دولت مند اور غریب میں بظاہر جو فرق دکھائی دیتا ہے وہ عالیشان گھر‘ قیمتی گاڑیوں‘ بینک بیلنس اور شاہانہ لائف سٹائل کا ہوتا ہے؛ تاہم بہت سی چیزیں جو نظر نہیں آ رہی ہوتیں اور جن پر کوئی غور نہیں کرتا‘ وہ ایسی عادات ہوتی ہیں جو خوشحال افراد میں ہوتی ہیں لیکن غریب طبقہ انہیں اہمیت نہیں دیتا جبکہ کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جن سے امیر یا کامیاب افراد چھٹکارا پا لیتے ہیں مگر غریب یا پیچھے رہ جانے والے انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
کامیاب اور امیر افراد میں گیارہ عادات ایسی ہوتی ہیں جو کوئی بھی اپنا لے وہ کمفرٹ زون سے نکل سکتا ہے۔ ایک‘ یہ لوگ خود سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ زندگی میں کہاں کھڑے ہیں؟ کوئی بھی تبدیلی کرنے یا قدم اٹھانے سے پہلے وہ اس کے فائدے اور نقصانات کا اندازہ لگاتے ہیں اور وہ صرف پیسے کو ہی مدنظر نہیں رکھتے بلکہ اپنے خاندان‘ کیریئر‘ صحت اور کاروبار کو سامنے رکھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ دو‘ یہ چھوٹے چھوٹے اہداف سیٹ کرتے ہیں۔ ایک بار جب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں سے شروع کر رہے ہیں، تو وہ پھر اس کا عملی پلان تیار کرتے ہیں۔ اس سے یہ واضح نظر آتا ہے کہ وہ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں۔ وہ ایسی سرگرمیوں سے بچتے ہیں جو ان کا وقت ضائع کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اسی فیصد امیر ایک وقت میں ایک ہی مقصد کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ اسے لکھتے ہیں اور پھر اسے ایسی جگہ رکھ لیتے ہیں جہاں ان کی نظر پڑتی رہے۔ تین‘ یہ لوگ صحت بخش خوراک کھاتے اور ورزش کرتے ہیں تاکہ ان کا جسم اور ان کا دماغ چاق چوبند رہے۔ امیر لوگ سمجھتے ہیں کہ صحت کے بغیر دولت کسی کام کی نہیں۔ معروف مصنف ٹام کورلی اپنی کتابRich Habits میں لکھتے ہیں کہ 70 فیصد امیر لوگ روزانہ 300 سے کم جنک فوڈ کیلوریز کھاتے ہیں جبکہ 97 فیصد غریب لوگ روزانہ 300 سے زیادہ جنک فوڈ کیلوریز کھاتے ہیں۔ 76 فیصد امیر لوگ ہفتے میں کم از کم 4 دن ورزش کرتے ہیں۔ صرف 23 فیصد غریب لوگ ہفتے میں کم از کم 4 دن ورزش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 84 فیصد دولت مندوں کا خیال ہے کہ اچھی عادتیں اچھے مواقع اور اچھی قسمت پیدا کرتی ہیں۔ چار‘ امیر لوگ کاموں کی فہرست بناتے ہیں جو انہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ زیادہ تر روزانہ کرنے کے اہداف بناتے ہیں تاکہ دن بھر منظم رہا جاسکے۔ کامیاب لوگ مستقل مزاجی کے ساتھ اس فہرست پر عمل بھی کرتے ہیں۔ پانچ‘ کامیاب لوگ منفی سوچ اختیار نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بدتر کوئی چیز نہیں جو ان کے ذاتی خیالات کو تباہ کر دے۔ اس طرح امیر اور غریب کی سوچ میں بھی فرق آجاتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ ایک غریب شخص جو کچھ خریدنا چاہتا ہے وہ سوچے گا، ''افسوس میں اسے نہیں خرید سکتا‘‘۔ دوسری طرف، امیر لوگ خود سے پوچھے گا، ''میں اسے کیسے خرید سکتا ہوں؟‘‘ چھ‘ امیر لوگ غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ ہنری فورڈ نے کہا تھا ''کسی جگہ ناکامی ہو تو زیادہ محنت کے ساتھ دوبارہ کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ دولت مند سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جاننا ناممکن ہے اور ناکامی زندگی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل علم کی تلاش میں رہتے اور سوالات پوچھتے ہیں۔ سات‘ امیر لوگ اپ ڈیٹ رہنے کیلئے مسلسل مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 88 فیصد دولت مند ہر روز 30 منٹ یا اس سے زیادہ وقت خود کو بہتر بنانے کے لیے پڑھتے ہیں بہ نسبت 2 فیصد غریب افراد۔ آٹھ‘ امیر پیسے کے لیے کام نہیں کرتے۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ تنخواہ حاصل کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ اگر آپ پیسے کے لیے کام کرتے ہیں، تو آپ اپنے آجر کو طاقت دیتے ہیں لیکن اگر پیسہ آپ کیلئے کام کرتا ہے‘ تو آپ اپنی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں اور اسے بڑھا سکتے ہیں جبکہ غریب تنخواہ کے چیک سے لے کر اگلی تنخواہ کے چیک تک کے گرداب سے ہی نہیں نکل پاتا۔ امیر اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور دانشمندی سے سرمایہ کاری پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ سیکھنے کیلئے کام کرتے ہیں تو آپ کامیابی کے راستے پر گامزن ہوں گے۔ نو‘ امیر لوگ حلقہ احباب بڑھاتے رہتے ہیں۔ دولت مند سمجھتے ہیں کہ اپنے دائرے کو وسیع کرنے کیلئے دوسروں کے ساتھ جڑنا انتہائی ضروری ہے۔ دس‘ وہ سیلز اور مارکیٹنگ کے فن سے واقف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ''سیلز اور مارکیٹنگ‘‘ میں اچھا ہے تو اس کے پاس کامیابی کے اوزار ہو سکتے ہیں‘ چاہے وہ کسی بھی میدان کا انتخاب کرے۔ دولت مند لوگ یہ جانتے ہیں اور مواقع کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے خود ''مارکیٹ‘‘ کرتے ہیں اور پھر جس کو بھی ضروری ہو اسے قائل کرتے ہیں۔ اور گیارہویں عادت جو امیر لوگ اپناتے ہیں وہ مالی معاملات کا انتظام ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگوں کو پیسے کا انتظام کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا۔ بس ہمیں سکول جانا اور نوکری حاصل کرنا سکھایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پیسے ملتے ہیں۔ دولت مند اپنے مالی معاملات میں بہت زیادہ حساس اور متحرک ہوتے ہیں۔ پیسہ کب‘ کہاں اور کتنا خرچ کرنا ہے اس فن میں وہ مہارت حاصل کرتے ہیں۔
دوسری جانب غریب لوگوں میں آٹھ ایسی عادتیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ کمفرٹ زون سے نہیں نکل پاتے۔ ایک‘ یہ پیسے کے لیے کام کرتے ہیں‘ سکلز یا تجربے کیلئے نہیں۔ زیادہ تر غریب لوگ خوف کی وجہ سے پیسے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اگر وہ کام نہیں کرتے ہیں، تو انہیں معاوضہ نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ ممکنہ چھٹیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو زیادہ تر کے پاس بیک اپ پلان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی قسم کی ملازمتوں پر کام کرتے رہتے ہیں جس طرح کی وہ پہلی بار شروع کرتے ہیں۔ کچھ مختلف کرنے کی کوشش کرنے اور نئی تجارت یا ہنر سیکھنے کی وہ کوشش نہیں کرتے۔ دو‘ غریب لوگ لاٹریوں‘ کمیٹیوں اور انعامات کی بارش کے انتظار میں رہتے ہیں۔ تین‘ دیر سے سونا۔ غریب امیروں کی نسبت دیر سے سوتے ہیں اور یا تو وقت پر کام پر پہنچتے ہیں یا دیر سے۔ دوسری طرف، دولت مند لوگ کام پر جانے سے اوسطاً تین گھنٹے پہلے جاگ کر زیادہ کام کرتے ہیں۔ چار‘ غریب لوگ کام کو لٹکاتے اور تاخیر کرتے ہیں۔ امیر لوگ بڑے فیصلے تیزی سے کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق انہیں تبدیل کرتے ہیں۔ پانچ‘ یہ تبدیلی سے گریز کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہجوم سے الگ ہونے میں ناکامی کی وجہ سے غریب رہتے ہیں۔ وہ اپنے کمفرٹ زون میں ہی ذہنی سکون پاتے ہیں اور کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے بچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ دولت کے حصول کا تقاضا ہے کہ آپ خطرات مول لیں۔ زیادہ تر غریب ایسا نہیں کرتے، اور اسی وجہ سے زیادہ تر امیر نہیں ہیں۔ چھ‘ یہ بچت میں لگے رہتے ہیں۔ خطرات مول لینے کی بات کرتے ہوئے‘ جب پیسے بچانے کی بات آتی ہے‘ غریب لوگ عام طور پر محفوظ راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ پیسے کھونے کو حقیر سمجھتے ہیں اور اسے کم سود والے بچت کھاتوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سات‘ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے یا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں، تو آپ کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
حاصل کلام ‘عادتیں بدلنے میں کوئی پیسہ نہیں لگتا اور اگر عادتیں تبدیل کر لی جائیں تو زندگی بہتر بھی ہو سکتی ہے اور خوش حال بھی۔