ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ مینارِ پاکستان پر جو ہوا‘ اس پر عوام کی رائے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ٹک ٹاکر خاتون کو ہزاروں مردوں کے مجمع میں نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ وہاں جس طرح کے لڑکے آئے تھے اس طرح کا ردعمل آنا غیر معمولی نہیں تھا جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ‘اوباش افراد ذمہ وار ہیں انہیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خاتون نے ٹک ٹاک پر اپنے مداحوں کو یہ پیشگی پیغام بھیجا کہ وہ چودہ اگست کو مینارِ پاکستان آ رہی ہے‘ اس کے چاہنے والے وہاں آ کر اس سے مل سکتے ہیں؛ چنانچہ وہ جیسے ہی وہاں پہنچی درجنوں لڑکے وہاں پہلے سے موجود تھے ۔ شروع میں انہوں نے لڑکی کے ساتھ سیلفیاں بنائیں اور اس کے بعد جتھوں کے جتھے اس طرف آ گئے اور لڑکی کو اپنی جان بچانا مشکل ہو گئی۔
بہت سوں کا خیال ہے پاکستان ایک مسلم ریاست ہے یہاں خواتین کو مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے ۔پھر آئیڈیل مسلم معاشرے کی مثالیں دینے والے بھی بہت ہیں کہ ایسے معاشرے میں رات گئے جنگل سے گزرنے والی لڑکی کو بھی یہ خوف نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ کہنے سننے کو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن اصل بات زمینی حقائق کی ہے۔ یہ باتیں اس اسلامی یا غیر اسلامی ملک کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہیں جہاں اسی نوے یا سو فیصد آبادی خواندہ ہو۔جہاں تعلیم‘ علاج اور روزگار کے اعلیٰ مواقع میسر ہوں۔ جہاں ایک عام کلرک سے لے کر صدر تک‘ اخلاقیات پر عمل کرتے ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں قانون کا مکمل راج ہو وہاں تو یہ ہو سکتا ہے لیکن ایسے ملک میں جہاں آئے روز جرائم کی نت نئی داستانیں آ رہی ہوں‘ جہاں لوگ ڈگریاں لے کر گھر بیٹھے ڈکیتی کے پلان بنا رہے ہوں اور جہاں بڑے بڑے مجرموں کو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہو وہاں پر معمول سے ہٹ کر کوئی بھی قدم اٹھانا اپنی جان اورعزت دائو پر لگانے والی بات ہے۔اب یہاں ایک اور مصیبت ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی ایسی بات کرتا ہے کہ ٹک ٹاکر کو ایسی وڈیوز نہیں بنانی چاہئیں یا وہاں ایسے نہیں جانا چاہیے تھا تو لوگ لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جیسے وہ حملہ آوروں یا اوباش جتھوں کیلئے کوئی ہمدردی رکھتا ہو۔ سوشل میڈیا پر بھی جو بھی کوئی ایسی بات کرتا ہے لوگ اسے طعنے دینے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تصویر کے دوسرے رخ کو بھی سامنے لارہا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک نہ عرب ممالک کی طرح قانون کے نفاذ کے معاملے میں اتنا سخت ہے نہ ہی امریکا اور یورپی ممالک کی طرح یہاں لوگ سڑکوں پر اس طرح کی حرکات کے عادی ہیں کہ آنکھیں موند لیں یا اِگنور کر کے چلتے رہیں۔یہاں لوگ تماشا دیکھنے کے عادی ہیں اور کوئی بھی اپنا تماشا لگوانا چاہے تو اس میں کسی کا کیا قصور۔ جن اوباش لڑکوں نے ایسا کیا انہیں پکڑیں اور سزا دیں‘ کس نے آپ کو روکا ہے لیکن براہِ مہربانی اس حقیقت کو بھی جانیں کہ ہم کس ماحول میں رہتے ہیں اور ہماری کس حرکت پر کیا ردعمل آ سکتا ہے‘ اس طرف بھی سوچا جانا چاہیے۔
بعض لوگ لندن یا نیویارک کی وڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں کوئی ٹک ٹاک سٹار سرِ بازار ڈانس کی ٹک ٹاک وڈیو بنا رہی ہے اور نیچے لکھا ہے کہ یہاں تو کوئی اس پر حملہ نہیں کر رہا... تو بھائی اس کی وجوہات بھی دیکھ لو ۔ سب سے پہلے تو ایک انتہائی آزاد کلچر کا پاکستان سے موازنہ نہیں بنتا۔ وہاں ڈانس وغیرہ کو فحاشی نہیں سمجھا جاتا جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ پھر سب کے اپنے اپنے معیار ہیں۔ لوگ اپنی شادیوں وغیرہ میں ڈانس کرتے ہیں یا بھنگڑے ڈالتے ہیں تو انہیں کوئی اس شدید انداز میں برا بھلا نہیں کہتا جتنا سڑکوں ‘ پارکوں یا تھیٹروں میں ڈانس کرنے والوں کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہاں یہ چیزیں عام نہیں ہیں۔پھر مینارِ پاکستان پر جس طرح کے لڑکے آئے تھے ان کا تعلق اسی گروہ سے تھا جو گزشتہ دنوں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پرچے آن لائن لینے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تھے حتیٰ کہ مال روڈ پر بھی احتجاج کیلئے پہنچ گئے تھے۔ سارا دن سوتے رہنا‘موبائل فون پر ٹک ٹاک وڈیوز دیکھتے رہنے اور رات کو موٹر سائیکلوں پر آوارہ گردی کیلئے نکل جانا ایسے لڑکوں کی زیادہ سے زیادہ مصروفیت ہوتی ہے تو ایسوں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
جس خاتون کے ساتھ یہ ہوا‘ وہ ٹک ٹاک پر جس طرح کی وڈیوز بنا چکی ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ اس میں ہونے والی گفتگو اور دیگر حرکات و سکنات آپ دیکھ سکتے ہیں تو جب دیکھنے والے مداحوں کو ایسے ٹک ٹاکر بلائیں گے تو وہ لامحالہ ویسے ہی ان کا استقبال کریں گے۔اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔کیا یہ غلط ہے کہ ٹک ٹاک پر پاکستان سے اسی فیصد فحش وڈیوز اَپ لوڈ ہو رہی ہیں؟ کیا وزیراعظم عمران خان اس کا کئی مرتبہ نوٹس نہیں لے چکے؟ کیا ٹک ٹاک کو اسی فحاشی اور بدمعاشی کی وجہ سے بار بار بند نہیں کیا گیا؟ کیا حال ہی میں سندھ ہائیکورٹ نے اسے دوبارہ بند کرنے کا حکم نہیں دیا؟ اس لڑکی کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والوں کو سو نہیں ہزار جوتے ماریں‘ ان کی اچھی طرح طبیعت صاف کریں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ جب وہ لڑکے سزا کاٹ کر واپس اپنے گھروں کو جائیں تو ٹک ٹاک پر ایسی وڈیوز آنا ختم ہو چکی ہوں جس میں جسمانی اعضا کی نمائش‘ ذو معنی جملے اور ٹھرک پن پھیلایا گیا ہو؟ یہ سب دیکھ کر ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس موقع پر جہاں ایسے افراد کی چھترول ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے خواتین غیر محفوظ ہیں‘ وہیں ٹک ٹاک پر اَپ لوڈ ہونے والے مواد کو بھی فلٹر کرنا ضروری ہے ۔
آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں‘ مادر پدر آزادی آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گی۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ وہ لوگ جو فیس بک‘ ٹویٹر یا انسٹا گرام پر موجود ہیں اور سنجیدہ مواد نشر کر رہے ہیں یا جن کا معاشرے میں ایک مقام ہے وہ ٹک ٹاک پر کیوں موجود نہیں ہیں؟ کچھ لوگوں نے جانے کی کوشش بھی کی لیکن وہاں موجود نوے فیصد غیر اخلاقی مواد کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ گئے کیونکہ ٹک ٹاک بدنامی کا ٹیگ بنتا جا رہا ہے۔ ٹک ٹاک بذات خود بری ایپ نہیں لیکن ہم نے اس پر غلط مواد ڈال ڈال کر اسے خراب کر دیا ہے۔ویسے سچ پوچھیں تو جس طرح اسے ڈیزائن کیا گیا ہے اس کا مثبت استعمال انتہائی مشکل ہے، تیس سیکنڈ میں آ پ کیا بیان کر سکتے ہیں؟ اتنی دیر میں تو ششکے اور شو بازیاں،خرمستیاں'چمکتے دمکتے سوٹ اور بیک گرائونڈ میں کسی گانے کو چلا کر ہی آپ کسی کو متوجہ کر سکتے ہیں۔ تیس سیکنڈ میں تو آپ کسی بات کی تمہید ہی نہیں ٹھیک سے باندھ سکتے تو کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیسے کریں گے۔ اس کے باوجود کئی لوگوں نے وہاں اچھی اور مفید وڈیوز بھی ڈالی ہوئی ہیں جن میں صفائی ستھرائی‘ ہمسایوں کے حقوق‘وقت کی پابندی اور بڑوں کے ادب جیسے موضوعات پر چھوٹے چھوٹے کلپس بنائے گئے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ یہ اپنا پیغام اس طرح سے نہیں پھیلا پاتے جس طرح غیر اخلاقی قسم کی وڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں۔میں پھر کہوں گا کسی بھی خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرنے کا کسی کو حق نہیں‘ چاہے وہ ٹک ٹاکر ہو یا کوئی عام لڑکی‘ اور ملزموں کو ٹھیک ٹھاک سزا دینی چاہیے لیکن ایسے قدم اٹھاتے وقت زمینی حقائق کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر ایسے ٹک ٹاکرز کو سوچنا چاہیے کہ وہ کچے ذہنوں کے ساتھ جس طرح سے کھیل رہے ہیں اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔صرف لائکس اور آمدنی کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ اچھے مواد کو لائکس اور آمدنی کا ذریعہ بنائیں اسی میں پورے معاشرے کی بھلائی ہے۔