وقت کے ساتھ ہم محفوظ ہو رہے ہیں یا غیرمحفوظ‘ اس کا اندازہ آپ گزشتہ چند دنوں کے واقعات سے لگا سکتے ہیں۔ بندر کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کی ماچس لگ گئی ہے۔ ٹک ٹاکر نے گریٹر اقبال پارک آنے کی غلطی کی یا جیسے بھی یہ واقعہ ہوا لیکن اس کو لیکر بہت سے لوگوں کی دکانیں چمک اٹھیں۔ انتہائی گھٹیا ویڈیوز اور یوٹیوب چینل کا گویا سیلاب آ چکا۔ ہر کوئی سبسکرائب کرنے کی درخواست یوں کررہا ہے گویا اس کے بغیر صارفین کا دین اور ایمان مکمل نہیں ہوگا۔ ابھی ہم چینلز پہ سینسر پالیسی پر غور کررہے تھے کہ سوشل میڈیا کا بے ہنگم شورکان پھاڑنے کو ہے۔ سوشل میڈیا کے ایک بازی گر فرماتے ہیں: ٹک ٹاک پر تنقید نہ کرو‘ حکومت اگر نوکریاں نہیں دے سکتی تو یہ نوجوان کیا کریں کہاں جائیں؟ ان سے کوئی پوچھ‘ے پیسے تو مخربِ اخلاق سائٹس پر ویڈیوز ڈالنے کے بھی ملتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر لوگ اس لئے جاتے ہیں کہ وہاں پیسے کے ساتھ ساتھ شہرت کا نشہ بھی خوب پورا ہوتا ہے‘ وگرنہ حلال روزی کمانے کے بہت طریقے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگ معلوماتی مواد ڈال رہے ہیں۔ ان میں سنسنی نہیں ہوتی اور دیکھنے والے انہیں بھی دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ انسان کے اندر کا شیطان ہوتا ہے جسے شہرت کی بھوک ستاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں لوگ ہمیں جانتے ہیں ہمارے ساتھ تصویر کھنچوانے کو ترس رہے ہیں تو نہ جانے ہم میں ایسا کیا ہے جو کسی اور میں نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
لوگ پل میں بدل جاتے ہیں۔ آپ منظر سے کچھ دن‘ کچھ ہفتے کیلئے غائب ہو جائیں لوگوں کو آپ یاد بھی نہیں رہیں گے۔ نئے نئے لوگ آپ کی جگہ توجہ حاصل کر لیں گے۔ کوئی آپ کے گھر آکر نہیں پوچھے گا کہ آپ کس حال میں ہیں‘ کیوں سامنے نہیں آ رہے اور کیا آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہے؟ یقین نہیں آتا تو ماضی کے حکمرانوں‘ ٹی وی اور فلم کے اداکاروں کو دیکھ لیں۔ کئی بھارتی اداکاروں نے کروڑوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ پھر نئے اداکار آ گئے اور لوگ ان کی فلموں کے دیوانے بنتے چلے گئے۔ بہت سے اداکاروں کو کینسر جیسی سنگین بیماریوں نے آن لیا۔ کوئی ڈپریشن سے بستر پر جا لگا۔ لوگ انہیں بھول بھلا گئے۔ خود ہمارے کئی پاکستانی ڈرامہ اداکار‘ جنہیں دیکھتے ہمارا بچپن گزرا‘ آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہو گئے۔ آج یوٹیوب پر پرانے ڈرامے چلے تب جاکر یاد آیا کہ گیسٹ ہائوس ڈرامے کے شمیم بھی ہیں۔ مراد جو گیسٹ ہائوس میں ویٹر کا کردار ادا کرتے تھے وہ حال ہی میں اتنی خاموشی سے انتقال کرگئے کہ خبر ہی نہ ہوئی۔ شہرت کی عمر آسمانی بجلی کی چمک سے زیادہ نہیں ہوتی جس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ آپ شہرت اور کامیابی کیلئے دس برس تک تابڑ توڑ محنت کرتے رہیں لیکن جب یہ حاصل ہوتی ہے تو دس منٹ بھی نہیں لگتے اور جب یہ جاتی ہے تو دس سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ زندگی کیا ہے؟ ہم ماں کے پیٹ سے آتے اور قبر کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں‘ ہم اپنی زندگی کے ساٹھ‘ ستر‘ اسّی سال گزار دیتے ہیں‘ ہم دنیا کے ہر کھانے‘ ہر نعمت اور ہر تفریح کا مزا لیتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کر پاتے کہ زندگی ہے کیا اور خدا ہم سے کیا چاہتا ہے۔ شہرت ایک وقت کے بعد انسان کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن جاتی ہے اس کا اندازہ شروع میں نہیں ہوتا۔ آپ کسی مشہور شخصیت سے پوچھیں‘ کسی اداکار‘ کسی کھلاڑی یا کسی گلوکار کی نجی زندگی کے چند پہلو دیکھیں آپ کو معلوم ہو جائے گا‘ شہرت کے بغیر انسان کتنی پُر سکون اور کتنی مزیدار زندگی گزارتا ہے۔ یہ بات آپ کسی بھی ملک کے سابق صدر‘ وزیراعظم کے بچوں سے پوچھ کر دیکھیں‘ وہ آپ سے کہیں گے‘ کاش ہم آپ کی جگہ ہوتے تو کس قدر خوش اور آزاد زندگی گزار سکتے۔ ہم تو نہ اپنی مرضی سے کہیں جا سکتے ہیں نہ آ سکتے ہیں۔ زندگی کو ہم اس طرح انجوائے نہیں کر سکتے جس طرح آپ لوگ کرتے ہیں۔ ہم جہاں جاتے ہیں لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کسی ریسٹورنٹ میں ہم ٹھیک سے نوالہ گلے سے نہیں اتار سکتے۔ کسی پُرفضا مقام پر کھل کر سانس نہیں لے سکتے اور کسی دکان میں جاکر ایک شرٹ نہیں خرید سکتے‘ ہم جہاں بھی جاتے ہیں لوگ گھورنے لگ جاتے ہیں‘ ہماری تصویریں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے یہ آٹوگراف لیتے تھے اب سیلفیاں کھنچوانا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں یہ ہم سے محبت میں ایسا کرتے ہیں لیکن یہ محبت اب ہمیں نفرت لگنے لگی ہے۔ لوگ مگر یہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ وہ بھی یہ سب شہرت کیلئے کرتے ہیں تاکہ اپنے عزیزوں دوستوں کو دکھا سکیں ہم فلاں سیلیبرٹی سے مل کر آئے ہیں۔ جس طرح بلی گوشت کے چھیچھڑے دیکھ کر ان پر چھلانگ لگا دیتی ہے ایسے ہی ہمارے مداح ہمارے پرخچے اڑانے کو تیار رہتے ہیں۔
شہرت یافتہ لوگ اندر سے کتنے تنہا اور کتنے اکیلے ہوتے ہیں یہ ان سے پوچھ کر دیکھیں۔ عجیب بات ہے کہ عام لوگ ان کی طرح بننا چاہتے ہیں اور وہ عام لوگوں کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شہرت یافتہ فرانسیسی گلوکار نے اپنے بیٹے کو دنیا دکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نقلی بال اور داڑھی مونچھ لگائیں اور بیٹے کو لے کر سیر کو نکل گیا۔ وہ اسے غریبوں اور عام لوگوں کی دنیا دکھانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے باپ پر فخر کر سکے۔ اس محل سے باہر کی دنیا جو اس نے کبھی پروٹوکول کے بغیر دیکھی نہ تھی۔ وہ ایک گائوں پہنچے اور ایک رات وہاں رہے۔ اگلے روز واپس جانے لگے تو والد نے بیٹے سے پوچھا ''تمہیں یہاں رہنا کیسا لگا‘‘ بچے نے باپ کا سوال سنا اور گہری سوچ میں چلا گیا‘ ایک لمبی خاموشی کے بعد بولا ''یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا‘‘ جواب سن کر والد بہت خوش ہوا‘ اس نے پوچھا ''اچھا تو بتائو کیا تم نے دیکھا یہ غریب اور یہ عام سے لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم کس قدر خوشحال اور خوش قسمت ہیں‘‘۔ بیٹے نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ والد نے دوبارہ پوچھا ''تو تم نے کیا سیکھا‘‘ بیٹے نے ایک نظر گائوں پر ڈالی اور بولا ''ہمارے بنگلے میں ایک چھوٹا سا سوئمنگ پول ہے جس میں بار بار پانی بھرنا اور صاف رکھنا پڑتا ہے جبکہ ان گائوں کی ندی کی لمبائی کا کوئی حساب نہیں اوریہ ہمیشہ تازہ اور شفاف پانی کے ساتھ بہتی رہتی ہے‘ ہمارے لان میں جو لائٹس لگی ہوئی ہیں وہ صرف لان کو روشن کرتی ہیں جبکہ ان کی چھت پر وہ آسمان ہے جس کے ستاروں کی چمک سے پورا گائوں جگمگاتا ہے‘ ہمارا صحن گھر کی بیرونی دیوار تک جاکر ختم ہو جاتا ہے جبکہ ان کا صحن گائوں کے چاروں اطراف میں سینکڑوں ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے‘ ہمارے گھر میں درجنوں نوکر چاکر ہیں جو ہماری خدمت کرتے ہیں مگر یہ لوگ سب کے سب ایک دوسرے کے خدمت گار ہیں‘ ہمارے ملازم سبزیاں‘ پھل خریدنے کیلئے بڑے بڑے سٹوروں‘ دکانوں پر جاتے ہیں‘ مگر یہ لوگ سبزیاں اور پھل خود اگاتے ہیں‘ خود بھی کھاتے ہیں اور ہمیں بھی کھلاتے ہیں‘ ہم ساتھ والے گھر کو نہیں جانتے‘ مگر یہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو جانتے بھی ہیں اور بانٹتے بھی‘ ہم مٹی سے نفرت کرتے اور سارا سارا دن ڈسٹنگ کرتے رہتے ہیں مگر یہ مٹی کے گھروں میں رہتے ہیں‘ مٹی میں ہل چلاتے ہیں اور مٹی سے پیار کرتے ہیں‘ ہم دھوپ سینکنے کیلئے سن باتھ اور سن باتھ کیلئے سمندر کے کنارے ڈھونڈتے ہیں‘ جبکہ یہ لوگ اپنے گھروں کے آنگن اور کھیتوں کھلیانوں میں دھوپ انجوائے کرتے ہیں‘ ہم رات کو دروازوں کی چٹخنیاں چڑھا دیتے ہیں پھر بھی جاگ کر راتیں گزارتے ہیں‘ یہ لوگ کھلے دروازوں کے ساتھ اطمینان سے سوتے ہیں‘ ہم اپنی حفاظت کیلئے کئی کئی سکیورٹی ایجنسیاں اور درجنوں سکیورٹی گارڈ ہائر کرتے ہیں لیکن یہ سب ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر گلوکار کا بیٹا خاموش ہو گیا۔ اس کا باپ حیران و ششدر کھڑا تھا کہ بچہ بولا ''ابو! آپ کا بہت شکریہ ‘ آج آپ نے دکھلا دیا ہم کتنے غریب‘ کتنے عام لوگ ہیں‘‘۔