لاہور میں سموگ کا سیزن شاید چار یا پانچ سال قبل آیا تھا جب اچانک دوپہر کے وقت موسم تبدیل ہو گیا‘ روشنی انتہائی کم ہو گئی اور یوں لگا جیسے شام کا وقت آن پہنچا ہو۔ لاہور کے شہری چونکہ انجوائے کرنے کے معاملے میں دنیا میں سرفہرست ہیں لہٰذا وہ سمجھے‘ یہ سردیوں کی دھند ہے اس لیے لوگ غور در غول گھروں سے نکلے اور پارکوں‘ بازاروں اور تفریحی مقامات کا رخ کر لیا۔ شام کے وقت موسم اور بھی ظالم ہو گیا تو لوگوں نے بار بی کیو گرل اور سیخیں وغیرہ بھی نکال لیں اور چھتوں پر چڑھ کر تکے کھانے لگے۔ رات گئے تک آدھا لاہور کھلے آسمان تلے آ چکا تھا اور تکے کبابوں کے ساتھ اچھی خاصی سموگ بھی پیٹ اور پھیپھڑوں جا چکی تھی‘ تب جاکر پتہ چلا کہ یہ کوئی مری یا نتھیا گلی کے بادل نہیں بلکہ بھارتی کسانوں کے کارناموں کا خمیازہ تھا جسے لاہوریوں نے اگلے کئی ہفتوں تک یوں بھگتا کہ ہسپتال کے ہسپتال سانس اور دمے کے مریضوں سے بھر گئے۔ شروع میں تو لوگوں کو اس کے علاج اور پرہیز کا بھی صحیح علم نہیں تھا اور نہ یہ پتہ تھا کہ نیبولائز کرنے یا بھاپ وغیرہ لینے سے افاقہ ہو سکتا ہے‘ اس لیے نقصان کی شرح زیادہ تھی۔ اس سال مگر کورونا‘ ڈینگی اور سموگ کے درمیان مقابلہ جاری ہے کہ کون زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ جن لوگوں کو کورونا ہو چکا ہے شاید ان کی امیونٹی کم ہو چکی ہے‘ اس لیے ڈینگی کے کیس بھی زیادہ شدت کے ساتھ آ رہے ہیں اور ہلاکتیں بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہیں؛ تاہم یہ سموگ تو بالکل سمجھ سے باہر ہے کہ سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔ کورونا میں شہریوں کو شاید ماسک پہننے کی اتنی ضرورت نہ تھی جتنی اب ہے کیونکہ کورونا میں تو جراثیم کسی دوسرے شخص کی کھانسی‘ چھینک وغیرہ سے لگنے کا اندیشہ تھا‘ لیکن سموگ تو ہر سانس کے ساتھ جسم کے اندر جا کر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ نزلہ‘ کھانسی‘ گلا خراب‘ سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ خاص طور پر سانس یا دمے کے مریض اور چھوٹے بچے اس کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔
ایک طرف دنیا میں ترقی اور جدت کا مقابلہ جاری ہے دوسری جانب ماحول اور موسمی تبدیلیاں ہیں جن پر ترقی پذیر ممالک میں کام ابتدائی مراحل میں بھی داخل نہیں ہوا۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور حالات سے گزر رہا ہے جن میں سیلاب‘ خشک سالی‘ طوفان‘ شدید بارشیں اور بلند درجہ حرارت شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی انسانوں کے ساتھ ساتھ اب ممکنہ طور پر جانوروں پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافہ برداشت کرنے کے لیے ممکنہ طور پر گرم خون والے کئی جانور اپنی ہیئت تبدیل کرنے لگے ہیں۔ اس تبدیلی کے پیش نظر آسٹریلوی طوطوں سے لے کر یورپی خرگوش اور امریکی پرندوں تک‘ کہیں کسی جانور کی چونچیں بڑی ہونے لگی ہیں تو کہیں کسی کے کان اور دُم بڑے ہونے لگے ہیں‘ جن کی مدد سے وہ اپنے جسم کے درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند آپس میں ملتے ہیں تو سموگ بناتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی فضائی آلودگی ہے جسے فوٹو کیمیکل سموگ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ نہ صرف سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ ہماری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ سموگ سے متاثرہ افراد کی علامات بھی کورونا سے ملتی جلتی ہیں یعنی اس میں بھی نزلہ‘ زکام‘ کھانسی اور بخار ہوتا ہے اس لئے فوری طور پر نہ مریض کو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس بیماری میں گرفتار ہوا ہے‘ نہ ڈاکٹر اتنی جلدی تشخیص کر پاتے ہیں۔ پھر یہاں آپ کو ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں مل جائیں گے جو نہ تو کورونا کو کوئی بیماری مانتے تھے اور نہ ہی سموگ کو خطرناک وبا سمجھنے کیلئے تیار ہیں۔ ایک طبقہ تو ہر وقت یہی کہنے کو تیار ہوتا ہے کہ یہ سب آئی ایم ایف یا عالمی ادارہ صحت کا ایجنڈا ہے تاکہ ملکی معیشت اور عوام کی حالت مزید خراب کرکے اسے اور قرضے لینے پر مجبور کیا جائے اور پھر ان قرضوں کے ذریعے سود کے نئے شکنجوں میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بیماریوں نے قوم کو واقعی ایک نئی آزمائش میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے‘ روزگار کے ذرائع کم ہو رہے ہیں‘ اجناس کی پیداوار اگر زیادہ ہوتی بھی ہے تو اس سے عوام مستفید نہیں ہو پاتے۔ زیادہ پیداوار ہونے پر گندم اور چاول کو برآمد کر دیا جاتا ہے اور غریب لوگ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ رہائش کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کا اعلان کیا تھا لیکن اس میں بہت سا وقت درکار ہے اور تعمیراتی سامان کی قیمتیں بڑھنے سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔ شہروں کو تو چھوڑیں اب دیہات میں بھی زمینوں کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ سموگ کی ایک بڑی وجہ درختوں اور سبزے کا خاتمہ ہے۔ آپ قصور سے دیپالپور یا اوکاڑہ کی طرف چلے جائیں‘ یا راوی کراس کرکے جی ٹی روڑ کی طرف جائیں تو آپ کو ہر طرف چھوٹی چھوٹی نئی رہشی سکیموں کے بورڈ دکھائی دیں گے۔ بعض سکیمیں اتنی چھوٹی ہیں کہ ان میں پچاس گھر بھی مشکل سے بنتے ہوں گے لیکن یہ سب ہمارے پیٹ کاٹ کر بنائے جا رہے ہیں یعنی ان فصلوں اور اجناس کی جگہ جن سے انسانوں نے اپنا پیٹ بھرنا تھا۔ کراچی میں ایک نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم آیا ہے لیکن ملک بھر میں یہ جو غیرقانونی تعمیراتی منصوبے بدستور گرین ایریاز پر بن رہے ہیں ان کو لگام دئیے بغیر سموگ‘ خوراک اور معیشت کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
وہ نسل جس نے اس ملک کی آبیاری کرنی ہے‘ اگر حالات یہی رہے تو کچھ ہی برسوں بعد خلائی ماسک اور آکسیجن لگا کر سکولوں کالجوں میں جایا کرے گی۔ ابھی تو کھانا پکانے کے لئے گیس نہیں مل رہی تب اتنی بڑی تعداد میں آکسیجن کہاں سے ملے گی۔ جو آکسیجن سلنڈر چار ہزار روپے میں عام ملتا ہے وہ کورونا وبا میں پچاس پچاس ہزار روپے تک فروخت ہوا۔ پاکستان میں ایسے مافیاز کی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ ہر آفت اور مصیبت کو پیسہ بنانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہ سموگ بھارت سے آ رہی ہے یا اسی ملک سے‘ اس کی جو بھی وجوہات ہیں ان کے بارے میں قومی سطح پر اور ہنگامی طور پر کام ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اس حوالے سے عالمی برادری سے بھی مدد لینی چاہیے اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس عذاب سے جان چھڑانے کا سامان کرنا چاہیے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں ٹشو کا ایک ڈبہ خالی کر چکا ہوں کیونکہ سموگ کے اثرات ہر اس شخص تک پہنچ رہے ہیں جو اس ملک میں سانس لے رہا ہے اور ہم احتیاط تو کر سکتے ہیں لیکن سانس لینا تو نہیں چھوڑ سکتے کہ جب تک فرشتہ اجل نہ آ جائے جبکہ کورونا ‘ڈینگی اور سموگ کی پارٹنرشپ کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ تیسری دنیا کے باسیوں کو خود فرشتہ اجل کے پاس بھیجنے کے متمنی ہیں!