مہنگائی اور بیروزگاری دو ایسے مسئلے ہیں جن کا دنیا کے تمام ممالک کو سامنا رہتا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے یہ صورتحال جدید ممالک میں بھی گمبھیر ہوگئی اور ہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ ے اور تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا۔ کورونا کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رہیں اور ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہونے لگا جس کے باعث تمام ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ دو سے تین مرتبہ تیل کی قیمت بڑھائی گئی لیکن پاکستان میں تیل کی قیمت میں بہت کم اضافہ کیا گیا۔ حکومت کے مطابق‘ اگر اسی نسبت سے تیل کی قیمت بڑھائی جاتی تو اس وقت پٹرول ایک سو اسی روپے سے تجاوز کر جاتا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بھی لامحالہ بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب اور درمیانہ طبقہ بہت متاثر ہوتا ہے؛ چنانچہ ایسے طبقے کو مہنگائی کی اس نئی لہر میں ریلیف دینے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فلاحی پروگرام کا اعلان کیا۔ سب سے بڑا اس لیے کہ اس کا فائدہ براہ راست ملک میں دو کروڑ سے زائد خاندانوں کو ہوگا اور یہ ایک سو بیس ارب روپے کی سبسڈی پر مشتمل ہوگا۔ وزیراعظم کے اس پیکیج سے چند روز قبل ملک میں ڈالر کی قیمت بے قابو ہورہی تھی تاہم سعودی عرب کے بروقت تعاون کے باعث ڈالر واپس آگیا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو تجارتی خسارہ اور قرضے ورثے میں ملے لیکن کورونا جیسا بحران‘ جو گزشتہ ایک سو برس میں اپنی نوعیت کا سنگین ترین بحران تھا‘ بھی اس دور حکومت میں ہی آیا‘ جس سے صرف پاکستان نہیں ساری دنیا متاثر ہوئی۔ بھارت میں لاک ڈائون لگا تو سب نے پاکستان میں بھی ایسے ہی لاک ڈائون لگانے کی تجویز دی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہوتی‘ لہٰذا لاک ڈائون کے بجائے یہاں سمارٹ لاک ڈائون لگائے گئے۔ اب پٹرول کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا نیا بحران آیا ہے اس کیلئے ایک ایسے ہی پیکیج کی ضرورت تھی جو کم آمدنی والے طبقے کیلئے آسانیاں لائے اور انہیں روزمرہ کی اشیائے خورونوش سستی ملیں۔ پیکیج کے تحت گھی‘ آٹا اور دال پر تیس فیصد سبسڈی دی جائے گی اور یہ اشیا چھ ماہ کیلئے سستی ہوں گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ پیکیج سبسڈی کی صورت میں فراہم کریں گی۔
اس ریلیف پیکیج میں بہت سی چیزیں نئی ہیں مثلاً یہ کہ یہ ریلیف ملک بھر کے کریانہ سٹورز اور یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے دیا جائے گا۔ ان میں ایسے کریانہ سٹورز بھی شامل ہیں جو شہروں میں ہیں اور ایسے بھی جو دیہات میں چھوٹے پیمانے پر کھلے ہیں‘ جیسا کہ دیہات میں ہوتا ہے کہ ایک گھر کے ڈرائنگ روم کی کھڑکی کھول کر وہیں سے چھوٹی سی دکان چلائی جاتی ہے۔ اتنے وسیع پیمانے پر کریانہ سٹورز کو اس پروگرام میں رجسٹر کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ دور دراز کے مقامات اور آبادی کا بڑا حصہ ریلیف سے محروم نہیں رہے گا۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اسلام آباد سے اس پیکیج پر لاہور کے سینئر صحافیوں کو آن لائن بریفنگ دی۔ بعد میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں بہت سے اشکالات دور ہوئے۔ ڈاکٹر ثانیہ نے طریقہ کار بارے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس پیکیج میں خریدار اور دکاندارکیلئے ٹیکنالوجی کو اپنا کر بہت آسانی پیدا کی گئی ہے۔ ملک بھر میں کریانہ سٹورز کیلئے بھی یہ سسٹم شروع کیا جارہا ہے۔ انہیں صرف بینک میں اکائونٹ کھلوانا ہوگا اور ایک اینڈرائڈ موبائل ایپ ڈائون لوڈ کرنا ہو گی جس میں وہ خود کورجسٹر کروائیں گے اور خریدار ی کے تمام ریکارڈ کا اندراج کرسکیں گے۔ خریدار کیلئے دو چیزیں درکار ہو ں گی۔ ایک تو موبائل جس کے ذریعے وہ سادہ پیغام وصول کرسکے اور دوسرا قومی شناختی کارڈ۔ وہ اپنے قریبی کریانہ سٹور میں گھی‘ آٹا اور دالوں کی خریداری کیلئے شناختی کارڈ لے کر جائے گا۔ دکاندار اس کا شناختی کارڈ نمبر اس موبائل ایپ میں درج کر ے گا تاکہ دیکھا جا سکے کہ صارف احساس پروگرام میں شامل ہے یا نہیں۔ موبائل ایپ براہ راست نادرا اور احساس ڈیٹا بیس سے اس خریدار کا ریکارڈ چیک کرے گی۔ اگر اس کی تنخوا ہ ساڑھے اکتیس ہزار سے کم ہے تو وہ خریداری کیلئے اہل ہوگا اور اسے حکومت کی جانب سے ایک پیغام موبائل فون پر ملے گا جس میں لکھا ہوگا کہ آپ کو آٹا‘ گندم اور دالوں پر تیس فیصد رعایت دی جارہی ہے۔ آپ کی واجب الادا رقم اتنی ہے۔ جس کے بعد صارف ایک مخصوص پن کوڈ‘ جو اسی پیغام میں ملے گا‘ دکاندار کو بتائے گا جس پر اسے خصوصی ڈسکائونٹ مل جائے گا اور اس کی یہ ٹرانزیکشن اس کے شناختی کارڈ اور موبائل فون کے تحت محفوظ بھی ہو جائے گی۔ اس طرح حکومت کو پورے ملک سے تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موصول ہوتا رہے گا جس سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے پالیسی سازی میں مزید آسانی پیدا ہوجائے گی۔
اس صورتحال میں اس سے اچھا پیکیج دینا شاید حکومت کیلئے ممکن نہ تھا۔ بہت سے لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ حکومت نے اتنا لمبا راستہ کیوں لیا۔ پریس بریفنگ میں بھی ایک صاحب نے یہ سوال اٹھایا تو ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ راشن پیکیج میں ریلیف دینے کے بجائے ایک ایک ہزار ماہانہ دو کروڑ لوگوں کو دینا حکومت کیلئے کہیں زیادہ آسان تھا لیکن اس سے عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف نہ ملتا۔ اس سے کم از کم سسٹم تو چلے گا اور لوگوں کی لائف لائن بھی برقرار رہے گی۔ بہت سی چیزیں جو سسٹم کا حصہ نہیں تھیں‘ وہ بن جائیں گی۔ پورے ملک میں ایک نئی اکنامک ایکٹویٹی ہوگی اور غریب لوگوں کو ان کی دہلیز پررعایتی اشیا بلا سفارش و رشوت میسرہوں گی۔ اس پروگرام کی خاص بات اس کا ٹیکنالوجی پر انحصار ہے۔ ہرچیز کو ہرمرحلے میں ڈیجٹلائز کیا گیا ہے۔ خریدار اگر کچھ خریدے گا تواسے اس کا خودکار میسج موصول ہوگا۔ دکاندار کچھ بیچے گا اس کا ریکارڈ اسے بھی میسر ہوگا۔ حکومت اگر ایک ایک ہزار کیش براہ راست دے دیتی تو پھر یہ کہا جاتا کہ لوگوں کو بھیک دی جا رہی ہے‘ انہیں بھکاری بنایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں چار سے پانچ ہزار یوٹیلٹی سٹورز اس پروگرام یا ڈیجیٹل سسٹم کا حصہ ہیں جبکہ آٹھ سے دس لاکھ ایسے چھوٹے چھوٹے کریانہ سٹورز ہیں جنہیں اس نئے سسٹم میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس سبسڈی میں وفاق کا پینتیس فیصد جبکہ صوبوں کا پینسٹھ فیصد شیئر ہوگا۔ پوری دنیا میں عوام کو سبسڈی دینے کیلئے ایسے ہی جدید ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ اس کیلئے علاقے کے کسی کونسلر کسی ایم پی اے کی سفارش کی ضرورت نہیں۔ کہیں اپنا نام ڈلوانے کی ضرورت نہیں۔ یہ درست ہے کہ اس اقدام سے مہنگائی مکمل ختم نہیں ہوگی لیکن دو کروڑ سے زائد خاندانوں کا چولہا ضرور جلتا رہے گا‘ ان پر مہنگائی کا بوجھ بھی کچھ نہ کچھ کم ہو گا‘ انہیں کسی کی منت سماجت نہیں کرنا پڑے گی اور وہ اپنے ہی شہر‘ اپنے ہی گائوں میں عزت کے ساتھ ہر ماہ اشیائے خورونوش خرید سکیں گے۔