اقوام متحدہ کے مطابق‘ دنیا کے بیس ممالک میں بھوک کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، مستقبل میں لاکھوں انسانوں پر سیاسی تنازعات‘کورونا کی وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اقدامات نہ کیے تو بڑا انسانی المیہ سامنے آسکتا ہے۔ اس حوالے سے عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق‘ دنیا میں تین کروڑ چالیس لاکھ افراد انتہائی غذائی قلت کا شکار اور موت کے قریب ہیں۔ سب سے زیادہ برا حال جنگ زدہ علاقوں کا ہے جن میں یمن‘جنوبی سوڈان اور شمالی نائیجیریا سرفہرست ہیں۔ شام‘ لبنان اور ہیٹی کے بعد اب افغانستان میں بھی بھوک کا شدید بحران جنم لے چکا ہے۔
تقریباً ایسے ہی خدشات‘ جن کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں نظر آ رہی ہیں‘ کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے ورچوئل خطاب کے دوران کیا۔ وزیراعظم صاحب نے دنیا کو کورونا سے منسلک اقتصادی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کیا کیونکہ وائرس اقوام اور لوگوں کے درمیان امتیاز نہیں کرتا اور نہ ہی غیر یقینی موسمی حالات سے درپیش آفات امیر‘ غریب میں تمیز کرتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان اب تک کورونا وبا سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب رہا ہے لیکن دنیا کے کئی ممالک اس سے اب بھی شدید متاثر ہیں۔ وزیراعظم صاحب ایک طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نہ صرف آگاہ کرتے آ رہے ہیں بلکہ اس حوالے سے انہوں نے کئی اقدامات بھی کئے ہیں جن میں بلین ٹری سونامی منصوبہ سرفہرست ہے۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت اب دس بلین درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھااور یہ ہدف اگلے پانچ برس کے لیے ہے۔ پلان کے مطابق پہلے تین سال میں تین ارب درخت لگائے جائیں گے۔ اس سے قبل ورلڈ بینک اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کے ایسے چھ اضلاع کی نشاندہی کر چکا ہے جہاں شجرکاری نہ کی گئی تو وہ اگلے تیس برس میں ریگستان بن جائیں گے؛ تاہم موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات صرف پاکستان کو ہی درپیش نہیں بلکہ یہ آج پورے کرۂ ارض کی بقا کا معاملہ بن چکا ہے۔
کئی معاملات ایسے ہیں جن میں ہمیں ایک جامع حکمت عملی درکار ہے‘ ان میں سب سے اہم نکتہ ویکسین میں مساوات کا ہے۔ کورونا امیر‘ غریب ممالک میں فرق نہیں کر رہا تو اس سے نمٹنے کیلئے بھی تفریق کا انداز نہیں اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہر ملک کو‘ چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا‘ ترقی یافتہ ہے یا ترقی پذیر‘ کووڈ کے خلاف جتنی جلدی ممکن ہو، ویکسین فراہم کی جانی چاہئے۔ دوسرا اہم نکتہ ترقی پذیر ممالک کیلئے سرمایے کی دستیابی کا ہے، یعنی جو ممالک قرضوں میں پہلے سے جکڑے ہوئے ہیں‘ انہیں قرضوں کی واپسی میں آسانیاں فراہم کی جانی چاہئیں۔ ان کے قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بڑھا کر اور ری شیڈولنگ کر کے انہیں ریلیف دیا جا سکتا ہے تاکہ وہ کورونا سے ہونے والی تباہی سے ممکن حد تک خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ تیسرا نکتہ‘ جس کی طرف انہوں نے توجہ دلائی وہ سرمایہ کاری کیلئے واضح حکمت عملی ہے تاکہ نئے روزگار پیدا ہوں‘غربت میں کمی لائی جا سکے اور کورونا کے شکار ممالک کے بنیادی انفراسٹرکچر کو بحال اور بہتر بنایا جا سکا۔
کرپشن کے باعث دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم بھی دنیا میں عدم مساوات جیسے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ یہ حقائق انتہائی خوفناک ہیں کہ دنیا کے سات ٹریلین ڈالر کے چوری شدہ اثاثہ جات مالیاتی طور پر محفوظ ٹھکانوں میں جمع ہیں اور کرپٹ حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کرپشن کے مسئلے پر بھی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ اور جب کرپشن عالمی سطح کی ہو تو اس کے نقصانات کا دائرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح کی کرپشن ترقی پذیر ممالک کے محدود وسائل کے خاتمے کے باعث بنتی ہے اور غربت کی سطح کو مزید گمبھیر بنا دیتی ہے ۔ منی لانڈرنگ کی وجہ سے مقامی کرنسی کی قدر گر جاتی ہے اور اس دولت کو لوٹ کر مغربی دارالحکومتوں اور آف شور ٹیکس فری جنتوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک سے چرائے گئے اثاثہ جات کو واپس لینا غریب اقوام کیلئے ممکن نہیں اور یوں ان ممالک کیلئے مسائل کی دلدل مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
چوتھا نکتہ‘ جس کی طرف وزیراعظم نے توجہ دلائی‘ وہ اسلاموفوبیا ہے جس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام اور دینِ اسلام پر انگلی اٹھانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد بلاوجہ بعض حلقوں کی طرف سے بلا وجہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ منسوب کیا گیا جس کے بعد خاص طور پر امریکا اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسلامو فوبیا کی انتہائی بدترین شکل کا اس وقت بھارت پر راج ہے۔ نفرت سے بھرپور ہندوتوا نظریے نے‘ جس کا پرچار فاشسٹ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت نے کیا ہے‘ بھارت کی مسلم برادری میں خوف اور تشدد کی لہر پیدا کی ہوئی ہے۔ گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر لوگوں کو تشدد کر کے مارنے، اقلیتوں پر حملہ کرنے کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں ۔ پھر یہی بھارت‘ جو خود سیکولر کہتا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اقدامات کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔
کورونا سے قبل جب وزیراعظم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں گئے تھے تب بھی ان کی تقریر کا فوکس مقبوضہ کشمیر تھا جس پر بھارت کو خاصی تکلیف پہنچی تھی۔ حالیہ تقریر میں بھی انہوں نے بالخصوص5 اگست 2019 ء کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے متعدد غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات سے دنیا کو آگاہ کیا کہ کس طرح بھارت نے نو لاکھ قابض افواج کے ذریعے دہشت کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ کشمیریوں کی سینئر قیادت کو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔ میڈیا اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ پُرامن احتجاج کو پُرتشدد طریقے سے دبایا جا رہا ہے۔ 13 ہزار نوجوان کشمیریوں کو اغوا کیا گیا جبکہ ہزاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ جعلی مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا حتیٰ کہ پورے پورے محلوں اور دیہات کو تباہ کرکے لوگوں کو اجتماعی سزائیں دی گئیں۔ کون نہیں جانتا کہ ان غیر قانونی کوششوں اور جابرانہ ہتھکنڈوں کا واحد مقصد مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ یہ تمام بھارتی اقدامات جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔ بھارتی بربریت کی تازہ ترین مثال عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی کے جسدِ خاکی کو زبردستی چھیننا، ان کے خاندان اور دوست احباب کو نمازِ جنازہ کی ادائیگی جیسے مذہبی فریضے سے روکنا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں تدفین سے محروم رکھنا ہے۔ کسی قانونی یا اخلاقی پابندی سے عاری یہ عمل انسانی شائستگی کی بنیادی اقدار کے بھی منافی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے یہ مطالبہ بروقت اور برحق ہے کہ مناسب رسوم کے ساتھ سیّد علی گیلانی کے جسدِ خاکی کی‘ ان کی وصیت کے مطابق‘ شہدا کے قبرستان میں تدفین کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح انہوں نے افغانستان کے مسئلے پر بھی دنیا کو جھنجوڑاکیونکہ دنیا اس مسئلے کو اگر سنجیدہ نہیں لے گی تو خطے کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کو بھی اس کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، اگر ان کی تعداد بڑھتی ہے تو اکیلا پاکستان کیسے ان کا بوجھ اٹھائے گا‘ اس لئے تمام دنیا کو افغان عوام کی امداد کیلئے آگے آنا چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ صرف افغانستان کے چند ہمسایہ ممالک تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا افغانستان کے عوام کی بہتری کیلئے وہاں کی حکومت کو مضبوط کرنے سے یہ مسئلہ وہیں پر حل کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام مسائل اور نکات پر دنیا کوسنجیدگی سے غور کرنا اور ان کے حل کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی تاکہ ایک پائیدار‘مضبوط اور مساوات پر مبنی عالمی بھائی چارے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔