیلٹا نامی وائرس کو لے آئی جو انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے اور ہفتوں کے بجائے دنوں میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ دس روز قبل روزانہ کے مثبت کیسز کی تعداد دو ہزار سے کم تھی جو اب بڑھ کر پانچ ہزار یومیہ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ ڈیلٹا ویری اینٹ بھارت سے درآمد شدہ ہے۔ اس سے قبل کورونا کی برطانوی قسم نے تباہی مچائی تھی۔ اگلی لہر میں نجانے کون سی قسم آنے والی ہے۔ ایک نیا نام چل تو رہا ہے لیکن میں یہاں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ یہ وائرس کی مارکیٹنگ کرنے والی بات ہے۔ جب کسی وائرس نے آنا ہے تو اس نے اپنے انداز میں کام کرنا ہے‘ اس لئے اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کا کیا فائدہ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے یا نہیں۔ جب تک ویکسین نہیں بنی تھی‘ تب تک احتیاط کے ذریعے اس موذی بیماری کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پھر ویکسین آ گئی تو اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔ بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ابھی تک ویکسین لگوانے کو تیار نہیں۔ ان کے دلائل سنیں تو لگتا ہے کہ شاید کسی حد تک ان کی بات ٹھیک ہو مگر دوسری طرف جب کورونا کے بے قابو عفریت کو دیکھیں تو ویکسین ہی بہتر حل دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ویکسین کی اجازت صرف ایمرجنسی استعمال کیلئے ہے۔ پچھلے ایک‘ ڈیڑھ سال سے دنیا میں ایمرجنسی نہیں تو اور کیا ہے؟ کبھی ایسا ہوا تھا کہ پوری دنیا کے ممالک نے فلائٹس بند کر دی ہوں۔ تمام ہوٹلز، کاروباری اور تعلیمی اداروں کو تالا لگایا ہو اور وہ بھی کئی کئی ماہ تک مسلسل۔ ویکسین کی وجہ سے کورونا کے سبب ہونے والے جانی نقصان کی شدت میں خاصی کمی آئی ہے وگرنہ تو جس طرح لاشیں سوکھے پتوں کی طرح گر رہی تھیں صورتِ حال اب انتہائی سنگین ہو جانا تھی۔ جس وقت ویکسین خاصی تعداد میں موجود تھی‘ اس وقت ہمارے عوام لگوانے کو تیار نہ تھے۔ اب جبکہ ڈیلٹا وائرس کی وجہ سے پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں اور سندھ میں تو سم کارڈ تک بلاک کرنے کی نوبت آن پہنچی ہے تو لوگ دھڑا دھڑ قطاروں میں لگ گئے ہیں۔ قطاریں امریکا اور یورپ میں بھی لگتی ہیں لیکن ہمارے یہاں تو نظم و ضبط نام کی کوئی چیز ویسے بھی موجود نہیں تو ایسے مواقع پر کیا خیال رکھا جائے گا کہ جب سب کو اپنی اپنی موبائل سم کی پڑی ہو۔ اپنی جان کی کسی کو فکر ہے یا نہیں لیکن موبائل فون کے بغیر گزارہ نہیں۔حکومت اگلے پانچ ماہ میں دس کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ٹارگٹ تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ویکسین وافر تعداد میں موجود ہو ‘ اسے لگانے کے انتظامات وسیع تر ہوں اور لوگ بھی نظم و ضبط کے تحت لگوانے پر آمادہ ہوں۔
کورونا کی وجہ سے بچوں اور طالب علموں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔ اب طالبعلموں کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ چھٹیاں رہیں اور پڑھائی آن لائن ہوتی ہے‘ اور تو اور امتحانات بھی آن لائن ہی لئے جائیں۔ گھر میں رہ رہ کر بچوں کو آرام کی عادت پڑ گئی ہے۔بچے ضدی اور چڑ چڑے ہو رہے ہیں۔ قدرت نے انسانی جسم کو اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ یہ چلنے پھرنے‘ حرکت کرنے سے ہی ٹھیک رہتا ہے۔ زیادہ آرام انسان کو کاہل اور سست بنا دیتا ہے؛ تاہم کورونا کی وجہ سے سب ان مجبوریوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ اس دوران اخراجات مگر کسی کے کم نہیں ہوئے۔ تعلیمی ادارے فیسیں پوری لے رہے ہیں کہ انہیں بھی اساتذہ اور عملے وغیرہ کو تنخواہیں دینا ہیں۔ مہنگائی بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ پٹرول کی قیمتیں مسلسل دوسری مرتبہ بڑھا دی گئی ہیں۔ سیمنٹ کی بوری پانچ سو ستر روپے تک پہنچ چکی ہے۔ دیگر تعمیراتی سامان بھی انتہائی مہنگا ہو چکا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں کورونا نے ایسی ہی تباہی مچائی ہے۔ بہت سی ضروری اشیا کی پیداوار کم ہونے اور عالمی ذرائع آمد و رفت کی بندش نے چیزوں کی تیاری کی لاگت کئی گنا بڑھا دی ہے۔ ہر کوئی اپنا بوجھ آگے منتقل کرنے پر مجبور ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان پھر بھی دنیا کے بیشتر ممالک سے بہتر حالات سے گزرا ہے۔ یہاں تو وزیراعظم نے دیہاڑی دار طبقے کا بالخصوص احساس کیا جبکہ بھارت میں صورتِ حال یکسر مختلف رہی۔ نریندر مودی پر شدید تنقید ہو رہی ہے کیونکہ موصوف نے کورونا میں عام آدمی تو کیا‘ امیروں کا بھی بھرکس نکال دیا ہے۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار نے لکھا:ناقدین کا کہنا ہے کہ غرور‘ انتہا سے زیادہ قوم پرستی اور بیوروکریسی کی ناکامی نے مل کر بھارت میں ایک بحران کو جنم دیا، جہاں ہجوم اور جلسوں کے دلدادہ وزیر اعظم تو مزے میں ہیں مگر عوام کا صحیح معنوں میں دم گھٹ رہا ہے۔
اب جبکہ کورونا پاکستان میں دوبارہ انگڑائی لے رہا ہے‘ اسی دوران ورلڈ پاپولیشن ریویو نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کو سستا ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے نے رینٹ انڈیکس‘مقامی قوتِ خرید اورکنزیومر پرائس انڈیکس کو مد نظر رکھ کر رپورٹ تیار کی ہے۔ پاکستان میں لوگ اس رپورٹ کو شاید مذاق تصورکریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک کے ساتھ کیا جائے تو واقعتاً رہائش اور قوتِ خرید کے اعتبار سے پاکستان اب بھی بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پاکستانی جو بیرونِ ممالک سیٹل تھے‘ وہ واپس آ رہے ہیں کیونکہ جدید ممالک میں اگر آمدنی زیادہ ہوتی ہے تو اخراجات اور ٹیکس بھی اسی تناسب سے ہوتے ہیں۔ایک معروف سوشل میڈیا کامیڈی سٹار اپنی دو بیویوں کے ہمراہ بیرونِ ملک سے پاکستان منتقل ہوئے ہیں۔ ان کی آمدنی چونکہ آن لائن ہے اور وہ ڈالر وں میں کماتے ہیں اس لیے ان جیسے لوگوں کیلئے ایسے ممالک میں رہائش اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے جہاں ڈالر کو مقامی کرنسی میں منتقل کرنے سے جو رقم حاصل ہوتی ہو‘ اس سے بیرونِ ممالک کی نسبت زیادہ آسائش کے ساتھ زندگی گزاری جا سکے۔آن لائن آمدنی کے بعد اب رہائش کے ٹرینڈز تبدیل ہو رہے ہیں۔آج سے تیس‘ چالیس برس قبل تک لوگ امریکا وغیرہ اس لئے جاتے تھے تاکہ وہاں ٹیکسی چلا کر یا کوئی اور معمولی نوعیت کا کام کر کے ڈالر اکٹھے کر سکیں اور جب وہ انہیں واپس اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے تو اس سے وہ چند برسوں میں زندگی کی ہر آسائش خرید لیتے تھے۔ اب مگر بیرونِ ملک بھی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ کورونا سے قبل بھی امریکا جیسے ملک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر یا پلوں کے نیچے سوتے تھے‘ کورونا کے بعد تو یہ تعداد اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بہت سے لوگ گاڑیوں میں سوتے ہیں اور ایک دن وہیں دم توڑ دیتے ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔پاکستان میں بیٹھ کر امریکا‘ برطانیہ بہت خوشنما نظر آتے ہیں لیکن وہاں پر جائے بغیر آپ زندگی کے کٹھن ہونے کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے لیکن اپنے وطن کو اپنا سمجھے اور اپنا بنائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہمیں نہ اپنے وطن کی قدر ہے اور نہ ہی ہم یہاں کسی قانون‘ کسی ضابطے کو خاطر میں لاتے ہیں۔ جتنی طویل قطار کراچی میں ویکسین لگوانے کی لگتی ہے‘ اتنی ہی کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں لگ رہی ہیں لیکن وہاں لوگ نہ ہی بے صبرے ہیں اور نہ ہی انتظامیہ کا سر پھوڑنے پر تُلے نظر آتے ہیں۔ ہم لوگ بھی ان مغربی ممالک میں وہاں ہوتے تو صبر سے کام لیتے لیکن اپنے ملک کو ہم ہلکا لیتے ہیں اور دو منٹ کہیں کھڑا ہونا پڑ جائے تو غصے لال پیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں‘ اگر حکومت سم اور تنخواہ بند کرنے کا اعلان نہ کرتی تو کیا لوگ ویکسین لگوانے کو تیار ہوتے؟ شاید کبھی نہیں! ہمارے اسی رویے نے ہمیں دنیا میں بے اعتبار بنا دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قدرت ہم پر پھر بھی رحم کیے ہوئے ہے وگرنہ جس طرح ہم اپنی ہی سرزمین کے ساتھ ناشکری کرتے ہیں‘ ہمارا حساب کب کا چُکتا ہو چکا ہوتا۔