ایجادات کے ذریعے دنیا کا رُخ بدلنے والے تمام افراد کا تعلق عام گھرانوں سے تھا۔ یہ عام سی زندگی گزارتے تھے۔ انہی کالجوں یونیورسٹیوں میں جاتے تھے جہاں دیگر جاتے اور ان کے پاس بھی اتنا ہی وقت‘ وہی ہاتھ پائوں اور وہی دماغ ہوتا جو دوسرے کروڑوں اربوں لوگوں کے پاس تھا لیکن یہ دیگر لوگوں سے مختلف سوچنے اور کرنے کے عادی تھے۔یہ دنیا کو آسانیاں فراہم کرنے کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کرتے اور بالآخر اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو گئے۔
ایپل کا بانی سٹیو جابز بھی ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد عبدالفتّاح جندلی کا تعلق شام سے تھا اور ماں جوآنی شیبیل امریکن تھی‘ یہ دونوں یونیورسٹی میں دوست تھے؛ چنانچہ توقع اور ماحول کے عین مطابق سٹیو جابز اپنے والدین کی شادی سے قبل پیدا ہو گیا؛ تاہم اس شخص نے اتنا نام اور پیسہ بنایا کہ جب اس کا انتقال ہوا اور اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ سٹیو کی کمپنی کے پاس امریکی حکومت سے 76 ارب 40کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کی نقد رقم موجود ہے تو دنیا نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ کہتے ہیں زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا سوا لاکھ کا‘ سٹیو کی وفات کے بعد یہی ہوا۔ اس کی کمپنی اس کی وفات کے بعد دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا شروع ہو گئی۔ یہ ٹیکنالوجی کا بادشاہ کہلایا لیکن یہ بادشاہ بچپن سے ہی چڑچڑا رہتا تھا‘ اس کی ایک وجہ اس کا وہ غصہ اور حاکمانہ رویہ تھا جو اسے والدین سے ورثے میں ملا۔ دوسری جانب سٹیو نے ٹیکنالوجی کو وہ شیپ دی جو اتنی زبردست اور شاندار ہے کہ سٹیو کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ ایپل بڑی کمپنی ہے یا مائیکرو سافٹ؟ سٹیو جابز بڑا آدمی تھایا بل گیٹس اور اس سوال کی وجہ سٹیو جابز کی وہ ایجاد ہے جس نے اسے مرنے کے بعد بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔
سٹیو معروف کمپیوٹر ساز ادارے ایپل کا بانی اور سی ای او تھا۔یہ درست ہے کہ ایپل مائیکروسافٹ سے بڑی کمپنی بنتی جا رہی ہے‘ اس نے جدید ترین کمپیوٹرز‘ موبائل فون ڈیوائسز‘ سافٹ ویئرز اور آپریٹنگ سسٹم متعارف کرائے ہیں‘ اس نے میکن ٹاش‘ ڈیزائننگ‘ اینی میشن‘ گیمنگ‘ آئی پوڈ‘ آئی ٹیونز‘ آئی فون اور آئی پیڈ جیسی تہلکہ خیز ایجادات کیں اور ان ایجادات نے ٹیکنالوجی کو نئی جدت اور نئی سمت فراہم کی‘ اس نے کمپیوٹر کو مختصر کر کے کتاب کی ضخامت کے آئی فون میں سمو دیا‘ اس نے لاکھوں کتابوں کو ایک آئی پیڈ میں سمو کر کتب بینی کو بھی زندہ کیا‘ اس کے بنائے گئے ایپل سٹور میں اکیس لاکھ سے زائد ایپلی کیشنز موجود ہیں‘ اس میں مچھر کو بھگانے والے سافٹ ویئرز سے لے کر دنیا کے ہر علاقے اور محلے کا نقشہ تک موجودہے‘ اس میں دنیا کے ہزاروں اخبارات کے تازہ ترین ایڈیشنز پڑھے جا سکتے ہیں‘ اس کے ذریعے گھر‘ گاڑی‘ دفتر کہیں سے بھی براہ راست لوگوں کے ساتھ وڈیو چیٹ یا وڈیو کانفرنس کی جا سکتی ہے اور ان ڈیوائسز اور ان ایپلی کیشنز سے دنیا بھر کے ممالک اور اربوں لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں لیکن اتنی انقلابی ٹیکنالوجی دنیا کو دینے کے باوجود سٹیو جابز اپنی ذات‘ اپنی صحت پر توجہ نہ دے سکا۔ وہ اپنے لئے وقت نہ نکال سکا اور شاید کامیاب لوگوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ اُن کا وقت اُن کیلئے نہیں ہوتا‘ وہ اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ سٹیو کو پہلے بیس برس میں ہی ٹرننگ پوائنٹ مل گیا تھا‘ وہ سان فرانسسکو کی کمپیوٹر ویلی میں جاتا تو جدید ترین آلات اور ڈیوائسز سے بہت متاثر ہوتا‘ وہاں اس کی ملاقات ایک نو عمر لڑکے سٹیفن وزنک سے ہوئی‘ یہ ملاقات گہری دوستی میں بدل گئی اور یہ گہری دوستی بعد ازاں ایپل کارپوریشن کی بنیاد بنی۔سٹیو ریڈ کالج میں داخل ہوا اور صرف ایک سمسٹر کے بعد نکال دیا گیا‘ اس کے بعد اس نے عجیب حرکتیں شروع کر دیں‘ وہ انیس برس کی عمر میں بھارت پہنچا‘ بدھ مت اختیار کی اور واپس آیا تو گوشت چھوڑ دیا اور خود کو پھلوں اور سبزیوں تک محدود کر لیا‘ پھر اس نے ایک کمپیوٹر کلب جوائن کیا‘اس کا دوست سٹیفن اس کے ساتھ تھا۔دونوں نے ایک الیکٹرانک بورڈ بنایا اور اس کا نام ایپل رکھا اور اس نام کی وجہ سٹیو کی نیچر سے محبت تھی۔وہ چاہتا تھا کہ لوگ جدید ٹیکنالوجی اپنائیں لیکن قدرت سے بھی قریب رہیں‘ 1977ء میں اس نے ایپل ٹو بنایا‘یہاں سے اسے بریک تھرو مل گیا‘ کاروبار پھیلانے کیلئے اُسے پیسے کی ضرورت تھی‘ اس نے اِنٹیل کمپنی کے ایک انجینئر مارک کو ساتھ ملایا جس نے اس دعوے کے ساتھ اڑھائی لاکھ ڈالر انویسٹ کئے کہ یہ کمپنی دو سال میں سٹاک ایکسچینج میں ہلچل مچا دے گی۔مارک سچا تھا‘ 1980ء میں یہ کمپنی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہوئی اور اس کی آمدنی دو سو ملین ڈالر کراس کر گئی۔اس وقت سٹیو کی عمر محض پچیس برس تھی‘ پھر اس نے آسان ترین کمپیوٹر سسٹم میکن ٹوش بنانے کا فیصلہ کیا۔میکن ٹوش شروع کے چند ماہ کامیاب رہا لیکن جلد ہی ٹھنڈا پڑ گیا‘جس پر کمپنی کے ارکان نے سٹیو کو کمپنی سے عملی طور پر علیحدہ کر دیا اور اسے برائے نام چیئرمین بنا دیا۔ یہ سٹیو کیلئے دھچکا تھا‘ ایپل اس کی زندگی تھی‘اس نے ہمت نہ ہاری اور ایک دوست جارج لوکاس سے مل کر کمپیوٹر اینی میشن اور گیمنگ انڈسٹری میں قدم رکھ دیا اور جلد ہی ایک کمپنی دس ملین ڈالر میں خرید لی‘پھر اس نے نیکسٹ کے نام سے کمپیوٹر بنانے کا اعلان کیا‘ اس میں بھی کامیاب ہوا‘ 1997ء میں ایپل ڈوبنے لگا تو سٹیو کی منت سماجت کر کے اُسے واپس بلایا گیا۔ سٹیو کے واپس آتے ہی یہ کمپنی دوبارہ پھل دینے لگی اور اس وقت سے لے کر 24اگست2011ء کی ریٹائرمنٹ تک سٹیو اپیل کا سی ای او رہا۔ اس دوران اس نے آئی پوڈ‘ آئی فون‘ آئی پیڈون اور ٹو سمیت 338 ایجادات متعارف کرائیں‘ اسے لبلبے کا کینسر تھا اور یہ کینسر اسے 56برس کی عمر میں اُچک کر لے گیا‘ اس کی موت نے ایپل کے شائقین کو سوگوار کر دیا اور یہ موت اس دنیا کی حقیقت ہم سب پر آشکارا کر گئی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم سب نے ایک دن مرنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دنیا بہرحال جینے کیلئے بنائی گئی ہے۔ موت اگر حقیقت ہے تو دنیا بھی ایک حقیقت ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مر تو جانا ہی ہے تو پھر اتنا کچھ کرنے کا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ اگر کھانا پینا‘ جاگنا سونا ہی زندگی ہے تو یہ کام تو جانور بھی کر رہے ہیں‘ پھر یہ کائنات‘ یہ دنیا بنانے کا مقصد کیا تھا؟اگرانسان تمام مخلوقات میں افضل قرار دیا گیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان سوچ سکتا ہے اور اس سوچ کے ذریعے دنیا کو بہتر بھی بنا سکتا ہے اور بد تر بھی۔ مسلمان چین کی نیند سو رہے ہیں جبکہ دنیا کی تمام تر ایجادات یہودیوں اورعیسائیوں کے ہاتھوں ہو رہیں حتیٰ کہ دنیا کی ٹاپ ٹیکنالوجی کمپنیوں ٹوئٹر‘گوگل‘ مائیکرو سافٹ‘ الفابیٹ‘ ایڈوب‘ آئی بی ایم کے سی ای اوز کے عہدے بھی بھارتیوں نے چھین لئے ہیں اور خدشہ بھی یہی تھا کہ اگر بھارتیوں نے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کی سربراہی سنبھال لی تو پھر وہ اسے مکمل طور پر اپنی پالیسی اور اپنی مرضی کے مطابق چلائیں گے‘ اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا‘ یقین نہیں آتا تو اپنے فیس بک اکائونٹ سے کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف دو تین پوسٹس کر کے دیکھ لیں‘ آپ کا اکائونٹ بلاک کر دیا جائے گا۔