کورونا کی چوتھی لہر اپنے آخری دموں پر ہے۔ ممکن ہے یہ آخری لہر ہو اور حالات معمول پر آ جائیں تاہم ابھی کورونا چونکہ پوری طرح ختم نہیں ہوا اس لئے وبا کے خطرات موجود ہیں۔ پاکستان میں چھ کروڑ افراد کو ویکسین کی ایک یا دو خوراکیں لگ چکی ہیں۔ ان میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے صرف سرٹیفکیٹ بنوائے ہیں اور ایک بھی ڈوز نہیں لگوائی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق کورونا کو پاکستان سے بھگانے میں مزید تین سے چار سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس دوران پابندیاں گھٹتی بڑھتی رہیں گی ۔ گیارہ اکتوبر سے سکولوں کو مکمل کھولا جا رہا ہے‘ جس کا سکول کے بچوں کو بالکل بھی یقین نہیں آ رہا۔ وہ بچے جو کبھی اخبار نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی ٹی وی خبرنامہ دیکھنے میں جنہیں کوئی دلچسپی تھی اب وہ بار بار اخبار اور ٹی وی کی خبریں دیکھ رہے ہیں کہ کہیں سے انہیں اس فیصلے کے واپس لئے جانے کی خبر مل جائے۔ بہت سے بچے تو اس پر یقین کرنے کو بھی تیار نہیں کیونکہ کورونا میں یا تو مکمل چھٹیاں رہی ہیں یا پھر ہفتے میں بچے دو دن سکول جاتے تھے۔ یہ انہونی واقعی ہو جائے گی انہوں نے سوچا تو ہو گا لیکن ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد بھی وہ اس کیلئے تیار نہ تھے۔ آن لائن کلاسوں کی بچوں کو اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ وہ امتحان بھی آن لائن ہی دینے پر تُلے رہتے تھے۔ کچھ طلبا تو اس مطالبے کو لے کر سڑکوں پر احتجاج کیلئے بھی نکل آئے تھے۔ تاہم بچے جو بھی کہیں یہ کورونا زیادہ دیر رہ گیا تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا کہ گھروں میں بند رہ رہ کر خاص طور پر بچوں کو طرح طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عارضے لاحق ہو رہے ہیں۔ سکول کالج بند ہوئے تو سب کا فوکس موبائل فون اور ٹی وی کی طرف ہو گیا تھا۔ اب تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں تو زندگی اپنے اصل کی جانب لوٹے گی۔ اکتوبر نومبر میں سموگ بھی حملہ آور ہو جاتی ہے۔ پھر سردی کی آمد آمد ہے اس لئے احتیاط کے ساتھ ہی اگلے دو مہینے گزارنے ہو ں گے وگرنہ پانچویں لہر زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہو سکتی ہے۔
کورونا کے حوالے سے ہر بندے کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے حکمران تک اسے شروع میں سنجیدہ نہیں لے رہے تھے اور محض ایک موسمی بیماری قرار دیتے تھے۔ شروع میں کورونا پاکستان میں سردیوں کے اختتام پرفروری میں آیا تھا۔تب یہ کہا جا رہا تھا کہ گرمیوں کے موسم میں یہ وائرس ختم ہو جائے گا‘ یہ جون کی گرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ پہلی لہر اگست تک چلی تھی۔ درمیان میں ستمبر اور اکتوبر میں کچھ وقفہ آیا اور پھر دوسری لہر شدت کے ساتھ آئی۔ اب کی بار کیا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن چونکہ ابھی آدھی سے زیادہ آبادی کو ویکسین لگنا باقی ہے اور انٹرنیشنل فلائٹس بھی کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں تو کورونا کا خطرہ بدستور منڈلاتا رہے گا۔ ویکسین کے بارے میں بھی جو توقعات تھیں ان کا انجام مختلف نہیں ہوا۔ پہلے کہا گیا کہ جسے کورونا ایک مرتبہ ہو جائے اسے دوبارہ نہیں ہوتا۔ پھر جب ایسے سینکڑوں ہزاروں کیس سامنے آئے تو یہ بات غلط ثابت ہو گئی۔ جب ویکسین آئی تو کہا گیا کہ ویکسین لگوانے والوں کو دوبارہ کورونا نہیں ہو گا لیکن نہ صرف ایسے افراد کو کورونا ہوا بلکہ شدت کے ساتھ ہوا اور کئی تو جان کی بازی ہار گئے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ وائرس اپنی شکلیں تبدیل کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کے نئے نام بھی آ گئے۔ ہر ملک کے ساتھ وائرس کو مخصوص کیا جانے لگا۔ کورونا کی برطانوی قسم ‘بھارتی قسم اور اسی طرح برازیل کا وائرس۔ ان قسموں نے الگ خوف کی فضا بنائے رکھی۔اس وقت یورپ کے علاوہ پوری دنیا میں کورونا وبا کا اثر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ کاروبارِ حیات معمول کی جانب لوٹ رہا ہے۔ اس کی ایک مثال دبئی ایکسپو 2020 ہے جو اکتوبر میں شروع ہو چکی ہے اور اگلے سال مارچ تک جاری رہے گی۔یہ ایکسپو ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ گزشتہ برس کورونا کی شدت کے باعث اسے ملتوی کرنا پڑا تھا تاہم اس سال اس کا انعقادہو رہا ہے۔ایک سو بانوے ممالک اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ کورونا کے خوف کی فضا توڑنے کیلئے یہ ایونٹ اہم کردار ادا کر ے گا۔ اس کا دورانیہ طویل رکھا گیا ہے تاکہ کم وقت کے باعث ہجوم کو اکٹھا ہونے سے باز رکھا جائے۔ ہر ملک کیلئے الگ پویلین بنائے گئے ہیں۔ پاکستان پویلین کو مختلف صوبوں کے حوالے سے مہینہ وار تقسیم کیا گیا ہے۔ اکتوبر میں بلوچستان پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ بلوچستان اگرچہ پسماندہ صوبہ ہے لیکن یہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ اس کی ثقافت کے رنگ دبئی ایکسپو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پنجاب کی باری نومبر میں آئے گی۔دبئی ایکسپو میں یو اے ای کے بعد سعودی عرب کا پویلین سب سے بڑا ہے جو تیرہ ہزار مربع میٹر پر محیط ہے۔نمائش میں اڑھائی کروڑ سے زائد افراد کی آمد متوقع ہے جو دنیا بھر کی ایجادات ‘ ثقافت اور تہذیب کے رنگ ایک جگہ پر دیکھ سکیں گے۔ایکسپو میں آنے کیلئے ایک پاسپورٹ الگ سے بھی 25درہم میں ملتا ہے۔ آپ جس ملک کے پویلین کو وزٹ کرتے ہیں وہاں آپ کے پاسپورٹ پر اس ملک کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ پندرہ اکتوبر کو میلے میں پاکستان بزنس حب لانچ کیا جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی‘ صحت اور کاروباری ترقی کے حوالے سے ایونٹ منعقد کئے جائیں گے۔بلوچی پویلین میں ڈھابا ریسٹورنٹ بھی قائم کیا گیا ہے جہاں خاص بلوچی کھانے شایقین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
کورونا کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر ایکسپو کا اہتمام واقعی ایک شاندار اقدام ہے۔صدر عارف علوی بھی پاکستانی پویلین کے افتتاح کے سلسلے میں دو روزہ دورے پر دبئی میں ہیں۔پاکستان کیلئے یہ واقعی خود کو منوانے کا ایک اہم موقع ہے۔پاکستان کو دنیا تک رسائی تو ملے گی ساتھ ہی کاروباری ترقی کی نئی راہیں بھی ہموار ہوں گی۔پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں تو بہت پیچھے ہے لیکن ایکسپورٹس کی بات کی جائے تو پاکستان کپاس‘ چمڑے‘ٹیکسٹائل‘کھیلوں کے سامان کی برآمدات کے لحاظ سے پہلے دس پندرہ نمبروں پر آتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان ہیں جو کل آبادی کا باسٹھ فیصد ہیں۔ انہیں درست راستے پر لگادیا جائے تو یہ بھی ملکی ترقی کیلئے آکسیجن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق آئی ٹی کی برآمدات میں پاکستان نے گزشتہ تین برسوں میں ریکارڈ ترقی کی ہے۔ پاکستان کے سٹارٹ اَپ کلچر کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال 2021ء کے پہلے چھ ماہ میں سٹارٹ اپس کو ملنے والی 128ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہے جو گزشتہ تین برسوں کی کل حاصل ہونے والی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔ جس کے ساتھ ہی پاکستان گلوبل سٹارٹ اپس ایکو سسٹم انڈیکس 2021میں سات درجے بہتری کے ساتھ دنیا کے 75ممالک میں شامل ہو گیا ہے جبکہ ایشیا میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔کسی سٹارٹ اپ کو فنڈ ریزنگ تب ملتی ہے جب اس کا ٹریک ریکارڈ غیر معمولی ہو اور وہ ترقی کے راستے پر چل پڑا ہو۔ پاکستان میں ٹیک ایکو سسٹم تیزی سے مضبوط ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی کافی سپورٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایمزون بھی پاکستان کو سیلرز لسٹ میں شامل کر چکا ہے۔ پاکستان میں کورونا کے باوجود ایسی حیران کن خبریں سامنے آنا خوش آئند ہے ۔ ان شعبوں پر مزید توجہ دی جائے تو مزید معاشی کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔