لوگوں کی اکثریت جمعہ کے دن عین اس وقت مسجد پہنچتی ہے جس وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے حالانکہ جمعۃ المبارک کے فضائل میں ایک یہ بھی ہے کہ نمازی پہلی اذان سے پہلے مسجد میں داخل ہو۔ سنتیں ادا کرے۔ خطبہ سنے اور اس کے بعد باجماعت نماز ادا کرے۔ ایک حدیث میں مسجد میں پہلے داخل ہونے والوں کے لئے اونٹ اور بعد میں آنے والوں کے لئے دیگر قربانیوں کا ثواب بتایا گیا ہے۔ جمعہ ہفتے میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ مسجد جانے سے لے کر خطبہ مکمل ہونے اور نماز کی ادائیگی تک میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں لیکن ہم اتنے زیادہ مصروف لوگ ہیں کہ ایک ہفتے میں دو گھنٹے بھی دستیاب نہیں ہوتے کہ سکون سے عبادت کر سکیں۔ انگریز جیسے بھی ہیں‘ وہ چرچوں میں ہماری طرح بھاگم بھاگ نہیں جاتے نہ ہی الٹے پائوں بھاگتے ہیں بلکہ سکون سے عبادت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ایک اور چیز دیکھنے کو ملتی ہے کہ چلیں جیسے تیسے کرکے عین نماز کے وقت مسجد میں پہنچ گئے تو جگہ نہیں ملتی‘ پھر بہت سے لوگ ایک دوسرے کو کندھے اور پائوں مارتے ہوئے گزرتے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں‘ حالانکہ یہ انتظار بھی کوئی دو چار منٹ سے زیادہ کا نہیں ہوتا لیکن ہم سے وہ بھی نہیں ہوتا؛ تاہم جب اقامت ہوتی ہے اور نماز کھڑی ہونے لگتی ہے تو وہی لوگ جو پھاند کر آگے جاتے ہیں ان کے قدم وہیں جم جاتے ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر تو پچھلی صفوں کی جانب مارچ کر جاتے ہیں تاکہ نماز ختم ہوتے ہی اور جیسے ہی سلام پھیرا جائے‘ وہ رش سے بچنے کیلئے سب سے پہلے جوتوں تک پہنچ کر مسجد سے باہر نکل آئیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسجد میں سب سے لیٹ آتے ہیں اور سب سے پہلے نکلتے ہیں۔ بیشتر تو وضو کے بعد وہیں بیٹھ جاتے ہیں تاکہ آخری صف میں جا کھڑے ہوں اور وہیں سے واپس نکل آئیں۔
ہم میں سے ہر کوئی لفٹ کو استعمال کرتا ہے۔ بیشتر کثیرمنزلہ دفاتر میں لفٹس موجود ہوتی ہیں۔ لوگ روزانہ کئی برس ان لفٹس کو استعمال کرتے ہیں لیکن چند عجیب و غریب حرکات مسلسل دہراتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ جیسے ہی لفٹ کے پاس پہنچیں گے یہ دیکھے بغیر کہ وہاں پہلے سے موجود کسی شخص نے لفٹ کو بلانے کیلئے بٹن دبایا ہوا ہے‘ اوپر یا نیچے جانے کا بٹن دوبارہ دبا دیں گے۔ بعض لوگ تو بٹن دبا ہوا دیکھنے کے باوجود دوبارہ بٹن دبا دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا سائنس ہے‘ خدا جانے۔ پھر جب لفٹ آتی ہے اور اس کا دروازہ کھلتا ہے تو انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اندر سے باہر آنے والوں کو راستہ تک نہیں دیتے کہ وہ باہر نکل سکیں تاکہ لفٹ میں جگہ بن سکے۔ یہی رویہ بسوں اور ویگنوں وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔
کچھ عادات ہم نے اتنی پکی کرلی ہیں کہ کبھی انہیں تبدیل کرنے کا سوچتے بھی نہیں‘ مثلاً بلوں کی ادائیگی کیلئے آخری تاریخ کا انتظار کرنا‘ دانت برش کرتے ہوئے نل کھلا رکھنا‘ چپس‘ پلاسٹک کی بوتلیں کھا‘ پی کر گاڑی سے باہر سڑک پر پھینکنا‘ شادی اور دیگر تقریبات میں تاخیر سے پہنچنا‘ دانتوں والے ڈاکٹر یعنی ڈینٹسٹ کے پاس اس وقت جانا جب کیڑا دانت کو کھا کر داڑھ کو پھاڑنے کی تیاری کر چکا ہو‘ بچوں کو نماز پڑھنے اور موبائل فون سے دوری اختیار کرنے کا کہتے رہنا لیکن خود موبائل فون سے چپکے رہنا‘ صبح اٹھ کر اپنے بستر اور چادر کو نہ سمیٹنا‘ موبائل فون کو ساری رات چارجنگ پر لگانا اور پھر گلہ کرنا کہ موبائل کی بیٹری خراب ہو گئی ہے‘ گاڑی میں موبل آئل اس وقت ڈلوانا جب وہ کالا سیاہ ہو جائے اور اس کی مقدار بھی کم ہو جائے‘ دفاتر میں نوکری کرتے ہیں تو صرف ٹائم پورا کرنے پر دھیان دینا اور کام کو بلا وجہ طول دینا‘ محفل میں چائے شڑپ شڑپ کرکے پینا ‘ پہلے تو ایمبولینس کو راستہ نہ دینا اور جب دینا تو فوراً اس کے پیچھے گاڑی لگا لینا تاکہ وی آئی پی موومنٹ کا مزہ لیا جا سکے‘ فیس بک پر کسی کی وفات پر لائیک کا بٹن دبانا اور کمنٹ میں افسوس کے چند الفاظ یا جملے لکھنے کے بجائے صرف آر آئی پی لکھ کر جان چھڑانا‘ گاڑی چلاتے وقت بار بار وٹس ایپ اور نوٹیفکیشن چیک کرنا‘ سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ نہ پہننے پر ٹریفک سارجنٹ کے روکنے پر فوری عذر پیش کرنا کہ میں بس یہاں تک جا رہا ہوں‘ جلدی میں نکلا تھا پہننا بھول گیا‘ سڑک کنارے ریڑھیوں سے شربت پینا اور پھر سوچنا کہ ہیپاٹائٹس کیوں ہوگیا‘ سپلٹ ایئرکنڈیشنر کے فلٹر کئی کئی مہینے صاف نہ کرنا اور پھر گلہ کرنا کہ اے سی ٹھنڈ کیوں نہیں کر رہا اور بجلی کا بل زیادہ کیوں آ رہا ہے‘غلطی سے کوئی لڑکی رانگ نمبر کی کال کر دے تو فوراً نمبر سیو کرنا ‘ گھر میں بجلی‘ سوئی گیس اور پانی کے محکموں اور دیگر ایمرجنسی نمبروں کو واضح طور پر کسی دیوار پر آویزاں نہ کرنا اور ایمرجنسی کے وقت گھر کے دیگر افراد پر نظم و ضبط پر عمل نہ کرنے کا غصہ نکالنا‘ رات کو دیر تک موبائل فون کے ساتھ کھیلنا‘ غیرضروری ویڈیوز اور ٹک ٹاک دیکھنا اور پھر کہنا کہ نیند آنکھوں سے دور کیوں ہوگئی ہے‘ ڈپریشن کیوں ہوتا ہے اور آنکھیں کیوں کمزور ہورہی ہیں‘ موبائل فون کی سکرین بچانے کیلئے فرنٹ کور آئے روز تبدیل کروانا لیکن سر بچانے کیلئے اچھا ہیلمٹ خریدنے کی کوشش تک نہ کرنا اور چالان ہو جائے تو یہ عذر پیش کرنا کہ ہیلمٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں‘ عزیز رشتہ داروں میں کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کیلئے نہ جانا‘ کسی کی شادی ہو تو اس میں شرکت نہ کرنا لیکن خود بیمار ہو جائیں یا اپنے بچے کی شادی ہو تو لوگوں سے گلہ کرنا کہ وہ عیادت یا شادی میں شریک کیوں نہیں ہوئے‘ کسی کو شادی یا ولیمے کی تقریب میں شرکت کی دعوت نہ دینا اور کارڈ‘ وٹس ایپ یا موبائل فون کال سے مطلع نہ کرنا لیکن جب کوئی شادی میں شریک نہ ہوتو قریبی رشتہ داروں کے ذریعے اپنا گلہ پہنچناکہ آپ ان کی شادی میں شریک کیوں نہیں ہوئے‘ صبح کا ناشتہ انتہائی کم کھانا اور رات گئے کھابے اڑانا اور پھر شور مچانا کہ معدہ خراب ہو گیا پیٹ خراب ہو گیا‘ ڈاکٹر کو اپنی بیماری کی تفصیلات بتانا لیکن ڈاکٹر جو نسخہ دے اس میں سے مرضی کی دوائیاں لینا اور پانچ دن کے بجائے ایک دو دن کھانا اور پھر ڈاکٹر کو الزام دینا کہ وہ ٹھیک سے علاج نہیں کرتا‘ کمپیوٹر ٹیبل پر غلط زاویے سے بیٹھنا اور پھر کہنا کہ کمبخت کمر کا درد ختم ہی نہیں ہوتا‘ ٹریفک سگنل پر لال بتی ہونے پر گاڑی کا ٹائر مقررہ لائن سے تھوڑا آگے رکھنا‘ ٹریفک وارڈن نہ ہو یا اس کی گردن دوسری جانب ہونے کا انتظار کرنا اور پھر ریس دبا کر اشارہ توڑ دینا‘ چھٹی یا اتوار والے دن اور رات گئے ٹریفک سگنلز کی کھلم کھلا خلاف ورزی یہ سوچ کر کرنا کہ آج تو چھٹی کا دن ہے یا ابھی کون سی زیادہ ٹریفک ہے‘ چھوٹے چھوٹے قانونی ضابطوں کو یہ سوچ کر توڑ دیناکہ ہمارے دین میں کون سا اس بارے میں ذکر ہے‘ ٹیکس یا رشتہ داروں کو وراثت میں حصہ دینے کا وقت آئے تو وکیل سے ایسا حل تلاش کرنے کا کہنا‘ جس سے کم سے کم ٹیکس اور حصہ دیا جائے‘ دوسروں کو ہمیشہ حقیر خیال کرنا اور کسی میں کوئی کمی یا خرابی دیکھ کر فوراً یہ اندازے لگانا اور ایسی باتیں کرنا کہ ضرور یہ شخص گنہگار ہے یا قدرت نے کوئی سزا دی ہے جو یہ اس حال میں ہے۔
ہم لوگ اکثر امریکہ کینیڈا وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن وہاں لوگ کیا کرتے ہیں‘ کیسے رہتے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں‘ اس بارے میں جاننے میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ اوپر بیان کردہ باتوں میں سے زیادہ تر پر جدید ممالک میں عمل کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں وہاں جانے اور رہنے کا موقع ملے تو ہم بھی بندے کے پتر بن جاتے ہیں لیکن اپنے ملک میں قانون‘ اخلاق‘ انصاف اور روایات کی دھجیاں اڑانے سے باز نہیں آتے اور ہمارے یہی عجیب و غریب رویے ہمیں آگے بڑھنے سے روکنے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔